شریف خاندان کو غیرمؤثر بنانے کا سنہری موقع


انتخابات کا ذکر ہو تو تحریک انصاف ہمیشہ اس بات کی شاکی رہی کہ اسے اٹک سے پنجاب تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں Level Playing Fieldنہیں ملتی۔ شریف خاندان کئی دہائیوں سے لاہور کا ایک معروف صنعتی خاندان شمار ہوتا رہا ہے۔ افسر شاہی سے بناکررکھنا پاکستان ایسے ممالک میں Upwardly Mobileسرمایہ کاروں کی مجبوری رہی۔ عسکری چھتری تلے سیاست میں جگہ بناتے ہوئے نواز شریف اور ان کے خاندان نے اس پہلو پر توجہ برقرار رکھی۔

2008سے تخت لہور پر فائز شہباز شریف صاحب نے بھی ’’گڈگورننس‘‘ کا جوماڈل بنایا اس میں احد چیمہ جیسے افسروں پر مشتمل چہیتوں کا ایک مخصوص گروپ ہی ان کے لئے میٹروبس جیسے منصوبے سوچتا رہتا۔ ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کو تیز تر کرنے کے لئے عوامی نمائندوں کو متحرک کرنے کے بجائے شہباز صاحب نے پبلک -پرائیویٹ اشتراک کے اصولوں کا سہارا لے کر جو 56کمپنیاں بنائیں ان میں ایسے ہی چہیتے افسروں کو Corporateسیکٹر والی بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات دے کر تعینات کیا گیا۔

گہرے رسوخ کے حامل ایسے افسروں کے ہوتے ہوئے پنجاب میں منصفانہ انتخاب کا انعقاد ناممکن سمجھا جارہا تھا۔

شہباز شریف کے چہیتے ٹھہرائے افسروں کے خلاف تحریک انصاف کی جدوجہد نے بالآخر نیب کو متحرک ہونے پر مجبور کردیا۔ احد چیمہ گرفتار ہوئے۔ مزید گرفتاریوںکی توقع ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان بذاتِ خود مختلف ہسپتالوں کے دورے کرتے ہیں تو کئی افراد کی جان پر بن آتی ہے۔ چند ہی روز قبل توقیر شاہ جیسے دھانسو افسر کی بھری عدالت میں خوب دھنائی ہوئی تھی۔ گزشتہ دس سالوں میں چہیتے بیوروکریٹس کا جو کارڈ شہباز شریف نے اپنی خدمت کے لئے تیار کیا تھا اب تتربتر ہوتا نظر آرہا ہے۔

پنجاب کی افسر شاہی میں پھیلے انتشار اور افراتفری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے نامزد کردہ پروفیسر حسن عسکری صاحب کو بھی انتخابات کے انعقاد کے لئے قائم ہوئی نگران حکوت کا وزیر اعلیٰ بنادیا گیا ہے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھالینے کے بعد وہ یقینا ایک ایسی کابینہ تشکیل دیں گے جس کے اراکین شہباز شریف کی پروان چڑھائی افسر شاہی کو لگام دینے کی سکت وہمت رکھتے ہوں گے۔ ان افسروں میں سے جو لوگ نیب کے شکنجے سے آزاد رہنے میں کامیاب ہوگئے بلوچستان کے دور دراز مقامات بھیج دئیے جائیں گے۔ ’’پٹواری‘‘ کی بنا پر اٹھائی دیوار لہذا مسمار ہوئی۔

صاف شفاف انتخابات کی پچ تیار ہوگئی ہے۔ سیاسی معالات پر علمی انداز میں ساری عمر تحقیق کرنے والے بردبار پروفیسر عسکری صاحب کو بھی ایک حوالے سے تاریخ بنانے کا موقعہ مل گیا ہے۔ 1985سے پاکستانی سیاست پر کسی نہ کسی صورت حاوی ہوئے شریف خاندان کو جمہوری عمل کے ذریعے غیر مؤثر بنانے کا سنہری موقعہ۔

اس کے بعد جو ’’نیا پنجاب‘‘ ہمیں دیکھنے کو ملے گا اس کا کریڈٹ آنے والے دور کے محقق پروفیسر حسن عسکری صاحب کو دینے پر مجبور ہوں گے۔

پنجاب کے ووٹر کے بارے میں یہ طے کرلیا گیا ہے کہ وہ ’’موقعہ شناس‘‘ ہوتاہے۔ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتا۔ ہوا کا رُخ دیکھ کر چلتا ہے۔ 1946تک یہاں انگریزوں کے نسلی ٹوڈیوں پر مشتمل یونینسٹ پارٹی کی حکومت رہی۔ اس کے بعد ’’تازہ خبر‘‘ آئی اور ’’خضر ساڈا بھائی‘‘ ہوگیا اور پاکستان بن گیا۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد دولتانہ -ممدوٹ کش مکش شروع ہوگئی۔ دولتانہ کامیاب ہوئے تو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے لئے خطرہ بن گئے۔

ان کی حکومت ایک کمیونٹی کے خلاف اُٹھی تحریک پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ اس تحریک پر قابو پانے کے لئے لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑا۔ لوگوں کو سمجھ آگئی کہ وارث شاہ کا بیان کردہ ’’ڈنڈا‘‘ ہی ’’بگڑے تگڑوں ‘‘ کا پیر ہوا کرتا ہے۔

’’ڈنڈے‘‘ ہی کی محبت میں پنجاب نے ون یونٹ کی بھرپور حمایت کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کو دل وجان سے خوش آمدید کہا۔ نواب آف کالا باغ مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے اس کے Electablesکو اوقات میں رکھتے رہے۔ بعدازاں غلام مصطفیٰ کھر نے ان کی نقالی کی کوشش کی۔ Populistمگر بن نہ پائے کیونکہ بھٹو نامی برگد تلے کسی اور Populistکاابھرنا ناممکن تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک بھی پنجاب ہی سے ابھری تھی۔1977کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مظاہروں پر قابو پانے کے لئے لاہور اور ملتان جیسے شہروں کو فوج کے حوالے کرنا پڑا۔ وہ ناکام رہی تو بالآخر جنرل ضیاء الحق کو پورے ملک پر مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔ نواز شریف جیسے ’’ذمہ دار‘‘ سیاست دان انہوں نے ہی دریافت کئے تھے اوربتدریج ایسے سیاستدانوں کی معاونت سے بھٹو کی جماعت کو پنجاب سے فارغ کردیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے بعد اب پنجاب سے فارغ ہونے کی باری نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی ہے۔ حسن عسکری صاحب کی نگران حکومت اس جانب اٹھایا پہلاقدم ہے۔ پنجاب کے ووٹرکو پیغام مل گیا ہوگا کہ اگر اس نے اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا تو وہ تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کو کامیاب کروائے۔ پنجاب کے ووٹر کی ’’موقعہ شناسی‘‘ تحریک انصاف کو اس صوبے سے دو تہائی اکثریت دلوانے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت مل گئی تو شاید 2018موجودہ پنجاب کا آخری سال بھی ہوسکتا ہے جس کی جغرافیائی حدود1970میں ون یونٹ کے اختتام کے بعد طے ہوئی تھیں۔ اب اس میں سے ’’جنوبی پنجاب‘‘ نکالا جائے گا۔

وہ بن گیا تو ’’تخت لہور‘‘ آئندہ چند سالوں میں ’’یکے از مضافاتِ ملتان‘‘ ہوجائے گا۔

شہر ویسے بھی دریا آبا د کرتے ہیں۔ لاہور ’’وگدی راوی‘‘ کے کنارے آباد تھا۔1960میں یہ دریا بھارت کے سپرد کردیا گیا۔ ستلج کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا جس نے سابقہ ریاست بہاولپور کو بدل کررکھ دیا ہے۔ راوی کے بغیر لاہور کو موجودہ حیثیت میں برقرار رکھنا ناممکنات میں سے ہے۔ لندن کوٹیمز کے بغیر آباد نہیں رکھا جاسکتا نہ ہی پیرس کو سین کے بغیر۔

’’تخت لہور‘‘ کا زوال تاریخی اور جغرافیائی حوالوں سے لہذا اٹل ہے۔ لاہور کی گلیوں میں کہا کرتے تھے کہ کشتیاں جہاں جائیں ملاح بھی وہاں چلے جاتے ہیں۔ لاہور کے کنارے بہتے نالہ نما راوی میں اب کشتیاں نہیں چلائی جاسکتیں۔شریف خاندان بھی اس شہر سے اُٹھ کر اب ’’سیاسی ملاحی‘‘ کے قابل نہیں رہا۔ نئے دور کی نمودہونا شروع ہوچکی ہے۔ پروفیسر حسن عسکری صاحب کی نگہبانی میں اب پنجاب نئی منزلوں کی جانب اپنا سفر شروع کردے گا۔

بشکریہ نونوائے و


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).