سوشل میڈیا اور صحت مند مباحث


فرائڈ جیسے بابائے نفسیات کا نظریہ ہے کہ انسان کا رویہ انفرادی سطح پر اور اجتماعی سطح پر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ نتیجتاً اجتماعی اخلاقیات عموماً انفرادی اخلاقیات سے قطعاً مختلف اور لازمی طور پر کم تر  ہوتی ہے جسے گروہی نفسیات کہا جا تا ہے۔ اس ذہنیت کے تحت انسان گروہ کی شکل میں انسانیت سے گرے ہوئے کام بھی کر گزرتا ہے ایسے رویہ کی توقع گروہ میں  شامل بیشتر افراد سے انفرادی سطح پر بلکل نہیں کی جا سکتی۔ یہی ذہنیت ہے جو مردان یونیورسٹی میں مشال خان کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرتی ہے یا پھر سیالکوٹ میں کسی عبادت گاہ کو گرا دیتی ہے اور اس پر فخر بھی محسوس کرتی ہے ( یقیناً ان واقعات کے پیچھے بہت سے اور پہلو بھی ہوں گے، لیکن وہ موضوع بحث نہیں ہیں) یقیناً موب مینٹیلٹی کا کوئی ارتقائی فائدہ بھی ہوگا جس کا احاطہ کرنا میرے ناقص علم  کے لئے بالکل بھی ممکن نہیں۔ شاید کوئی تحقیق اس پر بھی ہوئی ہو اور اگر نہیں ہوئی تو ہونی چاہیے۔

خیر اس پہلو نے جدید دور میں ایک خاص مسئلے کو جنم دیا ہے۔ میرا اشارہ سماجی روابط کے نت نئے طریقوں کی طرف ہے جو انسان نے ایجاد کر لیے ہے جن کو عرفِ عام میں سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہاں ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان ہر وقت گروہی نفسیات کا مغلوب رہتا ہے کیوں کہ اس پلیٹ فارم پر ہماری بات ایک دو نہیں بلکہ اوسطاً سینکڑوں ہزاروں لوگوں تک پہُںچ رہی ہوتی ہے۔ اس کے زیرِ اثر ہم ایک صحت مند بحث کی توقع نہیں کر سکتے بلکہ جبلی طور پر ایک وننگ لائن یہ ناک آؤٹ مکے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بالآخر سیڈسٹ لطف یا خود نمائی کے زیرِ اثر بحث کا توازن کا مرکز محض ہماری ذات تک محدود اور ہر صورت میں جیتنے کی جبلت کا غلام ہو جاتا ہے۔   نتیجتاً سوشل میڈیا پر کیے جانے والے بیشتر مباحث گالم گلوچ، یا اخلاق سے گرے ہوئے فقروں سے بھرا نظر آتے ہیں۔ اور یہ الفاظ اُن افراد کی جانب سے ادا ہوتے ہیں جن سے عام زندگی میں بہتر اخلاقیات کے مظاہرے کی توقع ہوتی ہے۔ ہر نظریہ کی طرح اس نظریے کہ اطلاق بھی سو فیصدی سب پر نہیں کیا جس سکتا مگر سوشل میڈیا کہ ایک سرسری جائزہ ہی اس کو کافی تقویت پہنچا دے گا۔

لہٰذا میرا ماننا یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو سماجی رابطے کا ذریعہ تو رکھا جا سکتا ہے، خیالات کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مگر صحت مند مباحث کے لیے اس کے استعمال کے لیے تا حال انسانی نفسیات ارتقائی مراحل میں ہے۔ جب تک ارتقاء کا  عمل مکمل نہیں ہو جاتا ضروری ہے کہ صحت مند مباحث کے لیے بالمشافہ دوستوں سے ملا جائے، چائے کے کپ پر ملاقات ایک دوسرے کا حال دریافت کرنے سے شروع ہو ایک سے سازگار ماحول کے بنے کا بعد ہم لازمی طور پر ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو احسن انداز میں سمجھ سکتے ہیں اور اپنے خیالات  اظہار گالی کے بنا سو کلو میٹر فی سیکڈ کی رفتار سے کیبورڈ توڑے بغیر بھی کے سکتے ہیں۔

اس نہج پر ایک اور نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ وہ یہ کے صھت مند مباحثے کا لازمی جزو ہے کہ سامنے والے کی سمجھ اور عقل پر اعتبار کیا جائے۔ جب کے ہمارا رویہ یہ ہو چکا ہے کے صاحب اگر آپ کا سیاسی نکتہ نظر مجھ سے مختلف ہے تو یقیناً آپ میں عقل کی کمی جان لیوا حدوں کو چھو رہی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کے جہاں اپنے نظریے کا اظہار کیا وہاں یہ فقرے سننے کو ملے کے بھائی تم تو بہت سمجھدار تھے تمہاری عقل کو کیا ہو گیا؟ گویا اپنے نظریے کو عقل کا معیار مان لیا گیا ہے اور اسی معیار پرصائب ہونے کی اسناد بانٹی جا رہی ہیں خیر یہی رویہ ہم نے ریاستی سطح پر حب الوطنی اور غداری کے فیصلے کرنے کے لیے اپنا رکھا ہے (مگر اس موضوع پر مزید گفتگو نہ کر کے بیل کو دعوت نہ دینے میں ہی عافیت ہے۔ ) بہر کیف احباب سے گزارش ہے کہ خدا نے انسان کو تنوع کے ساتھ پیدا کیا ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کے ہمارے سیاسی اور سماجی نظریات ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف بلکہ 180 کے زاویے پر متضاد بھی ہو سکتے ہیں، چنانچہ مباحث میں اس پہلو کو ضرور خیال میں رکھئے۔ اگر آپ اپنے نظریے سے دوسرے کو قائل کرنا چاہتے ہیں تو اس کیسمجھ بوجھ یا نیت کو کٹہرے میں کھڑا مت کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے نظریے پی قائل ہو جائے اور آپ کا کم عقلی کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ آپ کا منہ چڑانے لگے۔

اس مقام پر یہ بات کہنا ازحد ضروری ہے کہ جمہور کی رائے کا احترام جمہوریت کی روح ہے، اگر ہم یہ کہیں کے صاحب ہماری ان پڑھ قوم تو ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ ڈال دیتی ہے، تو ہم اپنی اجتماعی دانش اور دیانت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج کی نسل کے بہت سے پڑھے لکھوں کے ماں باپ ان پڑھ ہیں یا تھے تو کیا وہ اپنی اور اپنے وطن کی ضروریات سے اس قدر ہی غافل تھے کے بریانی کی پلیٹ پر یا قیمے کے نان پر ووٹ ڈال دیتے تھے؟ ویسے بھی یاد رہے کہ انجینئرنگ یا ڈاکٹری کی تعلیم لے کر ایک خاص شعبے میں مہارت تو مل جاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم معاشرے کے تمام پہلوؤں اور ضرورتوں کو پوری طرح سمجھ گئے ہیں۔ شاید ہم نے تکنیکی علوم کے ساتھ سماجی علوم کو اہمیت دی ہوتی تو آج اس طرح کی ذہنیت  جنم لیتی۔   تو صاحب اُمید ہے کہ انتخاب قریب ہیں، اپنے سیاسی نظریے کا اظہار کّھُل کر کیجئے، مگر مباحث کے لئے دوست کو چائے پر بلائیں یا پھر خود کار، موٹر سائیکل یا سائیکل نکال کر اُس کی طرف چلے جائیں۔ اور اختلاف رائے کو کم عقلی مت سمجھیں نہ  ہی اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کریں پیغام پہُںچ گیا، دلیل میں وزن ہوا تو دل میں اتر جائے گی ورنہ یاد رکھیں کہ ” دل نہیں مانتا“ بھی ایک وزنی دلیل ہے۔ ویسے بھی بقول پطرس بُخاری موسیٰ بھی مردے کو جگانے کے لیے ہلکی سے قم کر دیا کرتے تھے جاگ گیا تو ٹھیک۔ کوئی لٹھ لے کر پیچھے تھوڑی پر جاتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).