جہاں فطرت آپ سے باتیں کرتی ہے


شاہراہِ قراقرم پر جگلوٹ کے پاس ایک ایسا مقام ہے، جہاں سے بیک وقت دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے! سونے پر سہاگہ یہ کہ، عین اسی جگہ عظیم الشان  دریائے سندھ کو خراج پیش کرنے دریائے گلگت بھی ملن کو بیتاب نظر آتا ہے!

فطرت سے محبت کرنے والے لوگ، جب لمبی مسافت طئے کرکے اس سحر انگیز مقام پر پہنچتے ہیں تو یقین جانئے کہ ایک لمحے کو وقت جیسے ٹھہر سا جاتا ہے۔ ایک ہی ساعت میں اپنے سامنے دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکُش کو پاکر ایک ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کا اندازہ صرف فطرت سے محبت کرنے والا شخص ہی لگا سکتا ہے۔

اگر آپ بھی اپنی روزمرہ زندگی کی یکسانیت سے اُکتا  چکے ہیں اور نیچر سے محبت رکھتے ہیں تو ایک بار اپنے پیاروں کے ساتھ ضرور اس سارے سفر کا مزہ لیجیے۔

جی ہاں جناب، میں موجودہ شاہراہ قراقرم (N۔ 35) اور عہدِ قدیم  کی اس عظیم تجارتی راہداری کے متعلق بات کررہا ہوں، جس کو ماضی میں شاہراہ ریشم  یا سلک روٹ کہا جاتا رہا اور جو پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ بھی ہے۔ یہ دنیا کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں ہمالیہ اور قراقرم کو عبور کرتی ہے اور یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ بھی ہے۔

حالانکہ موجودہ قراقرم ہائی وے (KKH) اپنی قدیم اور اصل شکل میں تو موجود نہیں رہی لیکن پھر بھی عُشاق کی تفریح و طبع کے لئے بہر کیف، اب بھی بہت سارا سامان موجود ہے۔ بس صرف دیکھنے والے کی نگاہ ہونی چاہیے۔

قراقرم ہائی وے ایک سڑک کا نہیں، بلکہ ایک عجائب گھر کا نام ہے جہاں 5000 سال قبل مسیح کے زمانے کے آثار قدیمہ اور تقریباً 20000 سے زائد ایسی چٹانیں اور مقامات دریافت ہوئے ہیں، جو قدیم تہذیبی اہمیت کے حامل ہیں اور 50000 سے زائد بدھ راک آرٹ کے نمونے بھی دریافت ہوئے ہیں۔

زمانہ قدیم سے لے کر آج تک اس تجارتی راہداری پر سفر کرنے والے نجانے کتنے حملہ آوروں، سیاحوں، تاجروں، مبلغوں، زائروں اور عاشقوں نے اس پراسرار افسانوی شاہراہ پر سے گزرتے ہوئے سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں پر جابجا  اپنی ثقافت، محبت اور عقیدت کے وہ انمٹ نقش ثبتکیے، جو آج بھی ان کے جنون اور عشق کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔

یہ ایک ایسا پر لطف سفر ہے جہاں آج بھی قدم قدم پر فطرت،   اپنے مظاہر سے، آپ کو روشناس کروانے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ جہاں صدیوں سے ساتھ چلنے والا دریائے سندھ اب بھی آپ سے کچھ  کہنے کو مچلتا ہے۔ کیا وہ داریوش کے بھیجے ہوئے سکائے لیکس کی داستان سنانے کو مچلتا ہے؟ یا فاہیان اور  ہیون سانگ کے سفر کی روداد سنانے کو بیتاب ہے؟

سنا ہے دارا کے زمانے میں دریائے سندھ کے قریب سونے کی ریت نکال کر فارس، خراج کے طور پر بھیجی جاتی تھی اور آج بھی دھول دھیے سندھو کی ریت میں سونے کے ذرات تلاش کرنے کی کیمیاگری کرتے نظر آتے ہیں۔

دورانِ سفر جب ہم نے دریا کے اس پار ان کے رہنے کے مسکن دیکھے تو حیرت زدہ سے رہ گئے کہ آخر کس طرح یہ لوگ اس پار پہنچے ہوں گے کہ بظاہر وہاں جانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک بات تو طے تھی کہ آخرکار ان خاک نشینوں کو  کوئی تو لعل و گوہر مل جاتا ہوگا کہ اس پراسرار ویرانے میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔

ہزاروں سالوں سے بہنے والا دریائے سندھ کہ جس کو رگ وید میں سپت سندھو اور اوستا میں ہپت ہندو کے نام سے پکارا گیا۔ جس کو شیر دریا، اباسین، نیلب، انڈس اور سندھو کے ناموں سے بلایا جاتا ہے، جب تبت کی مانسرور جھیل سے نکل کر دو بھارتی دریاؤں سرو اور زنسکر سے اپنا خراج وصول کرتا، لداخ کے تنگ دروں اور پہاڑوں سے جھاگ اڑاتا ہوا، پاکستان کی سرزمین گلگت بلتستان میں دریائے شیوک، شگر اور گلگت کو اپنے وجود میں ضم کرتا ہوا تیزی سے جاتا دکھائی دیتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی دور دیش کا کوئی خوبرو شہزادہ، موھن جو دڑو کی سندری سمبارا سے ملنے اپنا رخت سفر باندھے چل نکلا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).