مرزا غالب، جنسی ہراسانی اور سوشل میڈیا


کل شام میری ایک جاننے والی کا فون آیا۔ آواز میں گھبراہٹ تھی۔ میں نے کہا خیریت۔ بولیں جلدی سے ایک شعر کا مطلب بتا دیجئے۔

دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالباً پیش دستی ایک دن

میں نے کہا غالباً نہیں غالب ہے۔ بولیں اچھا غالب سہی، جلدی مطلب بتائیں۔ اور ایک اور شعر ہے”وہ ساغر و مینا مرے آگے” پہلا مصرع کیا ہے وہ۔ وہ جس میں کچھ ہاتھ میں جنبش وغیرہ کا ذکر ہے۔ میں نے کہا ہاں “آنکھوں میں دم” کا بھی ذکر ہے۔ عجلت سے بولیں ہاں ہاں۔ وہی وہی۔ کیا تشریح ہے۔ میں نے کہا یہ دونوں تو بالکل صاف اور آسان شعر ہیں۔ حالانکہ غالب آسان شعر کہنے کے قائل نہیں تھے۔ بولیں بس اب بتا بھی دیجئے مطلب۔ میں نے ان کی شعری استعداد کو دیکھتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں مطلب گوش گزار کیا۔ اور اپنا استادی حق جانا کہ وجہ دریافت کروں معنی اس شعر کے جاننے کی۔ انہوں نے کہا ابھی میں جلدی میں ہوں میری دوست چندا جو کہ ہرسال آپ کے یہاں مشاعرے میں مجھے رائڈ دیتی ہیں ان کا اپنی بھابی سے اس بات پر جھگڑا ہوگیا ہے کہ بھابی کہتی ہیں، مرزا غالب پر ایک بار مقدمہ چلا تھا اور سزا وغیرہ بھی ہوئی تھی۔ چندا یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ مجھے بھی یقین نہیں آ رہا ہے۔ میں نے کہا بھابی کی بات پر آپ کو یقین کر لینا چاہئے۔ بولیں ہائے اللہ۔ سچی میں۔۔۔ پھر تو اس کی بھابی جیت جائیں گی۔

مگر اس سے اس شعر کا کیا تعلق؟ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سوال کیا۔ بولیں، میں دوبارہ کال کرتی ہوں ذرا جلدی سے اسے روک دوں۔ ساتھ ہی فون کاٹ دیا۔ میں اچنبھے میں تھی اتنے میں ان کا فون پھر آ گیا۔ بولیں اللہ سچی میں، آپ نے تو بچا لیا بے چاری کو۔ خواہ مخواہ سو ڈالر کی شرط ہار جاتیں۔ اصل میں میٹرک کے فوراً بعد ہماری شادی ہوئی اور امریکہ آ گئے اس لئے ہماری اردو تو اتنی اچھی ہے نہیں۔ بس کورس کی کتابوں میں غالب اور میر کو پڑھا تھا۔ اس میں تو کچھ ایسا نہیں لکھا تھا۔ حد ہوگئی۔

میں نے کہا پاکستان میں کورس کی کتابوں میں ایسی ویسی باتیں نہیں دی جاتیں۔ معصومیت سے بولیں۔ کیوں؟ میں نے کہا بھئی طالب علموں کا اخلاق خراب ہونے کے ڈر سے۔ بولیں پھر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ غالب پر مقدمہ چلا تھا؟ میں نے کہا میں چھپ چھپا کر ایسی کتابیں پڑھ لیا کرتی تھی۔ کہنے لگیں، آپ کے گھر میں تھیں ایسی کتابیں۔ میں نے کہا آدمی کو پڑھنے کا خبط ہوجائے تو کتابیں خود چل کر آ جاتی ہیں۔

خاتون مچل گئیں، بولیں آپ بہت فنی ہیں، اللہ سچ بتائیے۔ کہاں پڑھا یہ واقعہ۔ میں نے کہا اب یاد نہیں بہت پہلے کی بات ہے۔ پھرایک فلم ہے نا “مرزا غالب” وہ تین چار بار دیکھی۔ تم بھی دیکھ لو۔ ٹھنڈا سانس لے کر بولیں۔ تاریخی فلم ہوگی۔ میں نے کہا ہاں بھئی۔ بولیں فلم میں ہر بات سچ تھوڑی ہوتی ہے۔ میں نے کہا تاریخ تو جھوٹ نہیں ہوسکتی۔ بولیں آپ کی خوش فہمی ہے۔ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ میں سمجھ گئی ان کا اشارہ کس طرف ہے۔ میں نے کہا بھئی کوئی علاﺅلدین خلجی کے زمانے کی بات تھوڑی ہے کہ جو جی میں آئے لکھ دو، طوطے کی جگہ پنڈت اور پنڈت کی جگہ طوطا فٹ کر دو۔ اپنے یہ مرزا غالب اتنے پرانے تھوڑی ہیں کہ ہیرا پھیری آسان ہو۔ بولیں واقعی! ہم تو انہیں بہت پرانا سمجھتے تھے۔ میں نے کہا کون سے زیادہ دن ہوئے ہیں۔ یہی اپنے انگریزوں کا زمانہ تھا۔۔ بولیں ہیں؟ میں نے کہا اور کیا۔ کہنے لگیں، میں نے سنا تھا مرزا غالب بہت غریب تھے۔ قرضہ ورضہ مانگ کے ادا نہیں کرتے تھے۔ گھر پہ قرقی آتی تھی۔ میں نے کہا خیر جانے دو بڑاآرٹسٹ غریب کہاں نہیں ہوتا۔ مجھے یہ بتاﺅ کہ اس شعر سے غالب کے مقدمے کا کیا تعلق ہے؟

بولیں میری دوست کو کسی نے میسج بھیجا ہے کہ مرزا غالب بہت ٹھرکی آدمی تھے۔ اور دھول دھپہ والے شعر پر انہیں نالش ہوئی تھی۔ نالش کا مطلب جانتی ہیں۔۔ میں نے کہا چلو چلو آگے بتاﺅ۔ بولیں غالب نے ایک مرتبہ کسی خاتون کو اپنے ان شعروں کے ذریعے ہراساں کیا اور کوتوال کو پتہ چل گیا۔ یوں غالب صاحب دھر لئے گئے۔ ادھر اس عورت نے شہر ہی چھوڑ دیا اور جان سے گئی۔ میں نے کہا خدا کا خوف کرو۔ یہ اسٹوری کہاں سے آئی؟ بولیں ان کے شعروں سے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ اتنے بڑے شاعر کے بارے میں ایسی غلط سلط افواہیں مناسب نہیں ہیں۔ بولیں وہ خود اپنے اشعار میں اقبال جرم کر رہے ہیں اور آپ اسے افواہ کہہ رہی ہیں۔ میں نے کہا اب شعر میں پیش دستی وغیرہ لکھ دیا ہو گا۔ کہیں سچ مچ ان کا مطلب تھوڑی رہا ہوگا۔ یہ میں مانتی ہوں کہ ان میں ایک آدھ چھوٹی موٹی انسانی کمزوریاں تھیں۔ بڑے آدمی تھے اس لئے دشمنیاں بھی رہی ہونگی۔ سنا ہے پکڑ دھکڑ میں تھوڑا بہت قرض خواہوں کا بھی ہاتھ تھا۔ بولیں۔ ہائے اللہ۔ قرضہ لے کے لوٹاتے نہیں ہوں گے۔ میں نے بے دلی سے ہنکاری بھری تو وہ اور شیر ہوگئیں۔

کہنے لگیں چندا کی بھابی کہہ رہی تھیں مرزا غالب کے ساتھ کوئی ایک عورت کا مسئلہ تھوڑی تھا۔ انہیں تو چاند تک میں محبوب کا چہرہ نظر آنے لگا۔ سنا ہے زنجیروں سے باندھ دیا گیا تھا۔ میں نے کہا رکو رکو! اب تم پٹری سے اتر گئی ہو۔ دو شاعروں کو گڈ مڈ کررہی ہو۔ وہ چاند اورعورت اور زنجیر والے میر تقی میر تھے۔ ان کا انتقال ہوا ہے تو غالب ابھی گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ میں بات کی رو میں بول تو گئی لیکن واضح کرنا ضروری سمجھا کہ گلی ڈنڈے والی بات محاورتاً کہی گئی ہے۔ وہ معصومیت سے بولیں ہائے اللہ میر صاحب بھی ایسے تھے؟ میں نے کہا کیا کیا جائے۔ وہ کچھ سوچ کر بولیں۔ میں نے سنا ہے شاعری کے لئے عشق کرنا ضروری ہے۔ میں نے کہا پتہ نہیں۔ وہ شرارت سے بولیں۔ آپ تو خود شاعرہ ہیں۔ سچ سچ بتائیں نا۔ شرمائیں نہیں، مجھے محسوس ہوا کہ اب یہ خاتون ہاتھ پکڑتے پکڑتے پہونچے تک آ پہنچی ہیں۔ میں نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔ ہمارے یہاں عورت اور مرد کی شاعری میں فرق ہوتا ہے نا۔ بولیں یہ کیسی بات۔ کہتے ہیں شاعری میں نکھار عشق ہی سے آتا ہے۔ پھر آپ کی شاعری میں نکھار کیسے آیا؟

میرا دل چاہا کہ یہ فون ان کے سر پر دے ماروں لیکن افسوس کہ خاتون فون کے باہر نہیں تھیں۔ میں نے توقف کیا اور کہا کہ مرد ہو یا عورت۔ شاعر پاک محبت کرتے ہیں۔ بولیں کیا مطلب۔ میں نے کہا۔ دل خوش کرنے کو منہ زبانی عشق جتا دیا اور بس ….تم نے پڑھا تو ہو گا کہ افلاطون کی آئیڈیل اسٹیٹ سے شاعر کو نکال دیا گیا تھا۔ انہوں نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ یہ جو غزل کے ہر شعر میں عشق عشق ہوتا ہے یہ کیا ہے۔ میں نے کہا بی بی سب زبانی جمع خرچ۔ بے دلی سے بولیں۔ اچھا وہ چاند والا اصل قصہ کہیں باتوں میں رہ نہ جائے۔ بتا دیجئے چندا کو سناﺅں گی۔

میں نے کہا قصہ کیا بس ادھر چودہ تاریخ کا چاند نکلا ادھرمیر کو اس میں محبوبہ کی صورت نظر آئی۔ کہنے لگیں۔ لگتا ہے آوے کا آوا ہی ٹیڑھا تھا کوئی پاک پاکیزہ شاعر پیدا ہی نہیں ہوا اردو ادب میں۔ میں نے کہا نہیں اب ایسا بھی نہیں۔ ایک آدھ ہیں۔ ویسے شاعر بے چارے کو اتنا تو گریس مارکس دینا چاہئے۔ بولیں۔ یہ آپ کہہ رہی ہیں آپ جو خود اتنی بڑی فیمنسٹ ہیں آپ کے منہ سے تو کم از کم یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ مجھے محسوس ہوا کہ فیمنزم خطرے میں ہے تو میں نے عمداً موضوع بدلا۔ میں نے کہا تم نے وہ شعر سنا ہے، “ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں “۔ بولیں آپ جو کچھ بھی کہیں میں اس احتجاج میں شامل ہونے جا رہی ہوں جو مرزا غالب کے خلاف ہونے جا رہا ہے۔ میں سہم گئی۔ پوچھا کہاں ہونے جا رہا ہے احتجاج۔ تنک کر بولیں سوشل میڈیا پر۔ میں نے کہا اس سوشل میڈیا نے بڑا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ خاتون بہت جذباتی ہوگئی تھیں۔ میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بولیں، چندا کی بھابی نے صحیح کہا ہے۔ ایسا لچر اور مخرب اخلاق لٹریچر ہمیں بچوں کو نہیں پڑھانا چاہئے۔ نکال دینا چاہئے پیار محبت کی باتوں کو کورس کی کتابوں سے۔ میں نے کہا میر اور غالب کی شاعری نکال دیں گے تو بچے گا کیا۔ بولیں علامہ اقبال کی اصلاحی شاعر ی ہمارے لئے کافی ہے۔

میں نے علامہ اقبال سے ان کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ آپ نے علامہ اقبال کی وہ نظم پڑھی ہے۔ “….کی گود میں بلّی دیکھ کر” بولیں نہیں۔ میں نے کہا ضرور پڑھیے گا اگر آپ کے پاس نہ ہو تو میں آپ کو کتاب ادھار دے سکتی ہوں۔ خوش ہوکر بولیں ضرور ضرور۔ میرے بچے بلیاّں بہت پسند کرتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ بچوں کو اردو بھی سکھاﺅں۔ آپ میری رہنمائی کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).