بادشاہ سلامت ہمارے پاس الفاظ ہی تو ہیں انہیں زنجیرمت پہنائیے


سنسر شپ اور طاقت کے زور پہ اظہار رائے کو دبانا ہمیشہ ناکام کیوں رہتا ہے؟

جب سچ کو دبایا جائے اور خاموش رہنے کا مطالبہ کیا جائے تو خاموشی در حقیقت جھوٹ ہوتی ہے۔اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ہمارے الفاظ ہمارے جذبات کا اظہار ہیں

سوچ اور اظہار رائے پر لگائی گئی پابندی تاریخ میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ہمیشہ ایک جھوٹا شخص ہی اظہار رائے کے آزادانہ استعمال سے پریشان ہوتا ہے سچے انسان کو اس کی پرواہ کبھی نہیں ہوتی۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے۔ہمارے الفاظ ہمارے جذبات کا اظہار ہیں۔

آزادی اظہار رائے بھی انسان کا اتنا ہی بنیادی حق ہے جتنا کہ سانس لینا۔پھر کیسے یہ حق کسی سماج میں دفاع یا حفاظت کے نام پہ جھٹلایا جا سکتا ہے۔صرف فاشیسٹ ہی اس کا انکار کر سکتے ہیں۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ۔ہمارے الفاظ ہمارے جذبات کا اظہار ہیں

آپ کسی بات پہ جتنی پابندی لگائیں گے اس کے بارے میں اتنی ہی بحث کی جائے گی۔حضرت آدم جو پہلے بشر تھے وہ سیب کھانا نہیں چاہتے تھے دراصل وہ منع کیے گئے پھل کو توڑنا چاپتے تھے۔میں سوچتا ہوں اگر خدا نے شیطان کو حرام قرار دیا ہوتا تو وہی سب سے پہلے انسان کا نشانہ بنتا۔پابندی بغاوت کو پروان چڑھاتی ہے اور مجرم کے خلاف نفرت کو پنپتی ہے۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ۔ہمارے الفاظ کو ہر بات بیان کرنے دیجیے۔

جبر کبھی موثر نہیں ہوتا۔الفاظ کچلے ہوئے لوگوں کا پرامن اظہار کا ذریعہ ہوتے ہیں۔جب ایسے اظہار کو جبری طور پہ روکا جاتا ہے تو اس سے حکومت کے خلاف اختلاف پروان چڑھتا ہے۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ہمارے الفاظ ہمارے ہر جذبے کا اظہار کرتے ہیں

کیونکہ ہاں میں ہاں ملانے والے شخص کی کوئی اخلاقی حثیت نہیں ہوتی ۔جو انسان سوال کرتا ہے وہی انسان قابل قدر ہوتا ہے ۔جتنا آپ اسے دبائیں گے اتنا کی شدید اختلاف رائے پروان چڑھے گا۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ہمارے الفاظ ہمارے جذبات کا اظہار ہیں

ایک مفکر یا مصنف جس کی زبان کھینچ دی جائے جس کی اظہار رائے پہ پابندی ہو وہ اتنی ہی شدت سے کھل کے لکھے گا۔وہ الفاظ جو جلد پھیل جائیں ان سے ڈرنا چاہیے ۔سچائی اس دنیا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہے ۔جب آپ کسی انسان کی زبان بندی کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ اس کے الفاظ سے خوف ذدہ ہیں۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ہمارے الفاظ ہمارے جذبات کا اظہار ہیں۔

کیونکہ ایک مصنف کے جذبے کو کوئی بھی بات اتنا نہیں بھڑکا سکتی جتنا کہ یہ حکم کہ ظالمانہ احکامات کی ترویج کے لیے قلم کا استعمال کیا جائے۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ہمارے الفاظ ہمارے جذبات کا اظہار ہیں۔

ایک مصنف اور ایک آزاد ذہن یہ جانتا ہے کہ الفاظ کے بغیر ہم مردہ ہیں ۔پھر خوف یا موت یا پھر تشدد بے معنی ہیں۔

اس لیے ہمیں کہنے دیجیے ہمارے الفاظ ہمارے جذبات کا اظہار ہیں۔

ایک ایسا ملک جس میں بھیڑیے دنداناتے پھرتے ہوں اور علم والے لوگوں پر اظہار رائے کی پابندی ہو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہاں علم و اظہار کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ بھیڑیوں کی آزادی کا مطلب بھیڑوں کی موت ہی ہوتاہے ۔

ترجمہ :ثنا بتول


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).