رسول بخش پلیجو کیا چاہتے تھے؟


عوامی تحریک کے بانی و مایہ ناز وکیل،سیاستدان و ادیب رسول بخش پلیجو اب ہم میں نہیں رہے، سندھ اپنے عظیم فرزند سے محروم ہوگیا،پاکستان میں جب مزاحمتی سیاست اور محکوم و محروم طبقات کے حقوق پر مبنی جدوجہد کی تاریخ لکھی جائے گی تو مورخ رسول بخش پلیجو کے لافانی و لاثانی کردار کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گا، رسول بخش پلیجو 1930ع میں ٹھٹھہ کے چھوٹے سے شہر جنگ شاہی میں پیدا ہوئے سندھ کے اس سپوت نے ہر دور میں ہر میدان میں اپنے ارد گرد کے غریب لوگوں پسے ہوئے عوام کے لیے اپنا اولین فرض سمجھ کر جدوجہد کی، اغیار کے آگے انکار اور باطل کے سامنے سینہ تان کر ڈٹ کے کھڑا رہنا ان کی فطرت میں شامل تھا، ون یونٹ کے خلاف سندھیوں کی شاندار جدوجہد ایک تاریخ ہے، جس میں مرحوم رسول بخش پلیجو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 4 مارچ کے اسیران حیدرآباد کے وکیل بھی بنے اور زبردست دلائل پیش کیے، پلیجو صاحب پاکستان کے ان گنے چنے سیاستدانوں میں سے ایک تھے جو بیک وقت سیاستدان، اعلی پائے کے وکیل، دانشور اور ادیب بھی تھے، جس وقت سندھی زبان کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی شاعری کے باعث ان پر مختلف اقسام کے فتوے جاری کیے جا رہے تھے عین اس وقت رسول بخش پلیجو نے ، اندھا اوندھا ویج، کتاب لکھ کر اچھے اچھوں کی زباں درازی کے آگے بند باندھ دیے تھے، وہ سندھ کے محکوم و مظلوم عوام کے حقوق کے لیے ہر دور میں میدان عمل میں نظر آئے، جی ایم سید، محمد ابراہیم جویو، فاضل راہو و دیگر کے ساتھ سیاسی تحاریک کی رہنمائی کرتے رہے، جبکہ جی ایم سید سے ان کے شدید اختلافات بھی رہے۔ رسول بخش پلیجو نے ون یونٹ، انتخابی فہرستوں کی سندھی میں اشاعت، ڈھاکا میں فوجی آپریشن، ذوالفقار علی  بھٹو کے دور میں بلوچستان آپریشن اور جنرل ضیا کے دور میں بحالی جمہوریت تحریک ایم آر ڈی میں تاریخی کردار ادا کیا، جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

رسول بخش پلیجو عوامی تحریک کی بنیاد ڈالنے سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی میں بھی رہے پر جلد ہی اختلافات پیدا ہونے کے بعد انہوں نے اے این پی سے اپنی راہیں جدا کرلیں اور 70ع کی دہائی میں عوامی تحریک کی بنیاد رکھی، عوامی جمہوری حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے کی پاداش میں انہیں کئی برس تک قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا۔

رسول بخش پلیجو ہمیشہ ملکی آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے محکوم طبقات کو ان کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے لیے تحاریک کا حصہ رہے، وہ چاہتے تھے کہ 1940ع کی قرارداد میں تمام قومیتوں سے کیے گئے واعدوں کے تحت انہیں اپنے مکمل حقوق دیے جائیں اور پاکستان میں رہنے والی تمام قومیتوں سے بلا تفریق برابری کی بنیاد پر سلوک اختیار کیا جائے، رسول بخش پلیجو نے یوں تو سندھ کی سیاست میں ایک لافانی کردار ادا کیا پر ان کا سب سے بڑا کارنامہ سندھی معاشرے میں خواتین کو سیاست جیسے شعبہ میں منظم کرکے ایک نظریاتی پلیٹ فارم مہیا کرکے دینا تھا۔ سندھ ناری تحریک اس کی زندہ مثال ہے، وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کے بھی گرویدہ تھے اور بقول شاہ بھٹائی کے ، جاں جاں ھئی جیئری ورچی نہ ویٹھی، مطلب جب تک سانس میں سانس رہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہے، کی طرح زندگی بسر کی۔

عمر کے آخری ایام میں ان کے اپنے ٹیلنٹڈ بیٹے اور سیاسی جانشین ایاز لطیف پلیجو سے بھی اختلافات ہوئے جس کا انہوں نے برملا اظہار کیا اور اپنی پرانی جماعت عوامی تحریک کی دوبارہ بحالی کا اعلان کیا اور تادم مرگ اس کے سربراہ بھی رہے، انہوں نے اپنی انتھک سیاسی جدوجہد کے دوراں انہوں نے سندھ کو ایک متحرک و منظم سیاسی کیڈر بھی فراہم کیا جو ان کے نظریہ کا جھنڈا تھامے آگے بڑہ رہا ہے اور خوشحال سندھ کا خواب اب ان کے سیاسی پیروکاروں کی آنکھوں میں امانت کی طرح منتقل ہو چکا ہے۔

رسول بخش پلیجو ایک طرف سیاست کے افق پر ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکتے رہے تو دوسری جانب انہوں نے سندھی ادب کو شاہکار کتابیں بھی فراہم کیں جو ان کی اعلی پائے کی ذہانت کا ثبوت ہیں، ان کی مشہور کتابوں میں سیاسی ادب، اوھانجے پجاناں،کوٹ لکھپت جو قیدی، وھن مون نہ وڑا، اندھا اوندھا ویج اور دیگر شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ان کی ایک نظم جہاں کھے ڈیو مبارکوں اسیں پیا کاھیندا اچوں کو بھی سندھ کے سیاسی حلقوں میں خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔

اگرچہ رسول بخش پلیجو کے سندھ کی قوم پرست سیاست کے دیوا سائیں جی ایم سید سمیت دیگر رہنمائوں سے بھی شدید اختلافات رہے پر ان کا خواب سندھ اور پاکستان کے مظلوم و محکوم عوام کی خوشحالی تھا ان کی چاہت غریب و نادار طبقے کی ترقی تھی، ان کی خواہش مظلوم عوام کو انصاف کی مستقل فراہمی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).