جال تو تیار ہے، کیا شکار پھنسے گا؟


جمہوریت کو پاکستانی مفاد کے مطابق بنانے کے لئے تمام انتظامات تو مکمل کرلئے گئے ہیں۔ بس یہ دیکھنا ہے کہ 25 جولائی کو پاکستان کاووٹر بڑی محنت سے تیار کئے گئے اس جال میں پھنسے گا اور انہی انتظامات کے مطابق ووٹ دے گا یا 1970 کی طرح ایک بار پھر تمام اندازوں اور توقعات کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنی مرضی کی پارلیمنٹ منتخب کرکے منتظمین کی مشکلات اور بے چینی میں اضافہ کر دے گا۔ اس تکلیف دہ صورت حال کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک کے آئین میں طے کیا گیا ہے کہ یہاں عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے لوگ حکومت کرنے کے اہل ہوں گے اور جمہوری طریقہ سے بننے والی پارلیمنٹ ہی عوام کی طرف سے فیصلے کرنے اور معاملات طے کرنے کی مجاز ہو گی۔ لیکن اس انتظام میں اڑچن یہ ہے کہ 1973 کا آئین عوام کے منتخب کردہ سیاست دانوں نے بنایا تھا اور باہمی اختلافات کے باوجود اس پر اتفاق کیا تھا لیکن یہ سیاست دان اس نظام میں بے اعتبار اور نااہل قرار پائے ہیں۔ ملک کی حفاظت کے لئے پریشان اداروں اور عناصر کو ہردم دھڑکا لگا رہتا ہے کہ سیاست دان تو بد عنوان اور مفاد پرست ہیں۔ انہوں نے کبھی ملک کا کوئی بھلا نہیں کیا ہے ۔ اس لئے اگر انہیں مکمل اختیار مل گیا یعنی اگر پارلیمنٹ خود فیصلے کرنے لگی اور کسی لگی لپٹی کے بغیر واقعی عوامی حکمرانی نافذ کرتے ہوئے سب اداروں کو قانون و آئین کا پابند بنانے کے لئے اقدام کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس قومی مفاد کا کیا بنے گا جسے کئی دہائیوں تک پال پوس کر جوان کیا گیا ہے ۔ یوں تو اس قومی مفاد کی جوانی اس کی کمسنی سے بھی زیادہ قیامت خیز ثابت ہورہی ہے ۔ نہ ہمسائے راضی ہوتے ہیں، نہ دنیا خوش ہے اور نہ ملک کے عوام کو اطمینان نصیب ہورہا ہے۔

طرفہ تماشہ یہ کہ 2018 انتخابات کا سال ہے اور اس سال میں ایسا انتظام کرنا بے حد ضروری ہے کہ ان لوگوں کو ملکی معاملات پر ہرگز اختیار حاصل نہ ہو جنہیں بوجوہ قومی مفاد کا دشمن سمجھتے ہوئے منظر نامہ سے الگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جمہوریت کی البتہ مشکل یہ ہے کہ اس میں پہلے سے کوئی قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی۔ نہ گھر گھر جا کر لوگوں کو یہ باور کروایا جاسکتا ہے کہ کون لوگ اس وقت چہیتے اور لاڈلے ’قومی مفاد ‘ کے برعکس سمجھے جارہے ہیں اور کن لوگوں کو منتخب کرکے سب اسی طرح ٹھیک ہو سکتا ہے جس طرح نعروں ، بیانات اور سرکاری اعلامیہ میں بتایا جاتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے کی جمہوریت پر یوں کنٹرول کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہو سکتا کہ گھر گھر جاکر لوگوں کو ایک خاص ڈھب سے ووٹ دینے کاطریقہ سمجھا دیا جائے تاکہ کوئی تماشہ بھی نہ ہو، عالمی سطح پر یہ تاثر بھی برقرار رہے کہ پاکستان میں جمہوریت فعال ہے اور اب دوسری کے بعد تیسری پارلیمنٹ کسی پریشانی اور تردد کے بغیر منتخب ہونے والی ہے۔ لیکن اس ’تابناک‘ جمہوری انتظام کی یہ تصویر بھی ہمارے سامنے ہے کہ 2008 کے پہلے انتخاب سے پہلے بے نظیر بھٹو کی شہادت سے حالات پراگندہ اور عوام خوف زدہ ہو گئے تھے ۔ 2013 کے انتخابات میں طالبان نے ڈنکے کی چوٹ پر ملک کی متعدد پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے سے روک دیا تھا اور اس کے حسب خواہش نتائج بھی حا صل کرلئے تھے۔ اب 2018 کا مرحلہ درپیش ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر احتساب عدالتوں کی پیشیاں بھگتنے پر لگا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کو آئین ہی کی شق 184(3) کے تحت اپنے ان اختیارات کا احساس ہو چکا ہے جن سے گزشتہ 40 سال کے دوران سپریم کورٹ کے جج یا چیف جسٹس کے منصب پر فائز رہنے والے افراد بے خبر رہے تھے۔ اب سو موٹو کا ایک اعلان کسی بھی ایوان میں لرزہ طاری کرسکتا ہے۔ میڈیا مالکان کو قومی مفاد کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں بتا دیا گیا ہے اور انہوں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس کی حفاظت کے لئے کسی بھی حد تک جانے کا عہد کیا ہے۔ عدالتوں کی تنبیہ، میجر جنرل آصف غفور کے مشورہ اور قوم کے چوکس اور ہوشیار جاں نثاروں کی موجودگی کے باوجود جو صحافی یا نام نہاد ایکٹوسٹ لائن عبور کرنے کا حوصلہ کرتے ہیں ان کے لئے وطن دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا انتظام بھی کیا گیا ہے تاکہ جمہوریت کا سیل رواں اسی رخ پر بہے جس طرف اس کے رجوع سے قوم نہال اور اس کا مفاد محفوظ ہو سکتا ہے۔

ان تمام انتظامات کے باوجود دل کو دھڑکا تو لگا رہتا ہے۔ آخر اس ملک پر ستر سالہ حکمرانی کی روایت داؤ پر لگی ہے۔ یہ روایت ملک کے بانیان کی خواہش اور کوشش کے باوجود مستحکم کی گئی ہے۔ ملک کے تین آئین اس روایت کی پرداخت میں تر نوالہ بن چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک کا تیسرا آئین یعنی 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے مرتب ہونے والا آئین اتنا ڈھیٹ ضرور ثابت ہؤا ہے کہ اسے معطل و منسوخ کرنے، ردی کاغذ کا ٹکڑا قرار دینے اور جمہوری نظام میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے باوجود ، یہ ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے اور اب بھی چیف جسٹس ہوں کہ آرمی چیف اسی کی وفاداری کا حلف اٹھاتے اور اس پر کاربند رہنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر لوگوں کی عقل سلیم پر اعتبار کرلیا جائے تو اسے تو جمہوریت کہا جائے گا۔ اب لوگ خواہ کتنے ہی صاحبان فہم کیوں نہ ہوں ووٹ دیتے ہوئے تو ان کے پاؤں ڈگمگا سکتے ہیں۔ اس لئے متبادل واضح کردئے گئے ہیں۔ تاکہ غلطی کا گمان نہ رہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اپوزیشن کا نامزد کردہ اور سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں ’اسمبلی میں ہونے والی بغاوت‘ کے نتیجہ میں سامنے آنے والے وزیر اعلیٰ کا تجویز کردہ شخص وزیر اعلیٰ بنایا جاچکا ہے۔ یہ احتیاط بھی کر لی گئی ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ کا دوست اور تعلق دار ہو تاکہ کسی قسم کی بد گمانی کا شائبہ نہ رہے۔ اب اسے اگر کوئی پری پول دھاندلی قرار دیتا ہے تو ان الزامات پر کان دھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ انتخابات کا انتظام کرنے کے لئے ایسے لوگ ہی ہونے چاہئیں جن پر اعتبار کیا جاسکے۔ اب وہ کوئی انتخاب میں حصہ تو نہیں لے رہے کہ انہیں اتفاق رائے سے مقرر کیاجائے۔

کیسی آئیڈیل صورت حال ہے۔ سپریم کورٹ، فوج اور الیکشن کمیشن ایک ہی پیج پر ہیں۔ نگران حکومتوں کے سربراہان موم کی ناک بننے کی ہر ممکنہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ گویا انتظام بھی مکمل ہے اور جال بھی تیار ہے۔ اب شکار کا انتظار ہے۔ لیکن اگر شکار اس دھوکے میں نہ آیا تو پلان بی ہونا ضروری ہے۔ تاہم ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ پلان بی پر عمل کرنے کے نتائج ہمیشہ خواہشوں کے برعکس نکلتے ہیں۔ کیا یہ حوصلہ جمع کرلیا گیا ہے کہ جال خالی سمیٹنا پڑا تو 2023 کے لئے اسے کسی اندھیرے کمرے میں لپیٹ کر رکھ دیاجائے گا۔ اس میں البتہ یہ اندیشہ موجود ہے کہ منصوبہ کے برعکس نتائج سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کچھ ایسے فیصلے کرنے کا حوصلہ کرسکتی ہے جو مزاج نازک پر ناگوار گزریں۔ کچھ اختیارات محدود ہو جائیں اور آئین کی بالادستی اور حکمرانی کا راستہ بحال ہوجائے۔ یہی خوف دن کا چین اور رات کی نیند حرام کئے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali