سند باد جہازی کا پہلا سفر – دبئی کا جہاز اور فرنگی حسینہ


من کہ موسوم بہ سند باد، اہل مغرب کی پیہم سازشوں سے ناخوش و بیزار بیٹھا تھا۔ ارادہ ہوا کہ ان کے دیس میں جا کر ان کا حال معلوم کیا جائے اور انہیں راہ راست پر لایا جائے۔ دوران تعلیم ہم اپنے ہوسٹل کے ناظم مقرر کیے گئے تھے اور وہاں سے ہر قسم کی بدی بشمول موسیقی، گمراہ کن کتب بینی اور زندہ دلی کا خاتمہ کرنے میں کماحقہ کامیاب ہونے کے بعد جہازی کا خطاب پا چکے تھے۔ خاص طور پر نیو ائیر نائٹ پر ہمارے ڈنڈا بریگیڈ کی شہرت تو دور دور تک پھیل چکی تھی۔

مغرب کو خروج سے پہلے ہم نے کفار کے حربوں سے نمٹنے کی تیاری کی۔ ہمیں علم ہوا تھا کہ وہ ملعون نہ صرف حرام گوشت کھاتے ہیں بلکہ گوشت سے بچنے والے انجان پردیسیوں کو حرام کھلانے کی غرض سے چاکلیٹ سے لے کر چپس تک میں کسی ای۔ کوڈ کے ذریعے حرام مال ملا دیتے ہیں۔ یہ بھی شنید تھی کہ ادھر آلو کی بھجیا پکاتے وقت بھی اس میں مے ارغوانی انڈیل دی جاتی ہے۔ ہم نے احتیاطاً ایک سوٹ کیس کو دس کلو بھنے ہوئے چنوں سے بھر کر ساتھ رکھ لیا اور کاندھے پر لٹکانے والے سفری بیگ میں بھی تین کلو بھر لیے کہ راستے میں ان سے پیٹ کا دوزخ بجھائیں گے۔

فیصلہ کیا یونان کے شہر ایتھنز کا عزم کیا کہ یہی سننے میں آیا تھا کہ گمراہ مغربی تہذیب کا منبع یونان ہے۔ اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحرا کے جہاز اونٹ پر سوار ہو کر یونان جانے کا عزم کیا تاکہ دشت لوط سے بآسانی گزر سکوں مگر پھر احباب کی اس نشاندہی پر کہ یورپ میں اونٹ کی پارکنگ ایک بڑا مسئلہ بن جائے گی، ہوائی جہاز کو ترجیح دی کہ سنا ہے اسے ہوا کا اونٹ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ خبر بھی ملی کہ ادھر انگریزوں کے ہوائی جہازوں میں حلال حرام کی تمیز نہیں ہے اس لئے دبئی کی ائرلائن کو سفر کے لئے منتخب کیا۔

ہم باخبر آدمی ہیں اور ہر صبح ”روزنامہ قیامت“ پڑھنے کو عادت بنا لیا ہے تاکہ کفار کی سازشوں سے بخوبی واقف رہیں۔ عنایت اللہ کی لاجواب تاریخی کتاب ”داستان ایمان فروشوں“ کی پڑھنے کے علاوہ ہم نسیم حجازی مرحوم کے بھی حافظ ہیں۔ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ جیسے ہی ہم جیسا کوئی نیک طینت صالح نوجوان کسی اچھی نیت سے سفر کرتا ہے تو یہود و نصاری اسے شہید کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ خوبرو جاسوس حسیناؤں کو اس کے اخلاق بگاڑنے کے لئے تعینات کرتے ہیں۔ اس لئے ہم نے دیارِ مغرب کا سفر کرنے سے پہلے لنگوٹ خوب کس کر باندھ لیا تھا تاکہ یہ فرنگی و یہودی حسینائیں ہمیں پرچا نہ پائیں۔

ہمارا پورا محلہ بس میں سوار ہو کر ہمیں چھوڑنے ہوائی مستقر تک آیا۔ ہر ایک سے فرداً فرداً معانقہ کرنے کے بعد ہم مستقر کے اندر پہنچے اور ہزار دقت اٹھانے کے بعد جہاز تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم جہاز کے دروازے سے جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر شدید صدمہ ہوا کہ ہماری توقع کے برخلاف دبئی کی ہوائی کمپنی میں عربی جبہ پہنے شریف صورت نوجوانوں کی بجائے فرنگی حسینائیں دروازے پر کھڑی ہمیں دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ ہمیں ان کی شکل دیکھ کر ہی علم ہو گیا کہ یہ یہودنیں ہیں کیونکہ عنایت اللہ کے ناولوں میں یہ صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا تھا کہ نصرانی دوشیزاؤں کا حسن بہکانے والا ہوتا ہے تو یہودنیں ایک درجہ بڑھ کر باقاعدہ توبہ شکن ہوتی ہیں۔

ہم نے اس کافر صنم سے نگاہ بچا کر گزر جانا چاہا تو اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر ہمیں روک دیا۔ اب ہم اس سے جتنا بچنا چاہیں وہ اتنا راہ میں آئے۔ عجیب صورت حال پیدا ہو گئی۔ ہمیں یہ تو علم تھا کہ اہل مغرب میں جنسی بے راہ روی حد درجہ بڑھی ہوئی ہے اور ادھر راہ چلتی حسینائیں بھی ہمارے گلے پڑ سکتی ہیں تاکہ اپنی جنسی ہوس پوری کریں لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کا یہ کھیل وطن عزیز کے ائیرپورٹ پر ہی شروع ہو جائے گا۔ کچھ دیر تک ہم اپنی عزت بچانے کی جدوجہد کرتے رہے تا آنکہ پیچھے کھڑے ہوئے ایک جوان نے کہا کہ بھائی جی ان کو اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پرچی پکڑا دو تو یہ تنگ نہیں کرے گی۔ واقعی ایسا ہی ہوا جیسا اس جوان نے کہا تھا۔ ہمارے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پرچی اس حسینہ نے پکڑی اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر چل پڑی۔

ہم اس کے پیچھے پیچھے چلتے گئے۔ حالانکہ بیس قدم کا فاصلہ ہی طے کیا تھا مگر ہمارا سانس خوب پھول گیا۔ خدا جانے ایک اسلامی ملک کی ہوائی کمپنی میں ان کافر حسیناؤں کو کیوں ملازم رکھا گیا ہے۔ بہ امر مجبوری ملازمت دینی ہی پڑ گئی ہے تو ان کو اتنا چست لباس تو نہیں پہنانا چاہیے۔ مسافروں میں ہم جیسے گرم خون والے باحمیت نوجوان بھی ہوتے ہیں۔

اس کافر صنم نے ایک سیٹ کی طرف اشارہ کیا کہ اس پر بیٹھ جائیں۔ ہم اس پر ڈھیر ہوئے تو اس نے ہمارے سفری بیگ کی طرف اشارہ کیا۔ ہم نے اسے سختی سے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ ہمیں علم ہو گیا تھا کہ یہ ہمارا حلال کھانا چھیننا چاہتی ہے تاکہ ہمیں حرام کھانے پر مجبور ہونا پڑے۔ اب دوبارہ ایک کشمکش شروع ہو گئی لیکن خوش قسمتی سے وہی نوجوان نمودار ہوا جس نے ہمیں پہلے اس سے جان چھڑانے کا طریقہ بتایا تھا۔ اس نے بزبان فرنگی اس حسینہ سے کچھ کہا تو وہ پیچھے ہٹی اور نوجوان نے ہمارے ہاتھ سے سفری بیگ لے کر اوپر ایک الماری میں رکھا تو پھر اس کافر صنم نے ہماری جان چھوڑی اور مایوس ہو کر کسی دوسرے شکار کو پھانسنے دروازے کی طرف چل پڑی۔ نوجوان ہمارے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا اور ہم نے شکر ادا کیا کہ اب باقی سفر میں بھی وہ ہماری بچت کا سبب بنے گا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےسند باد جہازی اور دبئی کی مقدس سرزمین کے ٹھگ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar