سچل سرمست، اپنے عہد کا ایک باغی


منصور ہو یا سرمد ہو صنم، یا شمس الحق تبریزی ہو
اس تیری گلی میں اے دلبر ،  ہر ایک کا سر قربان  ہوا
                             سچل سرمست
آج سندھ کے عظیم شاعر سچل سرمست کی 197 ویں برسی ہے، ان کا اصل نام تو عبدالوہاب تھا مگر ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔ بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر انہیں سرمست بھی کہا گیا۔ سچل سرمست کی پیدائش سندھ کے روایتی مذہبی گھرانے میں ہوئی مگر انہوں نے اپنی شاعری میں اپنی خاندانی اور اس وقت کی مذہبی روایات کو توڑ کر اپنی محفلوں میں ہندو مسلم کا فرق مٹا دیا۔ ان کے عقیدت مندوں میں کئی ہندو بھی شامل ہیں۔ سچل سرمست تصوف میں وحدت الوجود کے قائل تھے۔
سچل سرمست نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکمرانوں  کے ایسے دورِ اقتدار میں زندگی بسر کی جب مذہبی انتہاپسندی اپنے عروج پر تھی۔ انہوں نے اپنے آس پاس مذہبی نفرتوں کو دیکھ کر سندھی میں کہا:
مذھبن ملڪ ۾ ماڻھو منجھايا،
شيخن پيرن پنڊتن بيحد ڀلايا،
ڪي نمازون نوڙي پڙھن، ڪن مندر وسايا،
اوڏو ڪين آيا، عقل وارا عشق کي.
جس کا سادہ ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ مذاہب نے ملک میں لوگوں کو مایوس کیا۔ شیخ، پیر اور پنڈتوں نے انہیں بھول بھلیوں میں ڈال دیا ہے۔
کوئی جھک کر نمازیں پڑھنے لگا تو کسی نے جاکر مندر بسائے، لیکن عقلمند عشق کے سامنے نہیں آئے۔
سچل سرمست کا زیادہ تر کلام سرائیکی زبان میں ہے اس کے علاوہ عربی، سندھی، پنجابی،اردو، فارسی اور بلوچی زبان میں بھی شاعری کی اس لئے ان کو شاعر ہفت زبان کہا جاتا ہے۔
سچل سرمست اور ان کا کلام سنانے والے فقیروں کو سندھ میں ایک منفرد مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ کسی بھی محفل میں جب بھی مذہبی انتہا پسندی کو للکارا جاتا ہے تو آج بھی سہارا سچل کا لیا جاتا ہے۔
نہ کوئی دوزخ، نہ کوئی جنت، نہ کوئی حور قصور
من  اساں دا نئیں منیندا ،  املاں دا دستور
سچل سرمست وحدت الوجود کے اظہار میں اتنے بے باک تھے کہ نام نہاد علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ عائد کر دیا۔ لیکن ٹالپر حکمرانوں کی وجہ سے وہ ان کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ اس نظریے کے سرگرم مبلغ ہونے کی وجہ سے ان کو منصور ثانی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
بندھن سب تعظیم کے
توڑ کے چل انسان
نوبت انالحق کی
بجا علی الاعلان
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے
شعور ِ عام سے الجھے، شعور ِ خاص سے الجھے
ہمارا مسلکِ پرواز کس کس دام سے الجھے
صبا جب زلفِ جاناں سے پیامِ مُشک بو لائی
کبھی ہم کفر سے الجھے، کبھی اسلام سے الجھے
سچل رواداری اور انسان دوستی پر ایمان رکھتے تھے۔صوفیائے کرام نے ہمیشہ مذہبی رواداری سے کام لیا ہے۔ مُلا کی طرح انہوں نے کبھی کفر و اسلام کی جنگ کا نعرہ بلند نہیں کیا بلکہ ہر ممکن کوشش کی کہ ان جھگڑوں سے بالا تر ہو کر کر انسانیت کی خدمت کی جائے۔
سچل سرمست ہمیشہ غوروخوص میں مگن پائے جاتے تھے جب لوگ انہیں خوش خبری سناتے کہ
“مبارک ہو، آج فلاں ہندو مسلمان ہوگیا ہے”
تو آپ ہمیشہ خاموش ہوجاتے آخرکار لوگوں نے پوچھ ہی لیا کہ “حضرت کیا وجہ ہے کہ آپ کو خوشی نہیں ہوتی؟”
 تو سچل نے جواب دیا
“مجھے اس دن خوشی حاصل ہوگی جس دن کوئی مُلا مسلمان ہوگا”
ان کی درگاہ کے احاطے میں ایک ایسا قبرستان بھی ہے جو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی منفرد مثال ہے۔ یہاں مسلمان، عیسائی اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے برابر ابدی نیند سو رہے ہیں۔
نہایت افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ رسموں کی زنجیریں توڑنے والے، سماج سے بغاوت کرنے والے اس عظیم باغی صوفی فلسفی کے افکار کو سمجھنے کے بجائے اس قوم نے اسے محض ایک پیر کا درجہ دے کر محدود کردیا۔
جن کی دکھ سے یاری
ان کا ملے نہ کہیں نشان
قسمت سے ہی دکھ ملتا ہے
سب کا بخت کہاں
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں وکیپیڈیا و دیگر ذرائع سے مدد لی گئی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).