ایک اور عظیم انسان چلا گیا


وہ عوامی دانشور تھا، وہ فلسفہ، تاریخ، عالمی ادب اور سیاسیات کا نایاب نگینہ تھا، سندھ دھرتی کے ادبی اور سماجی ادب کا ذہین طالبعلم تھا، اس نے کچھ روز پہلے کسی بڑے دانشور سے بات چیت کرتے ہوئے ایک خواہش کا اظہار کیا تھا، اس نے کہا کہ اب وہ تھک گیا، اب اس کی ایک ہی خواہش ہے کہ کسی رات وہ ایسا سوئے کہ پھر کبھی بھی بستر سے اٹھ نہ پائے اور ہمیشہ سوتا رہے، گزشتہ رات اس عظیم انسان کی یہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔

وہ مارکسسٹ بھی تھا کیونکہ وہ ہمیشہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف  کسانوں اور ہاریوں کے حقوق کی جنگ لڑتا رہا۔ وہ صحافی بھی تھا، اس نے پانچ سال اس طرح صحافت کی جس طرح صحافت کی جاتی ہے۔ وہ اس زمین کا پہلا انسان تھا جس نے موسیقی کے ساتھ انقلابی گیتوں کی بنیاد رکھی۔ وہ بھٹو کی سیاست کا بہت بڑا نقاد تھا، لیکن جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی دی، تب وپ مزاحمت کی سب سے بڑی مزاحمت بنکر سامنے آیا۔ پلیجو صاحب اپنے عہد کہ ایک بڑے آدمی تھے، وہ ایک ایسی ہماگیر شخصیت کے حامل تھے جو ایک ہی وقت میں ادیب بھی تھے، نقاد بھی تھے، تاریخ کے فن شناس بھی تھے، تاریخ اور فلسفے کا بھی مطالعہ رکھتے تھے، دنیا کے تمام انقلابات کو جانتے تھے، نہ صرف جانتے تھے بلکہ آخری وقت تک ایک حقیقی انقلابی بھی رہے۔

وہ سکالر شاعر بھی تھا، انقلابات کا طالبعلم بھی تھا، پاکستان میں انقلابی سیاست کی بنیادیں رکھنے والا وہ پہلا انسان تھا، اس لئے انہیں ایک ہمہ گیر شخصیت کہا جاتا ہے، سنا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گیا ہے۔ وہ پاکستان کے پہلے اور شاید آخری انسان تھے جنہوں نے قومی، طبقاتی، جمہوری اور سامراجی سوالات کے درمیان تعلق پیدا کرنے کی ایک حقیقی اور سچی کوشش کی، کمال بات یہ ہے کہ وہ کوشش میں کامیاب رہے اور ان سوالات کے درمیان توازن بھی پیدا کیا۔ ان کی سیاست کی بنیاد انہی سوالات پر تھی۔ آمر ایوب خان سے بدترین آمر مشرف تک جتنی بھی بھی تحریکیں جمہوریت کے احیا کے لئے سامنے آئی، ان تمام تحاریک میں ان کا ایک عملی اور بنیادی کردار تھا۔

وہ پہلے پاکستانی سیاستدان تھے جو خواتین کو عملی سیاست میں لائے۔ کیا کمال انسان تھےجو ادب و افکار کو سیاست میں لائے اور پھر سیاست کو گھسیٹ کر ادب و افکار کا حصہ بنایا اور زندگی کی آخری سانس تک اسی اصول پر کاربند رہے۔ ضیا الحق کے خلاف پہلی مزاحمت 1979 میں ہاری کانفرس سے شروع ہوئی تھے، یہ وہ کانفرس تھی جو آمریت پر پہلا وار تھی، اسی سے پھر مزاحمت کی بنیاد ڈالی گئی۔ رسول بخش پلیجو ہی وہ انسان تھے جنہوں نے شاہ لطیف کو عالمی انسانی تناظر میں انقلابی انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے سمجھایا کہ شاہ لطیف عالمی انسانی تاریخ کا مفکرشاعر ہے۔ وہ افسانہ لکھتا بھی تھا اور اس ادبی صنف کا ایک بہت بڑا نقاد بھی تھا۔ انہوں نے ترقی پسندانہ خیالات کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی کو شکست دی۔

وہ جاگیردارانہ قوم پرستی کے ساتھ ساتھ جاگیردارانہ جمہوری ذہنیت کا بھی مخالف تھا، وہ سوچتا تھا اور پھر اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے میدان میں نکل پڑتا تھا۔ اس نے روشن خیال فکر کو سامنے رکھتے ہوئے قومی تحریک کا پرچم بلند کیا اور آخری سانس تک یہ پرچم تھامے رکھا۔ ان کی شخصیت ایسی ہے جیسے کوزے کو دریا میں بند کرنا۔ جی ہاں پاکستان میں  مزاحمتی سیاست کا ایک بہت بڑا نام رسول بخش پلیجو 89 سال کی عمر میں گزشتہ روز کراچی کی ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔ عملی سیاست  سے وفات تک رسول بخش پلیجو پر مزاحمتی رنگ غالب رہا۔ آخری ایام میں انہوں نے  اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی سیاست سے اختلاف کیا اور دوبارہ عوامی تحریک کو بحال کرنے کی کوشش کی اور اسی تحریک کے سربراہ بن گئے۔

پلیجو صاحب  نے ون یونٹ کے خاتمے کے خلاف  مہم میں شاندار کردار ادا کیا، وہ بنگلہ دیش میں فوجی کارروائی کے بہت بڑے مخالف تھے جس کے لئے انہوں عملی طور پر آواز بلند کی، انہوں نے بھٹو دور میں بلوچستان میں فوجی کارروائی کے خلاف بھی احتجاجی تحریک چلائی تھی۔ رسول بخش پلیجو کی 1970 میں قائم کی جانے والی عوامی تحریک نے اس وقت بڑا نام کمایا جب جنرل ضیاکے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مارشل لا کی مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر تحریک برائے جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کی بنیاد ڈالی اور جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک میں عوامی تحریک نے پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رسول بخش پلیجو کو ضمیر کا قیدی قرار دیا تھا۔ پلیجو صاحب نے  طویل قید و بند کی سزا بھگتیں۔

رسول بخش پلیجو نے اپنی جماعت کو انتخابی سیاست سے دور رکھا ہوا تھا۔ وہ ایسے کارکن تیار کرتے تھے جنھیں معاشرتی تبدیلی اور نظام حکومت کی تبدیلی کے علاوہ کوئی اور سروکار نہیں تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں فکری، سیاسی، سماجی محازوں پر لڑنے والے دنیا کے عظیم انقلابی تھے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں پانچ بیٹوں اور بیٹیوں کے علاوہ کارکنوں کی بڑی تعداد کو سوگوار چھوڑا ہے۔ رسول بخش پلیجو 21 فروری 1930کو ٹھٹہ کے منگر خان پلیجو گاؤں  میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ٹھٹہ سے حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم کراچی کے سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی، سندھ لاء کالج سے گریجویشن کی اور سپریم کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے، انہوں نےسندھی زبان میں26کتابیں لکھیں۔ صرف 15 سال کی عمر میں انہوں نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں پر عبور حاصل کر لیا تھا، جبکہ ہندی، فارسی، عربی، پنجابی، بنگالی، سرائیکی اور دیگر کئی زبانوں کو سمجھ اور بول سکتے تھے۔

رسول بخش پلیجونےسیاسی زندگی کے10سال مختلف جیلوں میں گزارے۔ انہوں نےکوٹ لکھپت جیل میں قیدکےدوران ایک ڈائری بھی لکھی۔ رسول بخش پلیجو طویل عرصے سے علیل تھے، وہ سانس، دل اور سینے میں تکلیف کی شکایت  کی وجہ سے  کلفٹن میں نجی اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ رسول بخش پلیجوکی میت کوآبائی علاقے جنگ شاہی میں دفن کردیا گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).