مجھے تم سے محبت ہے


ایک سہ پہر میرا ایک مریض جم (JIM) میرے کلینک میں زار و قطار رو رہا تھا۔ اس نے SHERRY کو جو اس کی دس برس سے دوست تھی‘ جب بتایا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو شیری نے جواب دیا ’یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ تم میرے دوست ہو اور ساری عمر صرف دوست ہی رہو گے‘۔ جم رو رو کر مجھے بتا رہا تھا کہ اسے پچھتاوا ہے کہ آخر اس نے شیری کو دل کا راز کیوں بتایا خود کو رسوا کیوں کیا اور محبت کا اظہار کیوں کیا۔ اس کی باتیں سن کر مجھے منیر نیازی کی چھوٹی سی نظم یاد آ گئی

مجھے تم سے محبت ہے

   بس اتنی بات کہنے کو

     لگے بارہ برس مجھ کو

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مردوں اور عورتوں کو اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہیے یا نہیں؟ جب میں نے اس موضوع پر اپنے دوستوں اور رفقا کار سے تبادلہِ خیال کیا تو ایک گروپ کا خیال تھا کہ کسی انسان کو اس وقت تک اپنی محبت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے جب تک اسے یقین نہ ہو کہ محبت دو طرفہ ہے۔ ان کی نگاہ میں یک طرفہ محبت کا اظہار بے وقوفی ہے، ان کا موقف بقول عارف عبدالمتین

ہم چاہنے والوں پہ چھڑک دیتے ہیں جاں تک

     ہاں بھولنے والوں کو نہ ہم یاد کریں گے

دوسرے گروپ کا خیال ہے کہ کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کے دل کا حال نہیں جانتا۔ اگر محبت کا اظہار نہ کیا گیا تو شاید ساری عمر کا پچھتاوا رہے کہ اگر اظہار کر دیا ہوتا تو محبت کامیاب ہوتی۔

 مجھے چند خواتین نے بتایا کہ جب پہلی دفعہ ان کے محبوب نے محبت کا اظہار کیا تھا تو انہوں نے انکار کیا تھا لیکن محبوب کے اصرار نے ان کے انکار کو اقرار میں بدل دیا اور اب وہ محبوب ان کا شوہر ہے۔ وہ اپنے شوہر کی ہمت کی داد دیتی ہیں کہ اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی مستقل مزاجی سے ان کا دل جیت لیا۔

بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مردوں اور عورتوں کے محبت کے اظہار میں بڑا فرق ہے۔

میری ایک مریضہ نے مجھے بتایا کہ جب اس کی اپنے شوہر سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ کسی اور کا شوہر تھا لیکن جب میری مریضہ نے اسے پروپوز کیا تو چند ماہ بعد اس نے پہلی بیوی کو طلاق دے کر میری مریضہ سے شادی کر لی۔ اب اس کا خیال ہے کہ اس کی دوسری شادی پہلی شادی سے زیادہ کامیاب ہے۔

ہم سب جانتے ہین کہ محبت کرنا اور پھر محبت کا اظہار کرنا ایک پیچیدہ نفسیاتی اور رومانوی عمل ہے۔

  یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے ایک پاگل خانے کا لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک دفعہ ایک وزیر پاگل خانے کا دورہ کر رہا تھا اسے ایک مریض چیختا چلاتا دکھائی دیا۔ وزیر نے ڈاکٹر سے پوچھا ’یہ کیسے پاگل ہوا؟‘ ڈاکٹر نے کہا ’اسے ایک عورت سے محبت تھی۔ اس نے عورت سے کہا ’مجھے تم سے محبت ہے‘ اس کی بہت منتیں کیں لیکن اس عورت نے انکار کر دیا۔ اس نے ایک اور مرد سے شادی کر لی اور یہ مرد پاگل ہو گیا‘ اگلی بلڈنگ میں وزیر نے ایک اور مریض دیکھا جو پہلے مریض سے بھی بدتر حالت میں تھا۔ وزیر نے پوچھا’ اس پاگل کا کیا مسئلہ ہے؟‘ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا ’یہ وہ مرد ہے جس سے پہلے پاگل کی محبوبہ نے شادی کی تھی‘

یہ تو خیر لطیفہ تھا۔ سنجیدگی کی بات یہ ہے کہ محبت شادی کے لیے کافی نہیں۔ دو انسانوں کا ایک دوسرے سے مزاج اور سوچ اور فکر اور نظریے کی مطابقت بھی اہم ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا میاں بیوی سر جوڑ کر اپنے مسائل کا حل خوش اسلوبی سے تلاش کر سکتے ہیں یا نہیں؟

بعض دفعہ محبت کی شادی بھی ہو جاتی ہے لیکن پھر شادی کے بعد اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں اس کی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ایک دن نیویارک سے ایک مرد کا ای میل آیا کہنے لگا ’میں آپ سے نفسیاتی مشورہ کرنا چاہتا ہوں‘۔

میں نے پوچھا ’آپ کو میرا پتہ کیسے چلا؟‘

کہنے لگا ’میں نے آپ کی نفسیات کی کتاب پڑھی ہے‘

’مسئلہ کیا ہے؟‘ میں نے پوچھا

کہنے لگا ’ میں چند سال پیشتر کراچی سے نیویارک آیا تھا۔ میں بہت شرمیلا تھا۔ لڑکیوں سے بات کرتے گھبراتا تھا۔ پھر مجھے اندازہ ہوا کہ میں سوشل میڈیا سے آسانی سے chat کر سکتا ہوں۔ چنانچہ ہر شام دفتر سے گھر آنے کے بعد میں خواتین سے ایک دو گھنٹے چیٹ کرتا اور محظوظ ہوتا۔ پھر ایک چیٹ کے دوران میری ایک خاتون سے ملاقات ہوئی۔ مجھے وہ پسند آ گئی۔ اسے بھی میں پسند آ گیا۔ ہم دونوں شکاگو میں ملے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کہا ’مجھے تم سے محبت ہے‘ اور پھر ایک سال پیشتر ہماری شادی ہو گئی۔

’یہ تو محبت کی کامیابی کی کہانی ہے۔ اس میں مسئلہ کہاں ہے؟‘

کہنے لگا ’ڈاکٹر صاحب ! اب جبکہ وہ میری بیوی بن گئی ہے۔ وہ مجھے کہتی ہے کہ چونکہ مجھے تم سے محبت ہے اس لیے اب تم دوسری خواتین سے چیٹ کرنا بند کر دو۔ اب مجھے احساس ہوا ہے کہ مجھے چیٹ کرنے کی عارت پڑ گئی ہے۔ جب تک میں شام کو ایک گھنٹہ چیٹ نہ کر لوں مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔‘

میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اور اس کی بیوی دونوں نیویارک کے کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جائیں تا کہ وہ تھیریپست بیوی اور میاں دونوں کا انٹرویو لے اور ان کی مدد کرے۔

محبت کرنا‘ محبت کا اظہار کرنا اور پھر اسے نبھانا ایک ایسا فن جس سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔ میرا ایک شعر ہے

آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے

جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail