شیر جوانوں کی غیرت، تف ہے!


\"husnainکوئی واقعہ نہیں کہنا، کوئی لمبی کہانی نہیں سنانی، کوئی بات گھما پھرا کر نہیں کہنی، مطلب کی بات پر آئیے۔

کیا آپ ایک مرد کو اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ ایک لڑکی کو قتل کر دے، جرم یہ کہ اسے شک سا موجود ہو کہ یہ فلاں لڑکے سے بات کرتی ہے یا اسے ملتی ہے؟

اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو مزید زحمت سے بچنے کے واسطے آگے مت پڑھیے!

کراچی کی سمیرا کو اس کا بھائی \”مشکوک\” چال چلن پر زبح کر دیتا ہے، ایک ڈیڑھ گھنٹے وہ زخمی پڑی رہتی ہے، مدد کے لیے التجا کرتی ہے، بنانے والے موبائل ویڈیو بناتے ہیں اور زبح کرنے والا حلال زادہ وہیں بیٹھا بے توجہی سے موبائل پر گانے سنتا رہتا ہے، یا کوئی گیم کھیلتا رہتا ہے اور اسے کوئی نہیں پوچھتا، نہ ہی کوئی اس لڑکی کو بچانے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ بے حسی، بے شرمی، بے غیرتی اور جہالت کے جس مقام پر ہم لوگ کھڑے ہیں، وہاں سے اگلے سو سال میں بھی نیچے اترنا ممکن نہیں۔

مذہبی عالم کب کے یہ فتوی دے چکے کہ \”غیرت\” کے چکر میں قتل کر دینا صریحاً حرام ہے، جرم ہےاور اس کا کوئی بھی جواز ناممکن ہے۔ غیرت پر قتل کو ناقابل مصالحت (ناقابل معافی) جرم بنانے کے لیے گذشتہ برس پیپلز پارٹی کی صغری امام صاحبہ نے بل پیش کیا جسے پاکستان کا ایوان بالا منظور کر چکا ہے۔ اس قانون کی رو سے غیرتی جذبے کے تحت کیا گیا قتل ناقابل مصالحت جرم ہے۔ چوں کہ ورثا ہمیشہ ایسی صورت حال میں قتل کرنے والے باپ یا بھائی کو بچانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور عام طور پر وہ ایک آدھ برس بعد دوبارہ سینہ چوڑا کر کے گھوم رہے ہوتے ہیں، اس لیے یہ قانون پاس ہونا ایک قابل تحسین اقدام تھا۔

\"AAA\"پچھلے چند برسوں میں صرف غیرت کے نام پر جو قتل ہوئے ان کا ریکارڈ دیکھیے؛

475 (2008)

604 (2009)

557 (2010)

705 (2011)

432 (2012)

930 (2013+2014)

1100 (2015)

کل ملا کر 4803 انسانی جانیں اس جاہلانہ جذبے کے نام پر آٹھ برس میں قربان کر دی گئیں۔

آج سمیرا کے والد سمیرا کے بھائی کو معاف کر چکے ہیں۔ گویا گنتی 4809 پر پہنچ گئی اور قتل کرنے والے آزاد ہیں، تنے ہوئے سروں اور اکڑی ہوئی گردنوں کے ساتھ آزاد ہیں۔ اگر ہم ذرا سا غور کریں تو یہ 4809 قتل کرنے والے الگ الگ انسان نہیں ہیں، وہ سب ایک ہیں۔ وہ ایک انسان ہے جو مختلف روپ دھارے یہ وحشیانہ واردات کرتا ہے۔ اسے پالنے پوسنے اور تحفظ دینے میں الاماشاللہ 98 فی صد لوگ ہم آپ میں سے ہی ہیں۔

وہ پیدا ہوتا ہے، تو اسے میرا شیر جوان کہا جاتا ہے۔ وہ چھ بہنوں کے بعد ہوتا ہے تو اس کے پیدا ہونے پر لنگروں کے منہ کھل جاتے ہیں، محلے بھر میں مٹھائیاں بنٹتی ہیں۔ وہ بہنوں کے ساتھ کھانا کھاتا ہے تو اکثر اوقات بہنیں اس کی پلیٹ میں موجود سب سے اچھی بوٹی کو دیکھتی ہیں لیکن جانتی ہیں کہ اس پر ان کا حق نہیں۔ بہنیں یا تو پڑھائی نہیں جاتیں، یا پڑھائی جاتی ہیں تو کم فیسوں والے سکولوں میں، اور اسے اپنی اوقات کے مطابق مہنگےترین سکول میں بھیجا جاتا ہے۔ عید پر بہنوں کے کپڑے بنیں نہ بنیں اس کے ضرور بنتے ہیں۔ بارش ہو تو وہ نیکر میں گھومنے نکل سکتا ہے، بہنیں پورے کپڑوں میں نہیں نکل سکتیں۔ گھر میں سودا نہ ہو تو بہنیں بھوکی بیٹھتی ہیں، شیر جوان آتا ہے تو لے کے آتا ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں اسے یہ جتلا دیا جاتا ہے کہ اے جوان، اس دنیا میں تو ہی ان بے بس بھیڑوں کے گروہ کا واحد رکھوالا ہے اور خبردار، جو ان میں سے کوئی ذرا بھی راستے سے دائیں بائیں ہو، تجھے ان کی ٹانگیں توڑ دینے کا پورا اختیار ہے۔ اور اس احساس کے ساتھ اس کی مونچھیں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔

\"BBBبہنوں کے دوپٹے درست ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر وہی شیر جوان جو بچپن میں ان کے حصے میں بوٹیاں نہیں آنے دیتا تھا، اب زندگی کی تمام خوشیاں ایک ایک کر کے ان پر حرام کرتا ہے۔

ٹی وی پر ناچ گانا مت دیکھا کرو ۔ (صرف مجھے حق ہے دیکھنے کا)

شریف گھرانوں کی لڑکیاں فلمیں دیکھنے نہیں جاتیں۔ (جو میرے ساتھ جائے گی اس کے بارے میں میری اخلاقیات کا معیار یہ ہرگز نہیں ہو گا)

موبائل پر اتنی دیر تک کس سے بات کر رہی ہوتی ہو؟ (اس لیے کہ مجھے شک ہوتا ہے کہ تم بھی مجھ جیسے کام نہ کر رہی ہو)

چھت پر کپڑے سکھانے مت جایا کرو۔ (کیوں کہ سامنے والوں کی بیٹی کو میں نے چھت پر ہی سے دیکھ کر معاملہ آگے بڑھایا تھا)

تصویریں کھنچواتےوقت کپڑے ٹھیک سے پہنا کرو۔ (کیوں کہ انٹرنیٹ پر کئی بے نام لڑکیوں کی تصویریں میں روز دیکھتا ہوں اور وہ ہوتی بھی پورے لباس میں ہیں)

خبردار جو برقعے کے بغیر قدم گھر سے باہر نکالا۔ (کیوں کہ میں خود برقعے کے بغیر لڑکیوں کو دیکھ کر قابو کھو دیتا ہوں)

کوچنگ سینٹر میں کسی لڑکے سے نوٹس لینے کی ضرورت نہیں۔ (کیوں کہ میں ہر لڑکی کو یہی سمجھ کر دیتا ہوں کہ اس کے بعد وہ مکمل طور سے مجھ پر فدا ہو گی)

چچا کا بیٹا کل تم سے کیا بات کر رہا تھا؟ زیادہ ہنس ہنس کر مت بولا کرو۔ (کیوں کہ آس پاس کی کوئی بھی لڑکی مجھے ہنس کر دیکھ لے تو میرا زرخیز ذہن سیدھا مقامات شب زفاف تک پہنچتا ہے)

اور یہ سب تو وہ کچھ ہے کہ جس کا تقاضا ایک عام شیر جوان اپنے گھر میں کرتا ہے۔ چہ جائے کہ اسے شک بھی گزر جائے کہ اس کی بہن یا بیٹی کسی لڑکے سے بات چیت کرتی پائی گئی ہے یا اسے پسند کرتی ہے۔ پھر اس کی نگاہوں کے آگے غیرت کے جنازے بہتے چلے جاتے ہیں اور اچھے سے اچھے گھر میں وہی کچھ ہوتا ہے جو مرحوم سلطان راہی کی فلموں میں ہیروئین کا بھائی کیا کرتا تھا۔ باقاعدہ اس کو مارا جائے گا، جوتوں سے تواضع ہو گی، کھانا پینا بند، سکول کالج بند، باہر آنا جانا بند، گھر والوں سے بات چیت بند، بہن کمرے میں ہو گی، باہر کنڈی ہو گی اور والدین خشوع و خضوع سے شیر جوان کے ساتھ ہوں گے۔

یہ ہمارے عام ترین معاشرتی رویے ہیں، جن کی تشکیل ہزاروں برس قبل ہوئی تھی اور جن کے تحت راج پوت ہندووں کی عورتیں آج تک اجنبی کے آگے فٹ بھر لمبا گھونگھٹ نکال کر آتی ہیں۔ ہماری کئی بہنیں آج بھی راضی برضا ان حدود قیود میں خوشی خوشی رہتی ہیں۔ اگر اسی دور میں رہنا ہے تو بسم اللہ، کل کئی سمیرا، شازیہ، راشدہ، تہمینہ اور ماہ جبینیں ذبح ہوں گی اور آپ غیرت سے سر اٹھا کر گھومیے گا، نہیں رہنا تو لمحہ بھر کو سوچیے؛

کیا دنیا کے گلوبل ولیج میں اپنی بچیوں کو آپ ہزاروں سال پرانے نسخوں پر چلا سکتے ہیں؟

کیا غیرت کا تسور انسانی بدن کے کچھ حسوں تک محدود ہے؟ اور ایسا ہے، تو یہ اصول شیر جوانوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟

کیا اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو آپ ویسا ہی بے بس اور بے مقصد دیکھنا چاہیں گے جیسی آج سے سو سال پہلے کی خواتین ہوتی تھیں؟

کیا جنس مخالف سے روابط آپ کے بچوں کو زیادہ پراعتماد نہیں کریں گے، یا انہیں بھی آپ اپنے جیسا ہی رکھنا چاہیں گے کہ کسی اجنبی لڑکی یا لڑکے کو دیکھتے ہی سٹی گم ہو جاتی ہے؟

صنعتی ترقی کے لمحہ موجود میں اپنی اولاد کو عضو معطل بنا کر آپ اس کے لیے بھلا کریں گے یا برا؟

آپ مرد ہیں یا عورت، ذرا ان تمام کیا، ذرا، اگر، مگر، تو، پھر، کیوں، کیسے کو پرے پھینکیے اور یہ بتائیے کہ آج تک، اپنی پوری زندگی میں، کبھی بھی، کسی ایک لمحے کو بھی کوئی ذی روح آپ کو ایسا نہیں ملا جس سے پیار آپ کے نزدیک حرام نہ ہو؟ جس سے مل کر آپ کو بھی کوئی خواہش نہ جاگی ہو، کوئی خواب نہ سجائے ہوں یا کوئی انگڑائی ہی آئی ہو؟ اور اگر ملا ہے تو اسی کے صدقے آواز بلند کیجیے کہ اس وحشی صفت جانور کو قرار واقعی سزا ملے جو اپنی معصوم بہن کو ذبح کر کے بھی باپ سے معافی لیے بیٹھا ہے اور لگے ہاتھوں اس بل کی بھی آزمائش ہو جائے جو سینیٹ سے منظور ہوا تھا۔

 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments