جمہوریت، قومی مفاد اور حاکمیت اعلیٰ : کھلے مکالمے کی ضرورت


جس معاملہ پر قومی سطح پر اتفاق رائے ہونا چاہئے اور جس پر ملک کا آئین 1973 میں ہی یہ طے کرچکا ہے کہ ملک کا اقتدار اعلی پارلیمنٹ کے پاس ہو گا اور ریاست کے باقی ادارے اس کے فیصلوں کے پابند ہوں گے۔ بدقسمتی سے اس متفقہ فیصلہ کو متنازعہ بنایا جا چکا ہے۔ ملک میں اس وقت بھی آئین کے بارے میں اتفاق رائے موجود ہے۔ لیکن یہ اتفاق رائے بھی اتنا ہی اختلافی ہے جتنا باقی معاملات میں قومی رویہ ہے۔ جیسے جمہوریت پر اتفاق کرتے ہوئے کہا جاتا ہے : تو کیا سیاست دانوں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔ ویسے ہی سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا اس لوٹ مار کے نام پر ملک کے آئین کو پامال کرنے کا اختیار فوج کے حوالے کردیا جائے۔ نہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے اور نہ ہی اس وقت ملک میں کسی میں ہمت ہے جو سیاست میں فوج کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو بجائے خود ایک مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہوئے، اس کے بارے میں قانونی ، سیاسی اور سماجی رویہ ترتیب دینے کی کوشش کرے۔

 اس غیر واضح اور تشویشناک صورت حال کا نتیجہ ہے ملک کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ ایک پریس کانفرنس منعقد کرتے ہیں اور ایک سیاسی تحریک کو غیر ملکی ایجنڈے پر کاربند بتاتے ہوئے غداری کا سرٹیفکیٹ عطا کردیتے ہیں اور سیاست دانوں اور صحافیوں کو ایسے سوشل میڈیا پیغامات کو عام کرنے کا مرتکب بتاتے ہیں جو ملک کے دشمن پاک فوج اور ریاست کو بدنام کرنے کے لئے جاری کرتے ہیں۔ طویل عرصہ سے فوج نے یہ طے کرنے کے اختیار پر تصرف حاصل کیا ہؤا ہے کہ مک و قوم کا مفاد کیا ہے۔ گو کہ ہم تحریر و تقریر کی آزادی کے دور میں زندہ ہیں اور ملک کے آئین کے مطابق جمہوریت بھی زندہ و پائیندہ ہے یعنی ایک کے بعد دوسری حکومت نے 5 سال کی مدت پوری کرلی ہے۔ آئین کے مطابق نگران حکومت قائم کردی گئی ہے۔ نگران وزیر اعظم نے بر وقت انتخاب منعقد کروانے کا وعدہ کیا ہے۔ چیف جسٹس ایک سے زائد مرتبہ ملک کے آئین کے مطابق بروقت انتخابات منعقد کروانے اور جمہوری عمل کو یقینی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس صورت میں آئی ایس پی آر کے سربراہ بجا طور سے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ فوج پر الزام تراشی کرنے والے بتائیں کہ ملک میں جمہوری عمل جاری و ساری ہے کہ نہیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کل منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پہلے کہا گیا کہ حلقہ 120 میں ضمنی انتخاب نہیں ہو گا۔ لیکن وہ ہو گیا۔ اس کے بعد کہا گیا کہ سینیٹ کے انتخاب نہیں ہوں گے۔ وہ بھی ہو گئے۔ پھر کہا گیا کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی اور انتخاب وقت پر نہیں ہوں گے۔ حکومت نے مدت بھی پوری کی اور انتخاب منعقد کروانے کی تاریخ بھی سامنے آچکی ہے۔ تو ایسے میں میجر جنرل صاحب کا یہ دعویٰ کیا غلط ہے کہ ’ بھئی ہم تو بہت خوش ہیں‘۔

اگر ملک میں جمہوریت راسخ ہو گئی ہے اور فوج بھی اس پر مسرور ہے تو سیاست دان اور میڈیا کے چند ایکٹوسٹ کیوں چیں بچیں ہیں۔ اس کلیدی سوال کا جواب دیتے ہوئے بھی فوج کے ترجمان نے واضح کردیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے لوگ ہیں۔ جیسے پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان ہمارے بچے ہیں لیکن ہمسایہ ملک کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا کہ جب تک یہ لوگ فوج کو برا بھلا کہہ کر دل خوش کرتے رہیں گے ، ہم خاموش ہیں۔ فوج کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب ان لوگوں کی زد میں ریاست کا مفاد آیا تو فوج حرکت میں آئے گی۔ فوج کی یہی حرکت ملک کے اکیس کروڑ عوام، ان کے حقوق کی بات کرنے والے مٹھی بھر صحافیوں ، سماجی و سیاسی شعور کے لئے متحرک کارکنوں اور میڈیا یا سوشل میڈیا کے گنے چنے ارکان کے لئے پریشانی اور تشویش کا سبب ہے۔ اسی لئے کل منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد ملک میں خوف کے سائے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، سنّاٹا بھی محسوس کیا جاسکتا ہے اور یہ احساس فزوں تر ہے کہ فوج حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والا ادارہ بننے کا اعلان کررہی ہے۔ جو لوگ ’غدار‘ کہے جائیں گے ، ان سے نمٹنے کے لئے فوج کو شاید ایکشن میں آنے کی ضرورت نہ پڑے کیوں کہ ملک میں وطن دوستی اور وطن دشمنی کی ایک واضح لکیر کھینچتے ہوئے وطن کی حفاظت کرنے والوں کا ایسا جم غفیر تیار کرلیا گیا ہے جو حب الوطنی کی مصدقہ فہرست سے نکالے جانے والوں کو سزا دینے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ دو روز پہلے ایسے ہی وطن پرستوں نے پی ٹی ایم کے کارکنوں پر حملہ کرکے دو افراد کو ہلاک کیا تھا حالانکہ وہ بھی فوجی ترجمان کے بقول ’اپنے ہی بچے ‘ تھے۔ اسی لئے میجر جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ ان لوگوں کو تو امن کمیٹی والوں نے مارا تھا ، فوج تو زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والوں میں شامل تھی۔ جب ملک میں امن کے نام پر قائم کمیٹیا ں لوگوں کو ہلاک کرنے کا کام کرنے لگیں تو فوج تو زخمی اٹھائے گی اور لاشیں ہی سمیٹے گی۔

اس صورت حال میں جمہوریت کی بات کرنے والے، سیاست میں فوج کے کردار پر انگلی اٹھانے والے اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کا پریشان ہونا فطری ہے۔ ملک میں ایسے صحافیوں اور دانشوروں کی کوئی کمی نہیں ہے جو فوج کے بیانیہ کو حرف آخر مانتے ہیں اور اسے منوانے کے لئے تحریر و تقریر کی پوری قوت صرف کرتے ہیں ۔ اگر یہ معاملہ صرف لکھے اور کہے گئے لفظوں تک محدود ہوتا تو بھی خیر تھی۔ لفظ کی حرمت اور تقریر کی عزت کے تحفظ کے لئے ہر جمہوریت پسند کو میدان میں اترنا ہو گا۔ ایسے موقع پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لفظ میرے افکار و خیالات کی مخالفت میں ادا کیا گیا ہے۔ ایسے وقت صرف یہ دیکھنا ہو گا کہ کہنے والے کی زبان بندی کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ معاملہ اب صرف لکھنے اور بولنے تک محدود نہیں ہے۔ اب اس کہے اور لکھے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف غداری کا الزام ارزاں کرنے کا کھیل عام ہے اور اس ملک کے غداروں کو سزا دینے کے لئے امن کمیٹیوں قسم کے گروہ یا بے نام اور بے چہرہ ہرکارے ملک کے چپے چپے پر موجود ہیں۔ اس کا اعتراف تو آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بھی کیا ہے کہ ’لاپتہ ہونے والوں‘ کی تعداد 7000 سے کم ہو کر 3000 ہزار رہ گئی ہے لیکن کب یہ تعداد بڑھنے لگے ، اس کی ضمانت تو کوئی نہیں دے سکتا۔

سوال تو صرف اتنا ہے کہ بات کرنے کا حق دیاجائے یا اسے چھین لیا جائے۔ فوج کے ترجمان کی باتوں کو ملک کے صحافیوں اور سول سوسائیٹی کے کارکنوں نے جس طرح سمجھا ہے، اس سے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بعد فوج کی نظریں اب سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں پر ٹکی ہیں۔ جوں ہی کوئی حرکت اس حد کو پار کرے گی جس سے فوج کو لگے گا کہ ملک کے مفاد کو زک پہنچ سکتی ہے تو اس کا تدارک کیا جائے گا۔ یہ تدارک کون کرے گا اس کی وضاحت سامنے نہیں آسکی ہے۔ اسی لئے یہ پوچھنا اہم ہے کہ اگر قومی مفاد کے ایک منظر نامہ کو بیان کرنے، اس کا پرچار کرنے اور اس کے حق میں دلائل دینے کی آزادی موجود ہے تو اس سے اختلاف کرنے والے اور متبادل دلیل لانے والے کیسے یک بیک ’غدار‘ قرار پاتے ہیں۔ جمہوریت میں تو ڈائیلاگ اور مکالمہ معاشرتی احیا ور نظام کی بقا کے لئے تازہ ہوا کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ مکالمہ میں ایک مؤقف سے اختلاف کرنے والے ملک دشمنوں کے ایجنٹ قرار پا کر معتوب قرار دئیے جائیں اور انہیں سزا دینے کا عزم کرنے والے قانون کو ہاتھ میں لینے کے باوجود ریاست اور اس کے رکھوالوں کے دوست مانے جائیں۔ یہ تجربہ تو اس سے پہلے بھی کیا جاچکا ہے۔ خواہ اسے کوئی بھی نام دیا جائے۔ یہ لوگ اسٹریجک گہرائی کی حفاظت کرنے والے قرار پائیں یا کشمیری مظلوموں کے ہمدردوں کی صورت میں سامنے آئیں ، کام تو ان کا بھی وہی رہا ہے جو اب امن کمیٹی والے پی ٹی ایم والوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں یا بے چہرہ وبے نام لوگ من پسند شکار کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی تجربہ تو ملک میں مذہب کو محفوظ بنانے اور اس سے وابستہ حرمتوں کی حفاظت کرنے کے نام پر کیا جاتا رہا ہے۔ نشانے پر کون تھا؟ کمزور، بے بس اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے چند لوگ۔ نتیجہ کیا برآمد ہؤا۔ عالمی رسوائی، تشدد اور لاقانونیت کا پرچار ، عدم تحفظ کا احساس اور بے یقینی۔۔۔ اب معاملہ اس سے آگے بڑھ چکا ہے۔

مانا کہ جمہوری طور سے منتخب ہونے والے لوگ اپنا فرض بخوبی انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ بھی تسلیم کہ پارلیمنٹ کو طاقت کا مرکز بنانے سے گریز کیا گیا۔ درست کہ مقبولیت کے گھوڑے پر سوار اقتدار میں آنے والے سیاست دانوں نے اختیار کا ناجائز استعمال کیا۔ عہدوں سے غلط فائدہ اٹھایا اور غلط طریقے سے عہدے اور وسائل بانٹنے میں بھی ملوث ہوئے۔ لیکن اس صورت حال میں کیا یہ اصول طے کرلیا جائے کہ چونکہ بعض سیاست دان بدعنوان ہیں اس لئے سیاست کو معتوب قرار دیا جائے؟ سول حکومتیں چونکہ سب مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں لہذا ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کچھ معاملات چیف جسٹس صاحب اپنے پاس منتقل کرلیں اور باقی ماندہ فوج کے حوالے کردئیے جائیں ۔ یا انتخابات کو قومی مسائل حل کرنے کا منشور نامہ بنانے کی بجائے چند افراد کے خلاف فرد جرم عائد کرکے ان کی ذات کو قومی ضمیر پر بدنما داغ ثابت کرنے کے لئے ملک و قوم کے سارے وسائل صرف کردئیے جائیں۔ کوئی نظام غلطیوں اور کمزوریوں سے پاک نہیں ہو تا اور نہ ہی کوئی فرد خواہ وہ سیاستدان ہو یا کچھ اور، معصوم اور فرشتہ سیرت ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر فعال نظام اپنی غلطیوں کو خود درست کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ اگر ایک نظام کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے ایک بے نام کنٹرول سسٹم وضع کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے وہ نظام مستحکم نہیں کمزور ہو گا۔ اسی لئے درخواست گزاری جاتی ہے کہ ملک کے آئین کو کام کرنے دیجئے۔ پارلیمنٹ کو باختیار ہونے دیجئے۔ منتخب حکومتوں کو آزادی سے کام کرنے دیں تاکہ وہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد عوام کے پاس جا کر اپنی کارگزاری کا حساب دیں اور ان سے ان کی ناکامیوں پر سوال کئے جاسکیں۔

اسی لئے یہ درخواست کرنا بھی ضروری ہے کہ سیاست میں فوج کے کردار پر بحث ہونے دی جائے۔ سیاست کرتے ہوئے اس جھوٹ کا سہارا لینے کا وقت بیت چکا کہ فوج تو ریاست کی حفاظت کرتی ہے ، سیاست کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ ریاست کی حفاظت اس کے عوام اور ان کی منتخب کردہ حکومت کا کام ہے۔ فوج اس عمل میں صرف ایک ’ ہتھیار ‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملک پر 70 برس حکومت کرنے کے بعد یہ سچ تسلیم کرنا آسان نہیں ہو سکتا لیکن اس سچ سے گریز کی ہر صورت نئی خرابیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ اسی لئے مبصروں ، تجزیہ نگاروں اور سوچنے سمجھنے والوں کو اس پر فریب دلیل سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کہ سیاست میں فوج صرف چند گمراہ جرنیلوں کی وجہ سے ملوث ہوئی ہے۔ فوج بطور ادارہ سیاست سے ما ورا ہے۔ بد قسمتی سے یہ بیانیہ درست نہیں ہے۔ فوج کے افراد نہیں بلکہ فوج کی سوچ اسے بار بار بلکہ مسلسل ملک کی سیاست میں ملوث ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ کیوں کہ فوج نے بعض ایسے فرائض اپنے ذمہ لے لئے ہیں جو اس کے فرائض کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔ ان میں قومی مفاد، دو قومی نظریہ اور ریاست کی حفاظت جیسے معاملات شامل ہیں۔ فوج کو ا س بوجھ سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آئین کے مطابق اپنا کام کرسکے۔

یہ باتیں بہت تلخ ہیں۔ لیکن انہیں کہہ دینے اور مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ 2018 کے جن انتخابات کو جمہوریت یا بدعنوانی میں انتخاب بنانے کی کوشش کی جارہی تھی، اب وہ فوج کے زیر سایہ سیاست یا سیاسی اختیار پر فوج کی دسترس سے نجات کے درمیان ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کرنے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان انتخابات میں فوج کا مؤقف پھر کامیاب ہو۔ ہو سکتا ہے کہ سیاست کو فوجی تسلط سے نجات دلانے کی کوششیں ناکام ہو جائیں۔ لیکن ووٹ کی ہر وہ پرچی جو بدعنوانی کو حکومت گرانے کی وجہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے بیلیٹ بکس میں ڈالی جائے گی، دراصل فوج کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہوگا۔ کسی ملک کی بھی فوج عوام کی بڑھتی ہوئی ناراضی یا ناپسندیدگی کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali