چلو بھر پانی نہیں۔۔۔ ڈوب مرنے کے لئے سمندر بھی کم ہے


 بلوچستان میں موجود ” سپٹ کا ساحل” اب بھی لوگوں کی پہنچ سے دور ہے۔ لیکن یہاں ابن آدم کی مہربانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ یہی حال جیوانی کے ساحل کا ہے جہاں پلاسٹک سے بنی اشیاءجن میں پلیٹیں، بوتلیں، جوس کے ڈبے اور کھانے پینے کی اشیاءکے ریپرز شامل ہیں ساحل کے حسن کو گہن لگارہے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنکل ایڈوائزر معظم خان کے مطابق ایک جانب جہاں سمندر میں غیر قانونی اور ضرورت سے زیادہ شکار ہو رہا ہے تو دوسری جانب وہ جزیرے اور ساحل جہاں سے آبادی اب بھی آٹھ سے بارہ سو میل دور قائم ہیں وہاں بھی پلاسٹک جا پہنچا ہے۔
 ہم جب بچے تھے او ر ہمیں یہ پڑھایا گیا کہ دنیا میں تین حصے سمندر اور ایک زمین کا ہے تو ہمیں یہ سمجھ آیا کہ دنیا میں بسنے والوں کو تو کبھی بھی پانی کی کمی نہیں ہوگی، نمک کم پڑجائے تو بھی یہ مسئلہ سمندر حل کردے گا اور اگر ہم اس سمندر میں کچھ بھی پھینک دیں تو وہ اس میں گم ہوجائے گا۔ لیکن آج یہ بات سمجھ آتی ہے کہ سمندر ادھار نہیں رکھتا سوائے ان چیزوں کے جو وزن میں کہیں زیادہ ہوں و ہ تو پھر بھی سمندر برد ہوجاتی ہیں۔ لیکن باقی سب گھوم پھر کر واپس باہر آ ہی جاتی ہیں۔ گزشتہ برس سی ویو پر چہل قدمی کے دوران مجھے ریت کے قریب ایک بڑی جسامت رکھنے والے کچھوے کا ڈھانچہ ملا ۔ میں نے اسکی تصاویر بنا کر ماحولیات کے ماہرین جو آبی حیات کے حوالے سے خاصی جانکاری رکھتے ہیں انھیں بھجوائیں تو معلوم ہوا کہ اس کچھوے کی عمر لگ بھگ تیس برس ہے اور وہ بہت جلد ہی پلاسٹک کی آلودگی کا شکار ہوکر مردہ ہوا اور پھر سمندر نے اسے کنارے پر پھینک دیا۔ ماہرین کے مطابق کچھوے جن کی عمریں اوسطا سو برس یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہیں ، تیس برس میں اسکا مر جانا ایک تشو یشناک بات ہے۔
لیکن بات یہی تمام نہیں ہوتی کراچی کی واحد سب سے سستی اور بڑی تفریح گاہ سی ویو روز اپنے دامن میں سیاحوں کا ٹنوں کے حساب سے کچرا سمیٹتی ہے۔ یہ وہ کوڑا کرکٹ ہے جو وہاں سیر و تفریح کی غرض سے آنے والی عوام پھینکتی ہے ۔ جبکہ دوسری جانب نہر خیام کے راستے سے ہوتی ہوئی آبادیوں اور فیکٹریوں کا گندا پانی بھی اس سمندر میں روز شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر کا وہ حصہ جو معروف شاپنگ مال کے عقب میں ہے گدلا دکھائی دیتا ہے اور وہ جہاں عوام کا رش بے حساب ہو وہاں کوڑا کرکٹ ہمارا استقبال کرتا ہے۔ لیکن ساحل ایونیو کی جانب لگنے والا کنارا جو تھوڑا بہت صاف ہے وہ ابن آدم کی جانب سے تحفتا ملنے والے کچرے کو تھوڑا بہت لوٹا دیتا ہے۔ اس برس ماحولیات کے عالمی دن پر پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی کو موضوع بنایا گیا اور بتایا گیا کہ پلاسٹک سے بنی تمام تر اشیاءجب سڑک کنارے یا کوڑا دانوں میں پھینکی جاتی ہیں تو وہ کیسے بے رحمی کے ساتھ سمندر میں یہ سوچ کر اتار دی جاتی ہیں کہ اتنا بڑا سمندر ہے خیر ہے ابھی تو یہ دنیا کئی سو برس اور قائم رہنی ہے سو ڈالتے جاو اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھو۔ اس سفاکانہ سوچ کے سبب صرف پاکستان میں اگر کراچی کی بات کرلی جائے تو دو سے تین ہزار ٹن سولڈ ویسٹ سمندر برد کیا جا رہا ہے جس کے سبب سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بھی بے بس دکھائی دیتا ہے جبکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق وہ کیمیکل سے بھرپور فضلہ جو براہ راست نالے بنا کر سمندر تک رسائی رکھتے ہیں اوسطا روزانہ کی بنیاد پر480 ملین گیلن ان ٹریٹڈ پانی کی صورت میں سمندر میں شامل ہوجاتا ہے ۔ چلیں اگر یہ ا عداو شمار درست بھی ہے تو یہ ثابت کرتا ہے کہ پورا ہفتہ 3,360 ملین گیلن فضلہ ہم سمندر میں پھینک رہے ہیں اور اگر مہینے کا اندازہ لگائیں تو یہ اوسطا 14,400ملین گیلن بنتی ہے۔ یہ سارا پانی کراچی کی 65 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی جس میں بندل جزیرے سے لیکر مبارک گوٹھ، ا براہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ بھی شامل ہے ان سے مختلف مقامات کے ذریعے سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔
  کراچی میں کورنگی سے آگے ابراہیم حیدری کا علاقہ جہاں لگ بھگ آبادی ستر ہزار کی ہے جس میں سندھی مچھیروں کی تعداد اکثریت میں ہے، سمندر کے آلودہ ہونے کے سبب اب اپنے علاقے سے نکل کر دور گہرے سمندر میں شکار پر جارہے ہیں خاص کر یہ دو ماہ جب سمندر بےڑحم ہوتا ہے اور گہرے سمندر میں شکار کرنے پر پابندی بھی عائد ہوتی ہے ان مچھیروں کو ہر طرح کی فکر سے آزاد کر کے صرف اسلئے دور جانے پر اکساتا ہے کہ اب مچھلی قریب کے ساحل میں نہیں ملتی اور گھر میں فاقے برداشت نہیں ہوسکتے ۔ فشر فوک کے ترجمان کمال شاہ کے مطابق بیس سال قبل تک ریڑھی گوٹھ اور ابراہیم حیدری کے ساحلی پٹی پر صاف ستھری ریت ہوا کرتی تھی ۔ لیکن اب صرف کوڑا کرکٹ دکھائی دیتا ہے، چھ سے آٹھ فٹ چوڑے نالوں کے زریعے کورنگی اور اس سے متصل علاقوں میں قائم لاتعداد فیکٹریوں سے نکلنے والا زہر آلود کیمیکل اور فضلہ گندے پانی کی صورت میں سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ ہر گزرتے دن کی طرح یہ نالے اپنا حجم بڑھاتے جارہے ہیں اور فیکٹریاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ لیکن سمندر پر رحم کھانے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ اس علاقے سے ماہیگیر اب مہنگائی کے سبب تین تین دن کے لئے شکار پر جارہے جس کے لئے ا نھیں کشتی کے لئے ایندھن اور برف مہنگی پڑ رہی ہے کیونکہ اس آلودگی کے سبب مچھلیاں اس ساحل سے روٹھ چکی ہیں۔ اس ساحلی پٹی پر حد نگاہ تمر کے جنگلات بھی دکھائی دیتے ہیں جو دیکھنے میں نہ صرف خوبصورت ہیں بلکہ یہ جھینگوں کی نرسریاں بھی کہلاتی ہیں۔ لیکن اس آلود ہ پانی کی وجہ سے نہ صرف بڑی تعداد میں تمر کے جنگلات متاثر ہوئے ہیں بلکہ سمندر کا ماحولیاتی نظام بھی تباہ ہوکر رہ گیا ہے یہی نہیں یہاں کی قبضہ مافیا نے اس ساحل پر قبضہ کرنے کے لئے کراچی کے متعد د ٹاونز کا کچرا سمندر برد کروایا اور پھر اس پر مٹی کی بھرائی کروا سمندر کاٹنا شروع کردیا سمندر کے اردگرد کی زمین کیا اہمیت رکھتی ہے اسکی مالیت کا اندازہ ڈی ایچ اے سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈی ایچ اے کو دو سو ارب مالیت کی زمین چھ ارب میں ملنے پر سوال کر ڈالا ہے یہ علاقہ تو امیروں کی جاگیر ہے لیکن ابراہیم حیدری میں جابجا ایسی چار دیواری اور آ ہنی گیٹ لگے نظر آرہے ہےں جو یہ بتاتے ہیں کہ اس علاقے کو پسماندہ سمجھ کر خوب کام نکالا جارہا ہے۔ قبضہ مافیا جس تیز ی سے سمندر کو نگل رہا ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ آنے والے وقت میں قدرت اسکے ساتھ کیا سلوک کر سکتی ہے کیونکہ سمندر بھی اپنا ایک مزاج رکھتا ہے ۔
ایک ایسا علاقہ جہاں سے اربوں کا ریونیو حاصل ہوتا ہو۔ جہاں کئی برس پہلے ہر نسل کی اعلی مچھلی جال میں آتی ہو جو ہماری خوراک کا ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ ایک ماہیگیر کی جیب کو بھی گرم کر رہی تھی ۔ اب حالات یہ ہیں کہ یہاں سے چھوٹی مچھلیاں کئی کئی گھنٹے کی کو ششوں کے بعد پکڑی جاتی ہیں جن میں کئی تو مردہ حالت میں جال میں پھنس جاتی ہیں۔ جس مچھلی کے نصیب میں آلود ہ پانی ہو اور اسکی افزائش مضر صحت کیمیکل سے بھرے پانی سے ہو وہ جب ہماری خوراک کا حصہ بنے گی تو سوچیں ہماری صحت کا کیا ہوگا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں مکافات عمل، ہم سب اسی سے گزر رہے ہیں جو ناروا سلوک ہمار ا اپنے مہربان سمندر کے ساتھ ہے اس نے اس میں بسنے والی آبی حیات سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمیں وہ ہی لوٹا یا جارہا ہے جو ہم نے کیا ہے وہی پا رہے ہیں اسکی مثال ایسی ہی ہے کہ ببول کی کاشت کر کے گلاب کی توقع نہ رکھو ۔ مارکیٹ میں ملنے والی مچھلی کی اکثریت گندے آلودہ سمندر کی پیداوار ہے جو نہ تو اب اپنے اندر لذت رکھتی ہے نہ ہ ی ہماری صحت کی ضامن بن رہی ہے۔
یہی نہیں پچھلے برس میں رپورٹ ہونے والے واقعات میں بارہ سے زائد ایسی نایاب آبی حیات سمندری آلودگی کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر ہے لیکن انکا بحیرہ عرب اور کراچی ، ٹھٹھہ کے سمندر میں ہونا یہ بتاتا ہے کہ انکے لئے یہ سمندر کتنا سازگار ہوگا لیکن ہماری غفلت نے انکی زندگی بھی چھین لی کیونکہ سمندر میں پھینکا جانے والا کوڑا کرکٹ جو پلاسٹک پر مشتمل ہے انکی جان کا ضیاح بن گیا۔ معظم خان کے مطابق مشروبات پینے والے اسٹروس، پلیٹیں، پرانی پلاسٹک کی تھیلیاں، چپلیں جو ہم آنکھ بند کرکے سمندر میں پھینک رہے ہیں یہ سب ان آبی حیات کی غذا کا حصہ بن رہے ہیں خصوصا کچھوے جن کی خوراک سمندری جھاڑیاں اور جیلی فش ہیں اکثر پلاسٹک کی تھیلیوں کو جیلی فش سمجھ کر کھا جاتے ہیں اور بعد میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
 افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ کراچی کا ساحل سینڈز پٹ جو Olive green Turtleکی آماجگاہ کہلاتا تھا اب سمندری آلود گی کے سبب اس ساحل سے منہ موڑتے جارہے ہیں۔ اس ساحل میں ” پٹ” جو کچھووں کے انڈے دینے کے لئے بنے ہیں وہاں پکنک منانے آنے والوں اور انکے کھانے پینے کی اشیاءکے پھینکے جانے کے سبب ان آماجگاہوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کھانے پینے کی ا شیاءکے پیچھے کتے اس ساحل کا رخ کرتے ہیں اور پھر یہ کچھوے جو ابھی کچھ وقت پہلے ہی اس قابل ہوئے ہوتے ہیں کہ اس پٹ سے باہر آکر سمندر میں چلے جائیں وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ان آوارہ کتوں کی خوراک یا حملے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ایک ایسا ساحل جو ایکو سسٹم کے لئے بہترین اور موئژ سمجھا جانے کے سبب عوام الناس کے لئے بند رکھا جائے وہ ایک مشہور اور مہنگا پکنک پوائنٹ بن چکا ہے جہاں شہری قائم کئے گئے ہٹس میں رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور ایک یادگار دن منانے کے بعد اسے آلودہ کر کے اپنے گھر لوٹ جاتے ہیں۔
 انسان جس کی خوراک، روزگار اور ماحول کا دارومدار سمند ر پر ہے وہ بنا کسی خوف کے نہ صرف اسے آلود ہ کئے جارہا ہے بلکہ اس سمندر میں بسنے والے اور ماحولیاتی نظام کو توازن میں رکھنے والی آبی حیات کو بھی چن چن کر ختم کر رہا ہے۔ یہ سوچے بناءکہ ہم آج ہیں کل نہیں رہیں گے لیکن ہمارے بعد آنے والی ہماری نسلوں کو کیا ملے گا؟سمندر کے ساتھ جو زیادتی ہم نے کی ہے وہ اتنی ظالمانہ ہے کہ اسے آنے والی نسلیں شاید کبھی نہ معاف کرسکیں ہم فطرت کے خلاف جاکر اسکے ساتھ تو دشمنی کر ہی رہیں ہیں لیکن ساتھ ساتھ مستقبل کی نسلوں کو بھی تباہی کے دہانے پر لے جاچکے ہیں۔
سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar