فلم مالک پر پابندی


\"edit\"کرپشن کے الزام میں گھری وفاقی حکومت نے ایک پاکستانی فلم ”مالک“ پر اچانک پابندی لگا کر ایک نیا سیاسی طوفان کھڑا کر لیا ہے۔ یہ فلم تین ہفتوں سے ملک کے سینما گھروں میں دکھائی جا رہی تھی کہ اچانک فیڈرل سینسر بورڈ کو خیال آیا کہ یہ فلم اشتعال پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے اور عوام فلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ لہٰذا بورڈ نے موشن پکچر آرڈیننس مجریہ 1979 کے تحت حکومت کو اس فلم پر پابندی لگانے کی سفارش کی۔ وزارت اطلاعات نے اس سفارش پر عمل کرتے ہوئے فوری طور سے فلم ”مالک“ کی نمائش کو ممنوع قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اس سے قبل سندھ حکومت نے بھی فلم میں بعض قابل اعتراض جملے حذف نہ کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وزیراعلیٰ نے ” آزادی اظہار رائے“ کے پیش نظر یہ پابندی واپس لینے کا حکم دیا تھا۔ تاہم وفاقی حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ فلم کی بدستور نمائش سے لوگ بھڑک اٹھیں گے اور سینما گھروں کے آگ لگانا شروع کر دیں گے۔ اس لئے اس پر پابندی بے حد ضروری ہے۔

اخبارات نے اس رپورٹ کی تفصیلات جاری کی ہیں جس کی بنیاد پر وفاقی حکومت نے فلم ”مالک“ پر پابندی عائد کی ہے۔ یہ رپورٹ وفاقی سینسر بورڈ نے تیار کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس فلم پر یہ اعتراضات اٹھائے گئے ہیں:

1۔ فلم میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک میں لاقانونیت ہے اور فلم عام آدمی کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

2۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں یک طرفہ موقف اختیار کیا گیا ہے۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ ملک بھر کی پولیس نااہل اور بدعنوان ہے۔

3۔ ایک سابق افغان مجاہد جو بعد میں طالبان کے ساتھ مل جاتا ہے، اسے ہیرو یا محب وطن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

4۔ فلم میں ایک سندھی وڈیرا ایک پٹھان لڑکی کو ریپ کرتا ہے۔ اس سین میں لڑکی کی نسلی شناخت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

5۔ لوگوں کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ملک کا سیاسی نظام مجموعی طور پر کرپٹ اور نااہل ہے اور تمام سیاستدان دولت کمانے میں مصروف ہیں۔

6۔ ملک کے ووٹر محسوس کرتے ہیں کہ ملک کے سیاسی نظام میں ان کے کردار کی توہین کی گئی ہے۔

یہ سارے دلچسپ نکات ہیں جن پر بات کرنے سے پہلے یہ کہنا بے حد ضروری ہے کہ اگر سینسر بورڈ یا حکومت کی ان تمام باتوں کو من و عن تسلیم بھی کر لیا جائے، پھر بھی کسی انتظامی ادارے کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اظہار کے کسی بھی طریقے کو کنٹرول کرنے کا اقدام کرے۔ ایک جمہوری معاشرے میں رائے کی مکمل آزادی کے بغیر یہ نظام کام نہیں کر سکتا۔ کسی بھی جمہوری حکومت کو عوامی نمائندہ ہونے کے طور پر لوگوں کی رائے کو دبانے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ اظہار کے معیاری اور شستہ ہونے کے چند مروجہ اور مسلمہ اصول ہیں۔ اخبار اور میڈیا کے اداروں میں ایڈیٹر اور فلم یا ڈرامہ میں ڈائریکٹر اس بات کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خبر ، رپورٹ یا فلم و ڈرامہ میں کوئی غیر اخلاقی اور غیر قانونی بات موجود نہ ہو۔ اس کے باوجود اگر کسی اصول یا قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو صرف عدالتیں ہی اس بارے میں چارہ جوئی کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ پاکستانی حکومت نے ایک فلم پر پابندی عائد کر کے آزادی اظہار کے مقدس اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کی مذمت کرنا اور اسے مسترد کرنا فلم کے میرٹ یا سینسر بورڈ کی شکایات پر غور کرنے سے پہلے بے حد ضروری ہے۔

سینسر بورڈ کی طرف سے جو چھ اعتراضات فلم کی ریلیز کے تین ہفتے بعد سامنے لا کر پابندی لگوائی گئی ہے، ان پر فلم کو سینسر سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے وقت غور ہونا چاہئے تھا۔ یہ فلم تین ہفتوں سے ملک کے سینما گھروں میں دکھائی جا رہی تھی۔ فلم کی کوالٹی اور گھٹیا پیشکش کی وجہ سے عام طور سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اسے ایک آدھ روز میں سینما گھروں سے اتار لیا جاتا اور جلد ہی اس کے بارے میں گفتگو بھی بند ہو جاتی۔ لیکن اچانک فلم کی نمائش پر پابندی لگا کر اسے نئی زندگی عطا کر دی گئی ہے۔ اب لوگ اگر اسے سینما گھروں میں نہ بھی دیکھ سکے تو انٹرنیٹ کے ذریعے یہ فلم کئی گنا زیادہ لوگوں تک پہنچے گی اور حکومت نے جن منفی اثرات سے بچنے کے لئے پابندی عائد کی ہے ان کی شدت دوچند ہو جائے گی۔

اس صورتحال میں تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی اپنی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مشکل سیاسی حالات میں انہیں سیدھا اور واضح راستہ دکھانے اور حالات پر قابو پانے کے لئے راست اقدام کرنے کا مشورہ دینے کی بجائے، گمراہ کرنے اور ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو مخالفین کے ہاتھوں میں مہلک ہتھیار دینے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے فوری طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ صوبے میں اس فلم کی نمائش پر پابندی کا احترام نہیں کرے گی۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے مشیر برائے اطلاعات مشتاق غنی نے کہا ہے کہ اصولی طور پر تو یہ فلم ملک بھر میں دکھائی جانی چاہئے کیونکہ یہ سیاست دانوں کی بدعنوانی کا پردہ فاش کرتی ہے اور ہم ہر قسم کی بدعنوانی اور بدانتظامی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ صوبائی حکومت خود اس فلم کو دکھانے کا اہتمام نہیں کرے گی لیکن جو سینما گھر اسے دکھائیں گے، ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ صوبائی مشیر اطلاعات نے واضح کیا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد فلموں کا سینسر صوبائی معاملہ ہے۔ اس لئے وفاقی حکومت کو اس فلم پر پابندی لگانے کا اختیار نہیں تھا۔ اس حوالے سے یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا میں کوئی فلم سینسر بورڈ موجود نہیں ہے۔ اس لئے وفاقی سینسر بورڈ کے فیصلے ہی یہاں پر نافذ العمل ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف چونکہ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر نواز شریف حکومت کے خلاف پرجوش محاذ آرائی کر رہی ہے، اس لئے اب فلم ”مالک“ پر پابندی کے معاملہ کو حکمران طبقے کی کرپشن کے ساتھ ملا کر بحث کو یک طرفہ ، شدید ، تلخ اور سیاسی حملے کرنے کا ذریعہ بنا لیا جائے گا۔ اس کا آغاز خیبر پختونخوا میں فلم کی نمائش کی حوصلہ افزائی کے فیصلہ کے ذریعے کر لیا گیا ہے اور اب یہ سلسلہ سیاسی جلسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں حکومت پر تنقید کرنے کی صورت میں جاری رہے گا۔ فلم کے پیغام اور اس سے پہنچنے والے نقصان سے قطع نظر حکومت اس غلط فیصلہ کی وجہ سے اب مزید دباﺅ کا شکار ہو گی اور اس کے نمائندے بہر صورت ایک غلط فیصلہ کا دفاع کرنے میں اپنی صلاحیتیں ضائع کریں گے۔

اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فوج کے ادارہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر ISPR نے اس فلم کو بنانے میں تعاون کیا ہے۔ اس لئے عام طور سے یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بلاتخصیص احتساب کی بات کر کے حکومت پر جو دباﺅ بڑھایا تھا، یہ فلم بھی فوج کے اسی رویہ کا اظہار ہے۔ اس حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ گزشتہ ہفتے جن افسروں کو کرپشن کے الزام میں فوج سے برطرف کیا گیا تھا، وہ فیصلہ کافی عرصہ پہلے ہو چکا تھا لیکن اس خبر کو سامنے نہیں لایا گیا۔ تاہم پاناما پیپرز میں نواز شریف کے خاندان کا نام آنے اور اس پر اپوزیشن کے دباﺅ میں اضافہ کے بعد پہلے آرمی چیف نے کرپشن کے خلاف کارروائی کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی بات کی اور اس کے چند روز بعد ایک پرانے فیصلہ کی تشہیر کی گئی۔ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ فوج اس طرح ملک کی سیاسی حکومت کو دباﺅ میں لانا چاہتی ہے۔ فوج اور سیاستدانوں کے درمیان بلی چوہے کا یہ کھیل چونکہ نیا نہیں ہے ، اس لئے ان قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

یہ صورت حال فوج کی شہرت اور اس پر لوگوں کے اعتماد کے حوالے سے بھی تکلیف دہ ہے۔ عام شہری جب سیاستدانوں کی بداعمالیوں کے قصے اپوزیشن کی زبانی اور ٹاک شوز کے ذریعے سنتے ہیں تو ان کی نظر پاک فوج اور اس کے سربراہ کی طرف اٹھتی ہے۔ اسی لئے پاک فوج زندہ باد اور جنرل راحیل شریف زندہ باد کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ حالانکہ سچ تو یہی ہے کہ فوج وہی کام کر رہی ہے جو اسے سونپا گیا ہے۔ ملک کے دوسرے ادارے بھی اپنے دائرہ کار کے اندر اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب فوج اگر اس پروپیگنڈا کا حصہ بن جائے کہ ملک کے سیاستدان ناقابل اعتبار اور بدعنوان ہیں تو یہ طرز عمل ماضی میں براہ راست اقتدار سنبھالنے کے رویہ سے مختلف نہیں ہے۔ جنرل راحیل شریف کو اس بات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ آئی ایس پی آر کیوں کسی فلم یا کسی بھی دوسرے طریقے سے ملک میں ہونے والے سیاسی مباحث کا حصہ بن رہا ہے۔ اگر یہ اطلاعات غلط ہیں تو ان کی تردید کی جائے۔ اگر یہ بات درست ہے تو متعلقہ عناصر کے خلاف موزوں ڈسپلنری کارروائی کی جائے تا کہ فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیت پر داغ لگانے کی ہر کوشش ناکام ہو سکے۔ خواہ وہ اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مالی دولت کمانے کا طریقہ ہو یا مختلف ہتھکنڈوں سے سیاسی عزائم کے اظہار کے لئے راستہ تلاش کرنے کا رویہ ہو۔ اگر فوج کی طرف سے ان افواہوں کے حوالے سے دوٹوک بیان سامنے نہیں آتا تو اقتدار کی کشمکش میں فوج کی تصویر مزید دھندلی اور خوفناک نظر آنے لگے گی۔

فلم ”مالک“ کی کوالٹی اور اس کی کہانی میں کمزوریوں کے بارے میں کئی تبصرے سامنے آ چکے ہیں۔ طالبان کو مثبت انداز میں پیش کرنا، ایک خاص گروہ کو استحصالی کے روپ میں دکھانا اور خاص طور سے ایک وزیراعلیٰ کو اس کے محافظ کے ہاتھوں قتل کروانا اور اس فعل کے جائز ہونے کا تاثر دینا، ملکی سیاسی صورتحال کی منظر کشی کی بھونڈی کوششیں ہیں۔ 2011 میں ممتاز قادری کے ہاتھوں گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے تناظر میں فلم میں اسی نوعیت کا منظر شامل کرنا، قانون کی عملداری پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ سینسر بورڈ جو اعتراضات اب سامنے لا رہا ہے، ان پر فلم کو سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت تھی۔ وفاقی حکومت نے ایک پرانے قانون کا سہارا لے کر آزادی اظہار پر قدغن لگانے کی جو کوشش کی ہے، اسے اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments