مولانا آزاد، دو قومی نظریہ اورتقسیم ہند  


\"shakeelسید عابدعلی  بخاری  صاحب  نے اپنے مضمون’’ابوالکلام آزاد‘ قائد اعظم اور پاکستان‘‘ میں میر ی فرد جرم میں وہ مکالمہ بھی شامل کردیا ہے جو میں نے ’نامور‘ کالم نگار ارشاد  عارف صاحب سے کیا تھا ۔  اس کے بعد ان کا فرمانا ہے کہ ’’وہی سوالات اٹھا کر ہر ایک کے منہ میں ڈالنے کا آخر مطلب کیا ہے؟ اس سے واضح بات جو ظاہر ہوتی ہے کہ مکالمے کی روایت کو آگے بڑھانا ان کا مقصد نہیں بلکہ اپنی بات منوانی اور دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنا مقصد ہے ۔ خیال رہنا چاہیے کہ بحث و مباحثہ اور کج بحثی میں بڑا فرق ہے۔ تنقید اور تنقیص کے فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو نگاہ صرف نقص پر ہی نہیں پڑتی ۔‘‘ میری کیا مجال کہ  میں  اپنے سوالات کسی کے منہ میں ڈالوں ۔ میں نے تو کچھ سوالات ارشاد صاحب اور ان سے پوچھے تھے۔ ان میں کچھ شاید ایک جیسے ہوں ۔ لیکن ان میں سے اکثر کا جواب مجھے اب تک نہیں مل پایا ہے۔

ارشاد عارف صاحب کے مندرجہ ذیل الفاظ   تا ئیدی انداز میں نقل فرمائے گئے  ہیں ”قائداعظم نے اپنی کابینہ میں سر ظفراللہ اور جوگندر ناتھ منڈل کو شامل کیا۔ یہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو تحفظ کا احساس دلانے اور انہیں امور سلطنت میں شامل کرنے کی عمدہ تدبیر تھی۔ میثاق مدینہ کی روح کے عین مطابق۔ اس اقدام سے کانگریس اور انگریز کے اس پروپیگنڈے کی نفی ہوئی کہ حقیقی اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک روا رکھے جانے کا احتمال ہے۔ انہیں اہلیت و صلاحیت کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملے گا اور ان کی وفاداری پر شک کیا جائے گا مگر قائداعظم کی اس رواداری‘  اعلیٰ ظرفی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اقلیت نوازی کا صلہ دونوں نے خوب چکایا۔ ایک نے اپنے اور قوم کے قائد کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا اور دوسرا پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد بھارت بھاگ گیا کیونکہ اسے ایک ہندو ریاست ہی راس تھی۔ “

کیا یہ درست نہیں  کہ میثاق مدینہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کو ایک امت قراردیا گیا تھا؟  اس بات کی روشنی میں دوقومی نظریہ کی حیثیت رہ جاتی ہے؟ کیا   1947میں پاکستان ایک حقیقی اسلامی ریاست بن چکاتھا؟کیا یہ اب ایک حقیقی اسلامی ریاست ہے؟جماعت اسلامی کے ترجمان’کوثر ‘ نے 16 نومبر 1947 کو کیوں لکھ دیا تھا \"maulana_azad\"کہ’’ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا اجتماعی نظام جن اصولوں پر قائم ہو رہا ہے ان اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم کسی قدر و قیمت کا مستحق نہیں سمجھتے‘‘؟ ظفراللہ خان نے جب جناح صاحب کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکارکیا تو انہیں فوری طور پر ا ن کے عہدے سے برخاست کیوں نہ کیاگیا؟ وہ  1954 تک  اپنے عہدے پر برقرار کیسے رہے؟ اس کے بعد بھی وہ بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کیوں کرتے رہے؟ اور ہاں ‘ وہ  1931میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کیسے بن گئے تھےاور قیام پاکستان کے لئے احمدی خلیفہ سے دعااور حمایت  کی درخواست کیوں کی گئی؟ ارشاد صاحب  نے   جوگندر ناتھ منڈل  کے بارے میں جس طرح گفتگو کی ہے کیا وہ تنقیص کے  زمرے میں نہیں آتی؟  کیا ایک ’نامور‘ کالم نگار کوپاکستان کےبانیان میں سے ایک اور اس کے  پہلے وزیر قانون  کے بارے میں اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ  زبان  زیب دیتی ہے؟ وہ حلف اٹھانے کے فوراً بعد بھارت’ بھاگ‘ نہیں گئے تھے۔ اگر انہیں ’ہندوریاست‘ ہی راس ہوتی تو وہ تقسیم ہند سے پہلے  کانگریس کو ناراض کرکے مسلم لیگ کی حمایت کیوں کرتے؟  اگرارشاد صاحب  نے ان کے استعفا کا متن دیکھنے کی زحمت اٹھائی ہوتی تو شاید وہ ایسی زبان استعمال نہ کرتے۔ منڈل صاحب نےمشرقی پاکستان میں ہزاروں ہندوؤں کے قتل کے بعد کہا تھا کہ غیر مسلموں اور خاص طور پر ہندوؤں کے لئے پاکستان ایک موزوں ملک نہیں۔ روزنامہ مسلم‘ اسلام آباد کے سا بق ایگزیکٹو ایڈیٹر غنی جعفرکے مطابق منڈل صاحب ہمارے ایسے ہیرو تھے جن کی خدمات کا کبھی اعتراف نہیں کیا گیا۔ وہ اعلیٰ اخلاقی کردار کے مالک تھے  (ڈیلی ٹائمز‘  4مئی2011  )۔

میرے سوالوں جواب میں مجھے حب الوطنی  کے نام پر زبان بندی کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔فاضل مضمون نگار کو   اگر کبھی کسی غیر ملکی سے بحث کرنی پڑ گئی تو وہ اسے کیسے چپ کرائیں گے؟وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہم ایک ایسے دور ِ ستم سے گزر رہے ہیں جب اپنے بانیاںِ پاکستان کے دامن پر سیاہی کے چھینٹے ”چھڑک“ کر، قائد اعظم کی قیادت اور ویژن پر اپنی کم فہمی اور مایوسی کے تیر برسا کر، قیام پاکستان کی مخالفت اور قائد اعظم سے دشمنی کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ قومی خدمت سر انجام دی جا رہی ہے۔ مغربی اور بھارتی مصنفین کی تعصب اور بددیانتی پر مبنی تحریروں کو پیش کر کے یہ رونا روتے رہنا کہ ان کو حقائق چھپانے کے لیے
نظروں سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے درست نہیں۔‘‘ اس کے بعد مکالمہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟

کیا وہ چاہتے ہیں ان تمام تحریروں پر پابندی لگادی جائے جو ’سرکاری سچ‘ سے مطابقت نہ رکھتی ہوں؟  اگروہ اس سچ سے اختلاف کرے تو وہ اس پر کم فہمی اور مایوسی کے تیربرسانےاور نئی نسل کو پاکستان سے بدظن کرنے کا حکم صادر کردیں۔ وہ کن ’مغربی اور بھارتی مصنفین کی تعصب اور بددیانتی پر مبنی تحریروں ‘کی مذمت کررہے ہیں؟  مضمون نگار سے درخواست ہے کہ ان مصنفین کے نام بتا کر ہماری رہنمائی فرمائیں۔  میں نے تو مولانا مودودی ‘چودھری خلیق الزماں اور سردار شوکت حیات کے حوالے دئے تھے۔ ہاں ‘ یاد آیا میں نے ٖفریڈم اَیٹ مِڈنائٹ کا ذکر بھی کیا تھا۔ یہ تقسیم ہند پر دنیا کی مقبول ترین کتا ب ہے۔یہ 1975 میں شائع ہوئی اور اس  کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اگر یہ تعصب اور بد دیانیتی پر مبنی ہےتو آج تک کسی غیر متعصب پاکستانی مورخ نے اس کے تعصب کا چاک کیوں نہیں کیا؟ اس موضوع پر اس سے بہتر کون سی پاکستانی کتاب ہے؟ ویسے ہم نئی نسل کو چھوئی موئی بنا کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟ ہم کیوں یہ چاہتے ہیں  کہ ان کی رسائی  صرف’ سرکاری سچ‘ تک محدود ہو؟ کیا ہمیں ان پر اعتماد نہیں ہے؟  کیا ہمیں یہ دھڑکا تو نہیں لگا رہتا کہ اگر دوسرے نقظہ ٔ ہائے نظر تک ان کی رسائی ہوگئی تو پھر وہ’ سرکاری سچ ‘ پر یقین کرنا چھوڑ دیں گے؟اگر نئی نسل کا ایک حصہ’ سرکاری سچ‘  پر یقین کرنا چھوڑ بھی دے تو کونساآسماں ٹوٹ پڑے گا؟  ملک  آراء کے تنوع نہیں انہیں برداشت نہ کرنےسے نقصان اٹھاتے ہیں۔

اس بحث کے حوالہ سے میں نے ان سے پوچھا تھا۔ دیانت داری سے بتائیں کہ تقسیم ہند سے  مسلمانوں کے لئے مسائل پیدا ہوئے یا آسانیاں؟  جن ہندی مسلمانوں سے آ پ ملے  کیا ان میں سے کسی نے تقسیم ہند اور دو قومی نظریہ کے بارے میں تنقیدی خیالات کا اظہار کیا؟  ان میں سے کتنے پاکستان منتقل ہونا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے فرما یا تھا کہ کشمیر سے غلامی کا تصور واضح ہوتا ہے۔ میں نے جوباً ان سے یہ  پوچھا تھا’’ اگر کشمیر سے غلامی کا تصور واضح ہوتا ہے تو پھر مشرقی پاکستان سے کس چیز کا تصور واضح ہوتا ہے؟ وہاں انتخابات جینتے والوں کو اقتدار دینے کے بجائے گولیوں سے کیوں بھون دیا گیا تھا؟ ڈاکٹر اے کیو خان نے روزنامہ جنگ میں کیوں لکھ دیا ہے کہ وہاں ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کیا تھا؟‘کشمیر کے موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی میں نے ان سے پوچھا تھا کہ جماعت اسلامی ہند کشمیریوں کو غلامی سے نجات دلانے والی تحریک کی مخالفت کیوں کرتی ہے؟ ہاں ایک اور سوال‘ کیا وجہ ہے کہ جموں کشمیر کی جماعت اسلامی2003  میں حریت کانفرنس سے علیحدہ کیوں ہوگئی تھی؟ اگر مجھےکسی مسٔلہ پر جماعت اسلامی کے سرکاری موقف کی ضرروت پڑی تو میں یقیناً اس کے کسی ترجمان سے رابطہ کروںگا۔ میں تو ان سے ان کی ذاتی رائے پوچھ رہا تھا۔

\"51jjge4h4hl-_sx318_bo1204203200_\"سید علی گیلانی  اورآسیہ اندرابی صاحبہ کے بیانات کا  حوالہ بھی  دیاگیا ہے ۔ کیا یہ درست ہے کہ گیلانی صاحب نے کشمیر اسمبلی کے رکن کے طور پر تین دفعہ ہندوستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور کیا ان کے بیٹےظہور اور داماد  افتخارنئی دہلی میں رہتے  ہیں ؟کیا گیلانی صاحب کا پوتا اظہارہندوستان کی ایک نجی ہوائی کمپنی میں کام کرتا ہے؟ گیلانی صاحب کی بائیکاٹ کی اپیل کے باوجود  2014کے انتخابات میں پینسٹھ فیصد سے زیادہ ووٹ کیسے پڑگئے تھے؟ کیا یہ بھی درست ہے کہ آسیہ صاحبہ دوسروں کے بچوں کو جہاد کا درس دیتی ہیں لیکن انہوں نے  اپنے بیٹے کو  ہندوستانی پاسپورٹ پر ملائشیا بھجوادیا تھا؟ ستم ظریفی یہ ہے  کہ گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو کراپنی ڈیڑھ  اینٹ کی مسجد الگ بنالی ہے لیکن پھر بھی وہ جماعت اسلامی پاکستان کے پسندیدہ ترین کشمیری ہیں۔

میں نے مضمون نگار کی توجہ لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ)  سکندر خان بلوچ  کے  26جولائی 2013 کے نوائے وقت میں شائع ہونے والے مضمون کی توجہ مبذول کروائی تھی۔ ان کے مطابق کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کی سب سے بڑی وجہ اکتوبر 1947 میں کیا جانے والا کشمیر پر قبائلیوں کا حملہ تھا۔ ان قبائلیوں نے وہاں بلا تفریق مذہب و ملت لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا۔انہوں نے نے مجھے  تاریخ کو جھٹلانے کامجرم قراردے دیا ہےلیکن انہوں نے سکندر صاحب اور نوائے وقت کے بارے میں ایسی زبان استعمال نہیں کی ۔

مضمون نگار نے ہندوستان کو ’دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت‘ قراردیا ہے۔وہ ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے بتائیں دنیا کی سب سے بڑی حقیقی جمہوریت کونسی ہے؟  اس کے علاوہ انہوں نے  ’ہندو ذہنیت‘ کی بھی بات کی ہے۔ یہ اصطلاح کب اورکس نے وضع کی اور اس سے کیا مراد ہے؟ ؟ کیا تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ایک ارب سے زیادہ ہندو ایک سا ذہن رکھتے ہیں؟ کیا مسلم ذہنیت بھی اپنا وجود رکھتی ہے؟ بخاری صاحب ہندوستان کے سیکولر ازم سے بہت نالاں ہیں۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان آئینی طور پر ہندو ریپبلک بن جائے؟  کیا اس طرح ہندی اقلیتوں کے حالات بہتر ہوجائیں گے؟

انہوں نے تائیدی انداز میں حامد میر صاحب کی اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ رائے ٹھونسنے‘ تاریخ کی غلط تشریح کرنے‘بے معنی پروپیگنڈا کرنے‘ دانستہ یا نادانستہ قائد‘ اسلام‘ پاکستان اور اقبال کے خلاف بے بنیاد باتیں پھیلانے والے اور جھوٹ کی تجارت کرنے والے لبرل فاشسٹ ہوتے ہیں۔میر صاحب نے یہ تعریف کہاں سے لی ؟  بہرحال اس کا مطلب یہ ہے کہ لبرل فاشسٹ صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ اس تعریف پر پورے اترنے والے چند لوگوں کے نام ہمیں بتا دئے جائیں تو ہمیں مسئلہ سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔ میں نےاس سے جڑے کچھ اور سوال بھی پوچھے تھے  لیکن  اب تک میری رہنمائی نہیں کی گئی۔ کیا پاکستان میں کوئی حقیقی لبرل لوگ بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ہمیں ان کے اسمائے گرامی کیا ہیں؟  اور کیا پاکستان میں کوئی مذہبی اور نظریاتی فاشسٹ بھی موجود ہیں؟ اگر ہیں تو چند ایک کی نشان دہی بھی قارئین کے لئے فائدہ مند ہوگی۔حامد میر کوغدار قراردینے والےکونسی قسم کے فاشسٹ ہیں ؟ امریکی صحافی جونا گولڈبرگ  کی کتاب ’لبرل فاشزم ‘ کے بارے میں  مصنف کی  رائے  بھی ہم سب کے لئے رہنمائی کا سبب بن سکتی ہے۔

لگتا ہے کہ فاضل مضمون نگار نےاسیم کاویانی  صاحب کے مضمون’تقسیم ہند‘ (بزم اردو) اور فیروز بخت احمدکے جسونت سنگھ کے بارے میں ملی گزٹ میں  شائع ہونے والے مضامین سے کافی استفادہ کیا ہے۔بنیادی طورپر  یہ استفادہ مناظرانہ نوعیت کا ہے۔اگر انہوں نے مسائل کی تفہیم کے لئے استفادہ کیا ہوتا تو انہیں ان کے بہت سے سوالات  اور اعتراضات  کے جواب وہیں مل جاتے۔ اور تو اور انہوں وہ شعر جو اسیم صاحب  نے مولاناآزادکے بارے میں نقل کیا تھا وہ انہوں نے بڑی مہار ت سے اپنے اوپر منطبق کرلیا ہے۔

\"21TH_AZAD_1764887f\" پوچھا  گیا ہے  کہ پنڈت سندر لال کو کیوں لکھنا پڑا تھا کہ کبھی کبھی ہندوستانیوں سے آزاد کی جان بچانے کے لیے خاص انتظام کرنے پڑتے تھے؟ “ تاریخ بھی یہی کہتی ہے کہ آزاد کو آئے دن جیلوں کی ہوا بھی کھانا پڑتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ قائد ان ساری مصیبتوں کا شکار کیوں نہیں ہوئے؟ ان سوالوں  کا جواب وہیں موجود ہے جہاں سے عابد صاحب نے یہ نقل ماری ہے۔کیا مولانا آزاد کو  انگریزوں کا ساتھ نبھانے پرآئے دن جیلوں کی ہوا بھی کھانا پڑتی تھی؟  ویسے یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی بھی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر کے برے لوگوں کی صف میں شامل نہیں ہوگئے تھے؟

اسیم صاحب لکھتے ہیں ’’ مولانا آزاد کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بنے اور سب سے طویل مدت تک صدر رہے۔ انھوں نے کانگریس کو کیسے کیسے سیاسی بحرانوں سے نکالا۔ خود پارٹی میں تغیر پسند اور روایت پسند، ترقی پسند اور قدامت پسند کا ٹکراؤ کبھی کبھی کانگریس کو تقسیم کے دہانے پر لے گیا لیکن مولانا نے ہر بار کام یابی سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا راہ نکالی۔ اُ ن کی معاملہ فہمی، تدّبر اور متحدہ قومیت میں اٹل وشواس کی وجہ سے اُنھیں گاندھی جی کے بعد اہم مقام حاصل تھا۔ملک کی آزادی اور اتحاد کی جدوجہد میں مولانا عزم و استقامت کی چٹان بنے رہے اگرچہ انگریزوں نے کوئی طرزِ ستم چھوڑی نہ اپنوں سے کوئی تیر ملامت چھُوٹا۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کی تقریباً ایک دہائی قید و بند میں گزاری۔ احمد نگر کی اُن کی اسیری کے دور میں کلکتے میں اُن کی بیوی اور بھوپال میں اُن کی ہمشیرہ (آبرو بیگم) اپنی اپنی بیماری سے جان بر نہ ہوسکیں۔ اُن کے ساتھیوں نے فقر و فاقے میں بھی اُن کے صبر و استغنا کی شہادتیں دی ہیں اور یہ رنج و ابتلا اُنھوں نے اپنے امیری و کبیری کے ماحول کو وطن کے لیے تج کر منتخب کیا تھا۔مسلم لیگ، جس کے پالن ہار نواب اور زمین دار تھے، زندگی بھر مولانا کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہی۔ جب جناح نے اُس کی قیادت سنبھالی تو مسلم لیگیوں نے مولانا کو سدا اتہام اور دشنام کا نشانہ بنائے رکھا۔ پنڈت سندر لال نے لکھا ہے کہ ’کبھی کبھی اُن کی جان بچانے کے لیے خاص انتظام کرنے پڑتے تھے۔ ایسے موقع پر مہاتما گاندھی آہیں بھر کر یہ کہتے تھے کہ ’’آہ، ہمیں مولانا کے لیے یہ انتظام بھی کرنا پڑتا ہے!‘‘

مضمون نگار نے  دیانت داری  اور تحقیق کے تقاضوں  کو  بالائے طاق رکھتے ہوئے مولانا آزاد کے یہ  الفاظ نقل کئے ہیں ’پاکستان‘ کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اترتا۔ ‘ اس کے بعد انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے ’پاکستان کا نام آخر آزاد کو اس قدر کڑوا کیوں لگتا تھا؟‘ انہوں نے یہ قول پورانقل نہیں کیا جو  یوں ہے’’پاکستان‘ کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اُترتا۔ کیا دنیا میں کچھ حصّے پاک ہیں کچھ ناپاک؟‘‘ یہ تو وہی بات ہوئے ناں کہ لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ (نماز کے قریب نہ جاؤ)  تک پڑھ لیاجائے اور وَأَنْتُمْ سُكَارَىٰ  (جب تم نشے کی حالت میں ہو) کو چھوڑ دیا جائے۔

اسیم صاحب کے یہ الفاظ بھی شاید بخاری صاحب کی نظروں سے گزرے ہوں گے  کہ’’صاف بات یہ ہے کہ برّ صغیر کے مسلمانوں کی لیڈر شپ کی جناح کی تنہا دعوے \"20080606251108201\"داری کے لیے بھی مولانا آزاد کا وجود ایک چیلنج تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جناح نے اُنھیں کانگریس کا ’شو بوائے‘ کہا تھا اور ایک دو موقعوں پر مولانا کی تحقیر بھی کی تھی۔ سیاسی اختلاف تو خیر جو تھا سو تھا، وہ اُن کے علمی مرتبے کو بھی سمجھنے کے اہل نہ تھے۔ جب مارچ 1941ء میں جناح کان پور کے مسلم طلبا کی فیڈریشن سے خطاب کر رہے تھے تو مطالبۂ پاکستان پر جوشِ جذبات میں اُنھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’وہ اکثریت والے سات کروڑ مسلمانوں کو آزاد کرنے کے لیے دو کروڑ مسلمانوں کی شہادت دینے کے لیے تیار ہیں۔‘1947  میں صرف پانچ لاکھ انسانوں کی ہلاکت پر ’پاکستان‘ حاصل کر لینے کے بعد شاید یہ کہہ اُنھوں نے اپنی پیٹھ تھپتھپائی ہو گی کہ سودا سستے میں پٹ گیا۔ ‘‘

مضون نگار نے پوچھا ہے  کہ 1905 میں تقریباً اٹھارہ برس کی عمر میں آزاد کا شیام سندر چکرورتی اور بنگال کے دوسرے انقلابیوں سے ربط ضبط‘  ان کی عملی شرکت سے بمبئی اور شمالی ہند کے کئی شہروں میں خفیہ انجمنوں کے کیا معنی تھے؟ یہ بات ایسے اندا ز میں کی  گئی ہے جیسے مولانا آزاد کا بہت بڑا راز فاش کردیا  گیاہے۔ یہ بات تو خود مولانا  نے اپنی کتاب میں لکھی ہے اور اس کی وجہ بھی بیان کردی ہے۔ یہ انقلابی آزادی کے متوالے تھے۔ وہ مسلمانوں کو ملک کی آزادی کے راستہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔مولانا نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔  بنگال کی  حکومت نے ان انقلابیوں کی جاسوسی کے لئے یوپی کے مسلمان اہل کاروں  کی خدمات حاصل کی تھیں۔مشرقی بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر نے کہا تھا  مسلم کمیونٹی ہمار ی پسندیدہ بیوی ہے۔

مضمون نگار  نے لکھا ہے کہ ’’1925ء میں یورپ کے سفر کے لیے ان کے پاسپورٹ کی درخواست کے ساتھ کلکتے کے نیشنل آرکائیوز میں رکھی سی آئی ڈی کی خفیہ رپورٹس میں آزاد کے (1921تا  1924کے دوران میں)  پان اسلام ازم تحریک، سبھاش بوس کے انقلابی منصوبوں اور ینگ ٹرکس کی سرگرمیوں سے روابط کے انکشافات کے بارے میں بھی کچھ فرمائیے گا؟‘‘ اس  سے کیا ثابت ہوتاہے؟  ویسے  یہ سطریں بھی اسیم صاحب کے مضمون سے لی گئی ہیں۔ایک اور سوال بھی قائم کیا گیا ہے’’آزاد نے 9 اکتوبر 1912 کے الہلال کے صفحہ 6 پر مسلمانوں کو یہ مشورہ کیوں دیا تھا کہ بہتر ہے کہ سرے سے اسلام ہی کو خیرباد کہہ دیا جائے۔‘‘ کیا واقعی انہوں نے مسلمانوں کو اسلام ترک کرنے کاکہا تھا؟  کیا وہ ارتداد کے مبلغ بن چکے تھے؟

ہمیں بتایا گیا  ہے کہ’’پاکستان ایک حقیقت ہے جو ابو اکلام آزاد اور ان کے ہم نوا گاندھی، نہرو اور پٹیل جیسوں کی مخالفت کے باوجود بن گیا۔‘‘ اگر یہ دعوی ٰ درست ہے تو پھر جسونت سنگھ نے کیوں کہا ہے کہ تقسیم کے ذمہ دار جناح نہیں‘  نہرو تھے۔ اس بیان سے لگتا ہے کہ انڈیا وِنز فریڈم اور عائشہ جلال کی پہلی  کتاب  کا مطالعہ ان کےلئے بہت مفید ہوگا۔انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے  کہ ’’پاکستان ایک دیوانے کا خواب نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اس لیے اس کو تسلیم کر لینے سے کسی کی توہین نہیں ہو گی۔‘‘کس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے؟ یہ صرف پاکستانی نظریہ ساز ہیں جوکہتے ہیں  کہ ہندوستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اگرہندوستان نے پاکستان کو تسلیم نہ کیا ہوتا تو یہاں ان کا سفارت خانہ کیوں ہوتا؟

\"Abdulah\"فاضل مضمون نگارنے لکھا ہے کہ ’’اے کے فضل حق بنگالی مسلمانوں کا لیڈر تھا ۔ اس نے مسلمانوں کے دباؤپر کانگریس کی بجائے مسلم لیگ سے اتحاد کیا جو ابو الکلام آزاد کی بہت بڑی ناکامی تھی۔‘‘یہاں  شیر بنگال مولوی فضل الحق کا نام صحیح نہیں لکھا گیا اور ان کے مقام اور مرتبے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔  وہ مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے اور1940 کی قرارداد لاہورانہوں نے ہی پیش کی تھی۔ وہ  کلکتہ کے پہلے مسلمان میئر تھے۔انہوں نے اگر مسلمانوں کے دباؤ میں آکر مسلم لیگ سے اتحاد کیا تو اسی پارٹی سے لڑائی کس کے دباؤ میں آ کر کی تھی اور1943 میں انہیں مسلم لیگ سے کیوں نکال دیا گیا؟  کہا جاتا ہے کہ بطوروزیر اعلیٰ انہوں نے  اپریل 1954میں کلکتہ  کے دورے کے دوران نظریۂ پاکستان کی نفی کردی تھی۔ اس کے بعد انہیں غدار قرار دے کی ان کی حکومت  برطرف کردی گئی تھی۔

کہا گیا  ہے کہ ’’آزادی کے بعد عدم تشدّد کے سیکولرپیروؤں کی سیکولر دہشت گردی اور دلّی میں مسلمانوں کی قتل و غارت گری دیکھ کر آزاد کا کیا موقف تھا کچھ اس پر بھی ایک طائرانہ سی نگاہ ڈال دیں۔‘‘یہ تومضمون نگار کامقدمہ نہیں تھا۔ ویسے آزادی سے پہلے اور اس  کے بعد پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کی قتل وغارت کو کیا نام دیا جائے؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ   گاندھی نے دہلی میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کے لیے سردار پٹیل کو کیوں ذمے دار مانا تھا اور فسادات رکوانے کے لیے اپنی ضعیفی میں گاندھی کو برت کیوں رکھنا پڑا تھا؟کیا فسادات رکوانے کے لئے پاکستان میں بھی کسی نےایسا کوئی قدم اٹھایا تھا؟ ویسے یہ سوال بھی اسیم صاحب کے مضمون سے اخذ کیا گیا ہے۔ جو دوست اس مسئلہ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں ڈاکٹر رفیق زکریا کی کتاب ’’سردارپٹیل اور ہندوستانی مسلمان‘‘سے کافی مدد مل سکتی ہے۔ فسادات کے حوالے سے ایک سوال ذہن میں آرہا ہے۔  کیا یہ حقیقت نہیں کہ  پنجاب کے فسادات  مارچ 1947 میں ضلع راولپنڈی  سے شروع ہوئے تھے؟  کتنے مسلم لیگی رہنماؤں نے ان کی مذمت کی؟ اگر آپ کے پا س کچھ وقت ہوتواجمل کمال صاحب کا  یہ مضمون دیکھ لیجئے گا۔

http://tribune.com.pk/story/404683/punjabs-cleansing

مضمون نگار نے متعدد بار شیخ عبداللہ صاحب کی کتاب آتش چنار کے حوالے دئے ہیں۔لیکن انہوں نے انہیں نقل کرتے ہوئے  دیانت داری سے کام نہیں لیا اور قارئین کو غلط تأثر دینے کی کوشش کی۔صفحہ نمبر 241پر دی گئی پوری عبارت اس طرح ہے۔ ’’مولانا ابوالکلام آزادرہنماؤں کی  اسی صف میں بڑی ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ کتابی معیاروں کے لحاظ سے ان سے بہترمسلمانوں کی رہنمائی کے اوصاف کسی اور میں نہیں تھےاور انہوں نے اس صدی کی ابتدا میں مسلمانوں میں بیداری کا صور اسرافیل پھونکا تھا۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ  مسلمانوں کی قیادت کے معاملے میں وہ جناح صاحب جیسے مغرب کے رنگ میں رنگے وکیل کے مقابلے میں جم نہ سکے۔ اس میں ان کے قوم پر ستانہ اعتقادات کا بھی بڑا دخل تھا۔ وہ ایک بلند پایہ عالم دین‘ ایک صاحب طرزادیب‘ ایک شعلہ بیان خطیب اور قوم پر ست رہنما تھے۔ ان کو قدرت نے طاقت ور زبان اور قلم عطا کئے تھے جن سے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں ایک تازہ روح پھونکی۔ الہلال اور البلاغ  مسلمانوں کو بیدار کرنے والے پہلے دو جریدےتھے اور ان کے ذریعے انہوں نے شکست خوردگی کی بجائے امید اور ولولے کی لہر پیدا کی لیکن حق یہ ہے کہ ان کی طبیعت کی ساخت ایک عوامی رہنما کی نہیں تھی۔ ان کے عادات و اطوار میں بڑا رکھ رکھاؤ تھا۔ وہ عوامی مسائل کا میدانِ کارساز میں سامنا کرنے کی بجائے گوشہ نشینی کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں جناح صاحب جذباتی نعرے دے کر  مسلم عوام کو اپنی طرف  کھینچ لینے میں کامیاب ہو گئے وہاں مولانا آزاد اپنی خلوت گاہ سے غبار ِ کارواں کو دیکھتے رہ گئے۔‘‘

\"ABDULLAHاس سے پچھلے صفحہ پر شیخ صا حب نے جو کچھ لکھا ہے  وہ بھی دوستوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔ شیخ صاحب  لکھتے ہیں کہ ’جناح صاحب کے کردار کو سمجھنے کے لئے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیئے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب ان کی زخمی انا آسودہ ہوگئی تو وہ دوقومی نظریے سے دست بردار ہوگئے۔ انہوں نے اپنی ایک اولین تقریر میں کہا کہ ہم میں سے اب کوئی ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ جنا ح صاحب مغرب کے لبرل ازم کے پروردہ تھے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ زندہ رہتے تو پاکستان میں سیاسیات کا رخ کچھ اور ہوتا۔ ‘‘ کشمیری عوام پر شدید مظالم توڑنے والے مہاراجہ کے بارے میں جناح صاحب نےکافی عرصہ  پہلے مسلم کانفرنس  کو ہدایت کی تھی کہ وہ  کسی صورت انہیں  ناراض نہ کریں۔ اس کی تفصیل بھی شیخ صاحب کی کتاب میں موجودہے۔ شیخ صاحب نے اپنی کتاب کے باب’’درون خانہ ہنگامے تھے کیا کیا‘‘میں قبائلی حملے کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کے بارے میں فاضل مضمون نگارکی کیا رائے ہے؟شیخ صاحب لکھتے ہیں۔’’قبائلی چاہتے تو اسی دن سرینگرپہنچ سکتے تھےلیکن بارہمولہ (بارہ مولہ)کے گھروں کو دیکھ کران کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انہوں نے تین دن تک بارہمولہ میں زنا کاری‘ شکم پری اور لوٹ مارکا ایسا بازار گرم کیا کہ انہیں سرینگر کی یاد ہی نہ آئی۔ انہی تین دن میں ساری صورت حال کا پانسہ پلٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی قبائلیوں کی شبیہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسخ اور غارت ہوکر رہ گئی۔‘ نومبر1947 میں جموں میں ہونے والی قتل وغارت قابل مذمت ہے۔ کیا اکتوبر1947 میں ہونے والا قبائلی حملہ بھی قابل مذمت ہے یا اس کی تحسین کی جانی چاہیئے؟

مضمون نگار نے زاہد چوہدری کا تائیدی انداز میں حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ  ’’قائداعظم بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تھے لیکن گاندھی اور نہرو تیار نہ تھے لہٰذا بنگالی مسلمانوں نے آخری آپشن کے طور پر پاکستان کا حصہ بننا پسند کیا۔ 23مارچ 1940 کی قرارداد کے مطابق مسلمانوں کی ایک سے زائد مملکتیں وجود میں آ سکتی تھیں لیکن کانگریس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ایک طرف متحدہ بنگال کا راستہ روکا دوسری طرف کشمیر کی آزادی کا راستہ روکا۔ “ دوقومی نظریہ کی روشنی میں بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی مخالفت چہ معنی دارد؟  اگر قرارداد لاہور کے مطابق ایک سے زائدمسلم ملک بن سکتے تھے تو پھر جنا ح صا حب نے کیوں فرمایا تھا کہ  ریاست کے بجائے ریاستوں کا لفظ ٹائپنگ کی غلطی تھی؟

یہ فرمایا گیا  ہے کہ  ’یہ درست ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور ابوالکلام آزاد کااندازہ بھی درست ہو گیا لیکن  23 مارچ 1940 کی قرارداد کی سچائی بدستور قائم ہے۔ 16دسمبر 1971 کو بنگالی پاکستان سے علیحدہ ہو گئے لیکن اس سب کے باوجود کئی بنگالی دانشور آج بھی کیوں کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ ختم نہیں ہوا؟ وہ کیوں کہتے ہیں کہ بنگالیوں نے بنگلہ دیش بنا لیا۔ ہندوستان میں واپس نہیں گئے اور آج بھی کچھ بنگالی دانشوروں کو کیوں یقین ہے کہ ایک دن مغربی بنگال بھی بنگلہ دیش کا حصہ بن جائے گا۔‘

ریکارڈ کی درستی کے لئے عرض ہے کہ یہ قرارداد 23مارچ کو نہیں 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی۔ اس کی سچائی جاننے کے لئے انہیں اس کا مزید مطالعہ کرنا چاہیئے اس سے انہیں اندازہ ہوگا کہ اس کی ڈرافٹنگ میں کیا خرابی تھی۔اس سلسلے میں انہیں کم ازکم  پروفیسر شریف المجاہد کا مضمون ضرور دیکھ لینا چاہئے۔ وہ کونسے بنگالی دانشور ہیں آج بھی کیوں کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ ختم نہیں ہوا؟پاکستان میں بنگلہ دیش نامنظور تحریک کیوں چلائی گئی تھی؟ کیا اس کی اہم ترین دلیل یہ نہیں تھی کہ بنگلہ دیش تسلیم کرنے  سے دوقومی نظریہ کی نفی ہوجائے گی؟ براہ مہربانی ہمیں ان بنگالی دانشوروں  کے نام تو بتادیں جنہیں یقین ہے کہ ایک دن مغربی بنگال بھی بنگلہ دیش کا حصہ بن جائے گا۔ اس طرح اگر مسلمانوں اور ہندوؤں نےمل جل کر  ہنسی خوشی رہنا شروع کردیا تو قومی نظریہ کا کیا بنے گا؟

\"i1\"17مئی 1947 کو جناح صاحب نے ماؤنٹ بیٹن کو لکھا: ـ’مسلم لیگ بنگال اور پنجاب کی تقسیم سے اتفاق نہیں کرسکتی۔ اس کا کوئی تاریخی‘معاشی‘سیاسی یااخلاقی جواز ممکن نہیں۔ ان صوبوں نے  اپنے انتظامی‘معاشی اور سیاسی نظاموں کو تعمیر کرنے میں تقریباً ایک صدی لگائی ہے۔ ‘ اسی ماہ انہوں نے ماؤنٹ بیٹن سے یہ بھی کہا کہ ’عزت مآب سمجھ نہیں رہے کہ پنجابی ایک قوم ہیں اور بنگالی بھی ۔ پنجابی یا بنگالی ہندو یا مسلمان ہونے سے پہلے پنجابی یا بنگالی ہوتا ہے۔ اگر آپ ہمیں یہ صوبے دے رہے ہیں تو پھر کس بھی صورت انہیں تقسیم نہ کریں۔ اگر آپ نے انہیں تقسیم کیا تو پھر آپ انہیں معاشی طور پر تباہ کردیں گے اور بے پایاں خون خرابے اور فسادکو دعوت دے رہے ہوں گے۔ ‘یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  اگر ہندو اور مسلمان ہندوستا ن کی سطح پر اکھٹے نہیں رہ سکتے تھے تو پنجاب اور بنگال کی سطح پر انہیں اکھٹا رکھنے پر اصرار کیوں کیا گیا؟ پنجابیوں اور بنگالیوں کو قومیں کیوں قراردیا دیاگیا؟  کیا یہ دو قومی نظریہ کی دھجیان بکھیرنے کے مترادف نہیں تھا؟  اور ہاں اس بارے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ممتاز قومی پروفیسرشریف المجاہد کےخیالات بھی جان لیں۔ ان کے مطابق مطابق دو قومی نظریہ برصغیر کے صرف 1947 سے پہلے کے حالات سے مطابقت رکھتا تھا  (ڈان‘ 25دسمبر 2004)۔ ان کی رائے میں قیام پاکستان سے دو قومی نظریہ فرسودہ ہو گیا کیونکہ دونوں قوموں نے خود کو ہندوستانی اور پاکستانی قوموں کے قالب میں ڈھال لیا تھا  (دا نیوز‘ 23 مارچ 2011)۔

ہمیں یہ بھی  بتایا گیا ہے کہ آزاد کے خوابوں کا مرکز شاید بھارت نہیں مریخ تھا کیونکہ ہندستان کے چودہ ’صوبوں‘ میں تو علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔اگر مضمون نگار ان چودہ ریاستوں کے نام بتاکر ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں۔ ویسے ہمارے ایک نامور کالم نویس جناب ہارون الرشید صاحب  نے 28 نومبر2015کو دنیا ٹی وی پر ہمیں یہ مژدہ سنایا تھاکہ  ہندوستان کی چالیس ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔  حقیقت یہ کہ  وہاں صرف انتیس ریاستیں ہیں۔ جہاں تک منیر احمد منیر کی کتاب کا تعلق ہے اس میں یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ چھبیس فیصد بھارتی علاقہ انتہاپسندوں کے کنٹرول میں ہے۔کیا کسی غیر پاکستانی  صحافتی ادارے نے بھی کبھی ایس بات کی ہے؟ فاضل مضمون نگار کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عبدالقادر حسن صاحب نےمنیر صاحب کی ’دستاویزی ثبوت کے ساتھ‘ مرتب کی گئی اس  کتاب کے بارے میں21 نومبر2014 کے ایکسپریس میں لکھا تھا ’’میں حضرت مولانا کی بے مثال علمی عظمتوں کو سامنے رکھ کر اور ان کی بلاشبہ نادر روز گار شخصیت کے احترام میں اس کتاب پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔امام الہند مولانا آزاد کے بارے میں احترام کی ہر حد سے گزر جانا مناسب نہیں ہے اور یہ خاکسار مولانا کے علمی مقام کے سامنے سر جھکاتا ہے اور ان کے بارے میں اس متنازعہ کتاب کو ادب کے ساتھ محفوظ کر لیتا ہے۔ مولانا آزاد کی ہمہ گیر شخصت صرف دینی علوم کی ماہر ہی نہیں تھی اردو ادب میں بھی ان کا بہت بڑا مقام تھا۔ ان کی ذات گرامی کے بارے میں زیادہ لکھ نہیں سکتا۔ لیکن ان کے احترام کی درخواست ضرور کرتا ہوں۔‘‘  ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’قائد کا بھی ایک سپنا تھا ۔ انہوں نے جو خواب دیکھا اس کو حقیقت کی شکل دینے میں کامیاب ہوئے ۔‘ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ  انہوں نے اپنے قائم کردہ ملک کو کرم خوردہ اور کٹا پھٹا کیوں قراردیا تھا؟

فاضل مضمون نگار نے پوچھا ہے  کہ وہ کیا اسباب تھے کہ محمد علی جناح نے امام الہند کہلانے والے ابوالکلام آزادکے ہاتھوں سے مسلمانوں کی قیادت چھین لی تھی؟ اس کا جواب مودودی صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ  فرمائیں۔”ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو ۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے“ ( روز نامہ انقلاب ‘ 9 اپریل 1948)۔

\"06ABULNEW_1642805g\"ترجمان القرآن نے جون 1948 میں ادارتی طور پرلکھا ۔ ”یہ عین وہی لوگ ہیں جو اپنی پوری سیاسی تحریک میں اپنی غلط سے غلط سرگرمیوں میں اسلام کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرے ہیں۔ انہوں نے قرآن کی آیتوں اور حدیث کی روایتوں کو اپنی قوم پرستانہ کشمکش کے ہر مرحلے میں استعمال کیا ہے…. کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہو جائے….جونہی انگریز اور کانگرس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی۔ تو اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا جیسے اس کے پاؤں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہو گئی کہ جو کچھ جن شرائط پر بھی طے ہو اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لیں۔ بنگال و پنجاب کی تقسیم اسے بے چون و چرا ماننی پڑی۔سرحدوں کے تعین جیسے نازک مسئلے کو اس نے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ انتقال اختیارات کا وقت اور طریقہ بھی بلاتامل مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی اور انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت روز اول ہی سے متزلزل بنیادوں پر اٹھی۔‘‘

آخر میں مولانا آزاد کی اس تاریخی تقریر سے ایک اقتباس جو انہوں  نے24  اکتوبر 1947کوجامع مسجد دہلی میں کی ۔’’عزیزانِ گرامی ۔۔آج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اُٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے، میں نے کروٹ لینا چاہی تو تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتیّٰ کہ پچھلے سات سال کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہے اُس کے عہدِ شباب میں بھی میں نے تمہیں ہر خطرے کی شاہراہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ منع و اِنکار کی ساری سنتیں تازہ کر دیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صِراطِ مستقیم سے دور لے گیا تھا۔۔۔میرے دامن کو تمہاری دست درازیوں سے گِلہ ہے۔ میرا احساس زخمی ہے اور میرے دِل کو صدمہ ہے۔ سوچو تو سہی تم نے کون سی راہ اختیار کی۔ کہاں پہنچے اور اب کہاں کھڑے ہو؟کیا یہ خوف کی زندگی نہیں اور کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آگیا۔ یہ خوف تم نے خود فراہم کیا ہے۔ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیاتِ معنوی کے لئے مرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس کو چھوڑو۔ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہوا ہے نہایت تیزی سے ٹوٹ رہے ہیں لیکن تم نے سُنی ان سُنی برابر کر دی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اُس کی رفتار تمہارے لئے اپنا ضابطہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ وقت کی رفتار تھمی نہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ جن سہاروں پر تمہارا بھروسہ تھا وہ تمہیں لا وارث سمجھ کر تقدیر کے حوالے کر گئے ہیں۔‘‘

 

شکیل چودھری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شکیل چودھری

(شکیل چودھری نے بین الاقوامی تعلقات اور میڈیا کی تعلیم بالترتیب اسلام آباد اورلندن میں حاصل کی۔ وہ انگریزی سکھانے والی ایک ذولسانی کتاب ’ہینڈ بک آف فنکشنل انگلش‘ کے مصنف ہیں۔ ان کاای میل پتہ یہ ہے shakil.chaudhary@gmail.com )

shakil-chaudhari has 7 posts and counting.See all posts by shakil-chaudhari

Subscribe
Notify of
guest
24 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments