ہماری برآمدات کیوں نہ بڑھ سکیں


شاہد خاقان عباسی کی کابینہ نے آخری دنوں میں برآمدی مراعات کے جاری پروگرام کی مدت میں اضافہ کر دیا۔ حالات کے مطابق شاید یہ ضروری تھا مگر خوشی نہیں ہوئی۔ کب تک عارضی امداد کا سہارا درکار رہے گا۔ یہ مسئلہ ایک طویل مدتی لائحہ عمل کا متقاضی ہے۔ پاکستان کی برآمدات کے فروغ سے میرا پرانا تعلق ہے۔

استنبول میں بطور قونصل جنرل یہی کام کیا۔ کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن میں ڈائریکٹر رہا۔ ایکسپورٹ پروموشن بیورو میں وائس چیئرمین اور 2009ء سے 2012ء تک وفاقی سیکرٹری تجارت کی ذمہ داری نبھائی۔ 2012ء میں ہماری برآمدات بمشکل 25 بلین ڈالر تک پہنچیں۔ رواں سال کارکردگی بہتر ہے مگر گزشتہ چھ سال کے دوران سالانہ برآمدات 25 بلین ڈالر سے کم ہی رہیں۔

پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے ملک آگے نکل گئے اور ہم پیچھے رہ گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اِس کی وجوہات جاننے کے لئے ہمیں کئی سو سال پیچھے جانا ہو گا۔ آج سے تقریباً تین سو سال پہلے یورپی ملکوں کے طالع آزما، اپنے بحری جہازوں پر ایسی منڈیوں کی تلاش میں نکلے، جن سے تجارت کی جا سکے۔ انگلستان، فرانس، اسپین، ہالینڈ، اٹلی، پرتگال کے تاجر اور کمپنیاں سرکاری سرپرستی کے تحت پوری دُنیا میں پھیل گئیں۔

آزاد تجارت کسی بھی ملک کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتی، مگر تجارت سے شروع ہونے والا عمل بیرونی طاقتوں کے مکمل قبضے میں تبدیل ہو گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں جہانگیر کے دربار سے تجارت کی اجازت ملی مگر بہت کم عرصے میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر قابض ہو گئی۔ قبضہ حاصل ہونے پر تجارت کی آڑ میں وسائل کی منتقلی کا عمل شروع ہوا۔

ہندوستان کی گھریلو صنعت میں گرم مصالحوں کے علاوہ، کپاس اور ریشم سے بنی ہوئی اشیاء عالمی منڈیوں میں برآمد کی جاتی تھیں۔ انگریز کی تجارتی حکمت ِعملی نے ہندوستان کو ایسی منڈی میں تبدیل کر دیا جس میں مقامی خام مال سستے داموں انگلستان بھیجا جائے اور وہاں کا تیار مال، ہندوستان کی منڈیوں میں پہنچے۔ اِس پالیسی پر عمل درآمد کا طریقہ بہت سادہ تھا۔ ایک طرف، صنعت پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی جس سے مقامی مصنوعات کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ دُوسری طرف انگلستان کی مصنوعات پر درآمدی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔

برصغیر پاک و ہند کو دہرا نقصان ہوا۔ ہندوستان کے محصولات میں کمی ہوئی اور انگلستان کی بنی ہوئی اشیاء سستے داموں مقامی منڈیوں میں پھیل گئیں۔ تقریباً دو سو سال تک اس پالیسی پر عمل ہوتا رہا۔ آہستہ آہستہ ہندوستان کی گھریلو صنعت تباہ ہو گئی۔ برطانیہ اور فرانس کو فائدہ اٹھاتے دیکھ کر جرمنی اور دُوسرے یورپی ممالک نے بھی اپنے لئے نو آبادیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جنگِ عظیم اوّل شروع ہونے کی ایک بڑی وجہ، نو آبادیوں کے حصول کی خاطر یورپی ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشمکش تھی۔

1947ء میں جب انگریز گئے تو پاکستان میں صنعت نام کو بھی نہیں تھی۔ جو خطے پاکستان کا حصہ بنے اُن میں صرف خام مال پیدا ہوتا تھا۔ پنجاب، سندھ اور بنگال بنیادی طور پر زرعی علاقے تھے۔ متحدہ ہندوستان میں صنعت کاری شروع بھی ہوئی تو صرف سمندری بندرگاہوں کے قریبی علاقوں میں۔ بمبئی، کلکتہ اور مدراس کے قرب و جوار میں، سوتی دھاگے اور پٹ سن کی فیکٹریاں لگائی گئیں۔ تجارت اور صنعت کاری کے حوالے سے ٹاٹا اور برلا سمیت، ہندوستان کے مشہور صنعت کار گھرانے وجود میں آئے۔ اِن گھرانوں میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔

نو آزاد ملکوں کی طرح، پاکستان کو بھی زرِمبادلہ کی ضرورت تھی۔ متحدہ ہندوستان کی فوج کے وسائل دونوں ملکوں میں تقسیم ہونا تھے۔ حالانکہ فوج کی بیشتر افرادی قوت پاکستانی علاقوں سے تعلق رکھتی تھی، مگر تقسیم میں پاکستان کو ہتھیار اور فوجی ہوائی جہازوں کا پورا حصہ نہ ملا۔ ہندوستان سے خراب تعلقات کی بناء پر ہماری فوج کو اسلحہ درکار تھا۔

مقامی صنعت کے فقدان کی وجہ سے عوام کے لئے بھی ضرورت کی اشیاء درآمد کرنے کی ضرورت تھی۔ اِن مشکل حالات میں، زرِمبادلہ کمانا بھی ضروری تھا اور بچانا بھی۔ کمانے کے لئے برآمدات میں اضافہ اور بچانے کے لئے درآمدات کے لئے صنعت کاری ہماری ضرورت بنی۔

جن ملکوں نے برآمدات بڑھانے پر توجہ دی، اُن کی صنعتی پالیسی مختلف تھی۔ عالمی منڈی میں مقابلہ بہت مشکل ہے۔ قیمت اور کوالٹی، دونوں اہم ہوتی ہیں۔ پیداواری لاگت گھٹانے سے مقابلہ آسان ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، اشیاء کے معیار میں بہتری اور جدت لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ برآمدات کو فروغ دینے والے ممالک نے معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھا۔

اپنے صنعت کاروں کو سہولتیں فراہم کیں تاکہ اشیاء میں جدت اور کم لاگت پر پیداوار کا رحجان فروغ پائے۔ اِن ممالک میں برآمدات بڑھیں تو اندرونِ ملک سرمایہ کاری کو فروغ ملا۔ زرِمبادلہ کے ذخائر اور مقامی لوگوں کے لئے ملازمت کے مواقعوں میں اضافہ ہوا۔

ایسا نہیں تھا کہ پاکستان میں برآمدات بڑھانے کی کوشش نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں کپاس کی صورت، ایک موزوں خام مال میسر تھا۔ اِسے بنیاد بنا کر ہم (Ginning) کپاس کی صفائی، (Spinning) دھاگہ بنانا، (Weaving) کپڑا بننا اور (Garment Manufacturing) لباس بنانے کی صنعت کو فروغ دے سکتے تھے۔ جننگ کی مقامی صنعت پہلے سے موجود تھی۔ پاکستان بننے کے بعد (Spinning) دھاگہ بنانے کے کارخانے لگائے گئے۔

ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ لوگوں نے اپنی انجمن بنائی۔ کاروباری مفاد کو تحفظ دینے کے لئے صنعت کار اکٹھے ہوئے تو اُنہوں نے کامیابی سے حکومت کو قائل کر لیا کہ خام کپاس کی برآمد پر ایکسپورٹ ڈیوٹی لگا کر مقامی منڈی میں کپاس کی قیمت کم کی جائے۔ بیچارے کسان کو علم ہی نہ ہوا کہ اُس کے ساتھ کیا دھوکا ہوا ہے۔

خام مال کی قیمت کم ہوئی تو منافع کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔ سوتی دھاگے اور کپڑا بنانے کی فیکٹریوں کے مالکان حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے لگے۔ 1964ء میں الیکشن ہوا تو ٹیکسٹائل کے صنعت کاروں کی انجمن نے اپنے ممبران کو حکم دیا کہ فیکٹری میں نصب، فی (spindle) دھاگہ بنانے والا آلہ اور فی (Power Loom) کپڑا بننے کی مشین، کے حساب سے ایوب خان کے الیکشن فنڈ میں رقم دی جائے۔

پاکستانی تاریخ کے اِس دور میں ایک طرف وہ صنعت کار تھے جنہوں نے (Import Substitution) کی پالیسی کے تحت درآمدی ڈیوٹیوں کا حصار اتنا اونچا کروا لیا کہ مقابلے کا خوف نہ رہا۔ دُوسری طرف ایکسپورٹرز حکومت سے کپاس کی قیمت کم کروا کر، عیش کرتے رہے۔ ملک کے سیاست دان پہلے ہی (Absentee Landlord) غیر حاضر جاگیر دار تھے۔

جاگیریں اتنی بڑی تھیں کہ اُنہیں زرعی طور طریقوں میں بہتری لانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ہماری پالیسیوں نے صنعت کاروں کے لئے بھی منافع کی شرح اتنی بڑھا دی کہ پاکستان میں (Absentee Industrialist) غیر حاضر صنعت کاروں کا طبقہ بھی پیدا ہو گیا۔

سنگِ بنیاد ہی غلط رکھا جائے تو مضبوط عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔ برآمد کے حوالے سے صرف ٹیکسٹائل کی صنعت کا ذکر اِس لئے کیا گیا ہے کہ یہ ہماری ایکسپورٹ کا نصف سے زیادہ حصہ ہے۔ ہم ایک طرف امدادی رقوم کا سہارا دے کر برآمدات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، دوسری طرف ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے سے درآمدات میں کمی کی کوشش ہوتی ہے۔

دونوں پالیسیاں نہ صرف عارضی بلکہ غلط ہیں۔ کیا ہونا چاہئے تھا اور کیا کرنا چاہئے، اس کا ذکر پھر کبھی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood