قلم پہ پہرے بٹھانے والو


قلم پہ پہرے بٹھانے والو!

بدل چکا ہے وُہ دورِ کہنہ

کہ جس پہ اب بھی تمہاری نظریں جمی ہوئی ہیں

زمیں وہی ہے، فضا مگر اب بدل رہی ہے

ذرا سا ذہنوں کے بند دریچوں کو وا تو کرلو

اِس عہدِ نو میں

سمجھنے والے سمجھ چکے ہیں

وُہ جس کو تم نے اُجالا جانا،

وہ تیرگی ہے

وُہ جن کو تم نے اندھیری رہ پر لگا دیا تھا

اب اُن کے ذہنوں میں آگہی جگمگا رہی ہے

وُہ دیکھتے ہیں…

وُہ سوچتے ہیں…

قلم پہ پہرے بٹھانے والو!

وُہ فصل تم نے تباہیوں کی جو کاشت کی تھی

وُہ فصل جب پک گئی تو اس سے

وطن میں وحشت کی آگ بھڑکی

وطن کو، اہل وطن کو جس میں

سلگتے رہنا پڑا ہے برسوں

گلوں کے رستوں میں ہر قدم پر

وُہ کانٹے جو تم بچھا گئے تھے

اب اُن سے پیارے وطن کا پورا

وجود زخموں سے بھر چکا ہے

جو راستا تم دکھا گئے تھے

وُہ بند گلیوں کا راستا ہے

قلم پہ پہرے بٹھانے والو!

زبان بندی سے کچھ نہ ہوگا

تمہارے پہروں سے سچ رُکا ہے نہ رُک سکے گا

ہوائے تازہ کے روکنے سے گھٹن بڑھے گی

ہو حبس کا موسم

تو اس میں ہر پل ہے سانس رکنے کا خدشہ لازم

جو دل کے اندر غبار برسوں سے بھر چکا ہے

انھیں دلوں سے نکالنے دو

خیال تازہ سے انھیں اب تم اُجالنے دو

قلم پہ پہرے بٹھانے والو!

جوکچھ بھی اب تم

چھپانا چاہو، نہ چھپ سکے گا

جو روشنی ہے، وُہ روشنی ہے

جو تیرگی ہے، سو تیرگی ہے

یہ بات کب تک چھپا سکو گے؟

کہاں تلک تم قلم پہ پہرے بٹھا سکو گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).