انہیں کیسے بتائیں کہ وہ جا رہا ہے


آئی سی یو میں لیٹاہوا یہ مریض جو کبھی اپنی ذات میں دوسروں کے لیے زندگی کی نوید تھا، آج اپنے بے جان ہو تے جسم کو محسوس کر رہا ہے۔ لیکن نہ تو سانس کھینچنے کی سکت ہے، نہ ہاتھ ہلانے کی۔ ایک دماغ ہے جو جسم کی بیوفائی پر جنبشِ مژہ سے اسے کبھی کبھا ر سر زنش کر تا ہے۔ پر ساکت ہاتھ پیروں میں کوئی جنبش نہیں ہوتی۔ آئی سی یو میں موت کہیں قریب بہت قریب بیٹھی اس کے اعضا آہستہ آہستہ بے جان کر رہی ہے۔ موت جانے کب سے اس کے پیچھے لگی تھی۔ لیکن کسی کو اس کی موجودگی کا شبہ تک نہ گزرا تھا۔ لیکن یہاں وہ سب کو صاف دکھائی دے رہی ہے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لیکن نوید کے ساتھ بیس سال گزر نے والی ببلی اس بات پر خوش ہے کہ نوید اس کی آواز سن کر اپنی بھنوؤں کو حرکت دیتا ہے۔ اور جب اپنی لاڈلی بیٹی عرش ماہ کا نام سنتا ہے تو اس کے سوجے ہوئے ہاتھ پھڑ پھڑانے لگتے ہیں۔ اس لمحے موت بھی میاں بیوی کی خلوت میں حائل نہیں ہوتی اور چپ چاپ اٹھ کر کسی دوسرے آئی سی یو میں اپنی آمد کا ڈھول پیٹنے چلی جاتی ہے۔ پر یہ ڈھول تو یوم الست سے پیٹا جا رہا ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتی کہ زندگی کا ارماں ڈھول کی تھاپ پر اور بھی مہمیز ہوتا ہے۔

یہی کہ پردہ محمل میں مرگ بیٹھی ہے
یہ راز قیس کو ہم اہلِ دل بتا نہ سکے

نوید میرا پھوپھی زاد بھائی اور میری چھوٹی بہن ببلی کا شوہر ہے۔ میری یہ بہن بلا کی صابر اور معصوم ہے، بالکل میری امی کی طرح۔ جب میرے پاپا بسترِ مرگ پر تھے۔ اور میں اپنے چھ ماہ کے بیٹے کے ساتھ ہر روز ہا سپٹل پہنچ جایا کرتی۔ ڈاکٹرز نے پاپا کی زندگی کا وہ آخری ہفتہ قرار دیا تھا۔ لیکن امی کو اپنے اس وظیفے پر یقین تھا جو وہ اس وقت پڑھ رہی تھیں۔ جوں جوں موت پاپا کے قریب آرہی تھی۔ امی کو پاپا کی حالت پہلے سے بہتر محسوس ہوتی۔ انہیں اپنے وظیفے پر اعتماد جو تھا۔ مجھے کہتیں تم ہر روز کیوں آتی ہو، ہفتے میں بس ایک دن آیا کرو، ننھے بچے کے ساتھ یہاں آنا چھا نہیں۔

صبح میرے بھائی نے ببلی کو فون پر تسلی دیتے ہوئے کہا اللہ نوید کی مشکل آسان کرے۔ ببلی اتنی بھی معصوم نہیں اس آسانی میں چھپی مشکل سمجھتی ہے۔ چیخ پڑی، یہ والی بات نہ کریں وہ اچھے ہو جا ئیں گے۔ میں ان سے جب بھی بات کرتی ہو ں وہ ریسپانس کرتے ہیں۔ عرش ماہ کے نام پر تو ان کے ہاتھوں میں بھی حرکت ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز ایسے ہی کہہ رہے ہیں۔ وہ تو اس کی آواز پر رات کے دو بجے اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ ایسے کیسے اسے چھوڑ کر صرف اپنی آسانی دیکھ سکتے ہیں۔

اس وقت سارے ڈاکٹرز نے مل کے فیصلہ کر لیا ہے کہ مریض کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا جا ئے۔ وہ سب رپورٹ پر اپنے دستخط کر کے اور اسٹاف کو حکم دے کر چلے گئے ہیں۔ مگر ببلی موت کو نوید کے دماغ کی طرف بڑھنے نہیں دے رہی۔ اور نوید بھی ضد پر اڑا ہے۔ عرش ماہ اور مہلب نے اپنی ماں کو بتا دیا ہے کہ انہوں نے گھر اچھی طرح صاف کر دیا ہے بابا کا بستر بھی لگا دیا ہے۔ شاید انہیں کسی نے بتا دیا ہے کہ ان کے بابا گھر پہنچنے ہی والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).