کیا پاکستان فائیو پیز کا مجموعہ ہے؟


معاف کیجئے گا، اور مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہمارایہ ملک جِسے مسلمانوں نے بے شمار قربانیوں کے بعد ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے حاصل کیاتھا۔ اِتفاق سے65سال گزرجانے کے بعد بھی اِس میں حقیقی معنوں میں ایساکوئی اسلامی قانون رائج نہیں ہوسکاہے۔ جیسااِس کے قیام کے وقت اِسے مکمل طور پر ایک اسلامی ریاست کا تصور بناکرپیش کیاگیاتھا۔
بہرکیف! بات بہت آگے نکل جائے گی، اِس ڈر سے ہم اپنی یہ بات یہیں ختم کرتے ہوئے۔ اُس جانب جاناچاہیں گے ، جو ہماراآج کا موضوع ہے۔ یعنی یہ کہ آج اگر ہم اپنے ملک پاکستان کا سیاسی طور پر ایک جائزہ لیں تو ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ہمارایہ ملک عظیم پاکستان فائیوپیز”P”کا ایک مجموعہ معلوم دیتاہے۔ جیسے کہ اوّل پریزیڈنٹ، دوئم پرائم منسٹر، سوئم پارلیمنٹرین، چہارم پولیس، اور پنچم پریس ہے۔
 اگرچہ یہ سچ ہے کہ آج ہمارے یہاں اخلاقی ، سیاسی اور مذہبی سمیت دیگر معاملات میں سب سے زیادہ پاور فل اور مستحکم پوزیشن میں جو” پی” ہے وہ پریس کی شکل میں ہے اِس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آج پریس اول تا چہارم سب کی فطرت سے اچھی طرح سے واقف ہے؛ اور یہ آج اِس مقام پر ہے کہ یہ عوام کو اِن سب کے بارے میں حق اور سچ بتاکر قوم میں ایک شعور بیدار کرنے میں اپنا حق اداکررہاہے؛ جس کے لئے اِس کی یہ خدمات لائق تحسین اور قابل احترام ہیں اور اِس کے علاوہ سب سے آخر میں ایک ایسا پی “P” بھی ہے۔ جو نظر تو نہیں آتامگر اِن سب کے علاوہ عوام بھی اِس کی شدت سے طلب گار ہے ، اور وہ ششم نمبر پر آنے والا پی ہے “پرسنٹیج “جس نے ہماری ساری پاکستان قوم کو کسی نہ کسی حوالے سے اپنے جادوئی اثرمیں ایساجکڑ رکھاہے، کہ اَب جس سے ملک کی سترہ کروڑ عوام چھٹکارہ حاصل کر ہی نہیں پارہی ہے۔ مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بات بھی پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ، اگر جس دن بھی ہماری قوم نے یہ ڈھان لی کہ “پرسنٹیج ” سے نجات حاصل کرنی ہے ، اور جو کچھ بھی کرناہے وہ بغیر کسی پرسنٹیج کے ملک اور قوم کی ترقی وخوشحالی کے لئے کرناہے۔ تو پھر اِس قوم کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوگاکہ یہ اِس سے چھٹکارہ حاصل کر بھی لے گی۔ پھر دنیادیکھے گی، کہ ہماراملک بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کیسے ترقی کی راہ پر گامژن ہوتاہے اور ہم ترقی اور خوشحالی کے مناظر طے کرتے ہوئے اُوج ثریاتک کیسے نہیں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر قول وفعل غرض کہ ہر اعتبار سے جذبہ ءحُب الوطنی پیداکرناہوگا۔
اگرچہ، دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے دنوں سے ہمارے ذہن میں یہ خیالات اُبھراُبھرکرآتے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنی بحث وتکرار سے قوم کا مقدربنانے کے بہانے اِسے بے وقوف بنانے کا ایک اچھا طریقہ اپنارکھاہے۔ اور بیچاری قوم ہے کہ اِن کی لچھے دار باتوں کے سحر میں یوں گرفتار ہوجاتی ہے، جیسے کسی سپیرے کی بین سے سانپ مست ہوکر اِس کی پٹاری میں خود آکر بندہوجاتے ہیں۔ اور سپیرا اِنہیں بند کر کے اپنی بڑی بہادری سمجھتاہے، اور پھر یہ خیالات یکدم سے جھانک کے مانند ذہن کے خانوں میں خود ہی بیٹھ جاتے …مگرآج چونکہ ہم پہلے سے ہی یہ تہیہ کرچکے تھے کہ بھلے سے کچھ بھی ہوجائے اپنے اِن خیالات کوجوایک عرصے سے ہمیں پریشان کئے ہوئے ہیں، اِنہیں قرطاس پر بکھیرے بغیرنہیں رہ سکتے اور جیسے ہی ہمیں موقع ملا ہم نے اپنے اِن خیالات کو اپنے قارئین کے لئے کالم کی شکل دے کر اِن کی خدمت میں پیش کردیاہے۔
اگرچہ، یہ حقیقت ہے کہ دنیاکی ہرتہذیب اورمعاشرے میں بات بے بات زوردار الفاظ اور تلخ کلامی کا سہارالینے والے افراد خواہ وہ حکمران اور سیاستدان یاکسی ادارے کے سربراہ یا عوام ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ کمزرو استدلال کی دلیل دے رہے ہوتے ہیںاِسی لئے تو دانا کا قول ہے کہ دلائل جتنے کمزروہوں گے الفاظ اتنے ہی سخت ہوں گے۔ اِس مفروضے پر عمل پیرارہنے والوں کا ایک سب سے بڑانقصان یہ ہوتاہے کہ اِس سے نہ صرف اِن کی شخصیت کا شیرازہ بکھر جاتاہے۔ بلکہ اِن کے اِسی قول و فعل کی وجہ سے لوگوں کا اِن پر سے اعتماد اور بھروسہ بھی اٹھ جاتاہے۔ گویا کہ، اِس عادت میں مبتلاافراد خود کو ایک کامیاب انسان تصور کرتے ہوئے یہ غلطی بار بار دہرانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ یہ ا فرا د اپنے معاشرے میں مکمل طور پر ایک ناکام اِنسان ہوتے ہیں۔ اور یقینی طور پرایسے افراداپنے حلقے میں ایک گپی اور بگ بگ کرنے والے اِنسان کی سی پہچان کے علاوہ اپنی اور کوئی منفرد پہچان نہیں بناپاتے ہیں۔ جب ہی توہر زمانے میںایسے ہی لوگوں کے لئے کہاجاتاہے ایک غیر ضروری بحث وتکرار کسی بھی عزیز ترین دوست اوررشتہ دار کو بھی جُداکراسکتی ہے ۔ مجھے یہاں یہ کہنے میں ذرابھی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ اِتفاق سے آج ہمارے ملک کے حکمران اور سیاستدان بھی اِسی ڈگر پر چل نکلے ہیں ۔ جیسے اِن دِنوں سابق وزیراعظم نوازشریف اپنی نااہلی کے عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں  ایک جھوٹ کو چھپا نے کے لئے سو جھوٹ بول کر پھنستے ہی جارہے ہیں۔ جوبے سوچے اور بغیر سمجھے ایوانوں سے لے کر عوامی جلسے ، جلوسوں، ریلیوں اور اخبارات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پربھی اپنے اپنے بیانات اور گفتگو کے دوران زوردار الفاظ اور تلخ کلامی کا سہارالے کر اپنے کمزور استدلال کی دلیلوں سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور عوام کو بے وقوف بناکر اپنی اپنی سیاست چمکانے کا ایک عمدہ طریقہ نکال چکے ہیں۔ جو اِن کی ناکامی کا سبب ہے۔ جبکہ عوام یہ با ت بھی خوب جانتے ہیں کہ جب حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عوام کے فائدے کے لئے کچھ نہیں کرناہوتاہے تو وہ اپنی لچھے دار باتوں سے ہی فضول کی بحث و تکرار کی راہ نکال لیتےہیں اوراِس طرح عوامی مسائل کو دباجاتے ہیں۔ جبکہ عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں سیدھی اور صاف طریقے سے کی جانے والی کوئی بھی بات دلیل کہلاتی ہے۔
اِس سے قطع نظر کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان بےشک ملک اور قوم کے خاطر کچھ نہ کچھ نیک جذبات ضروررکھتے ہوں گے مگر وہ اپنے قول و فعل سے اپنے عوام کو یہ ثابت کرانے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور قوم کے لئے بغیر پرسنٹیج کے بھی بہت کچھ بہتر کرنے کی اُمنگ رکھتے ہیں ۔ مگر اِن کی آپس کی پرسنٹیج پر لڑائیاں ختم ہونے کو نہیں آرہی ہیں۔ اِن لوگوں کی اِس سے جان چھوٹے تو یہ عوام کے لئے بھی کچھ بہتر کریں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).