ریحام خان کی کتاب میں ہماری دلچسپی کے اسباب


تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ کی آنے والی کتاب کے بارے میں مجھے جناب انعام رانا صاحب نے اکتوبر میں بتایا تھا۔ لندن میں ہونے والی ایک ملاقات میں انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ کتاب پاکستان میں الیکشن سے ذرا پہلے شائع ہوگی۔ اس کتاب کے مشمولات اور اس کے شائع ہونے کے وقت کے مضمرات جاننے کے لیے نہ سیاسیات کا طالب علم ہونے کی ضرورت ہے اور نہ نفسیات کا۔۔۔تاہم نفسیات کے ایک طالب علم کے طور پر ایک بات کا مجھے اندازہ تھا کہ اس کتاب کا ایک مقصد ایسا بھی ممکن ہے جس پر شاید زیادہ توجہ نہ دی جائے۔

“ہم سب” اور “مکالمہ” پر شائع ہونے والی اپنی سلسلہ وار گزارشات میں نوآبادیاتی نظام Colonialismکے شکار معاشروں پر اس کے اثرات کے ذیل میں یہ کہہ چکا ہوں کہ یہ نظام چار مختلف نوعیت کے اثرات مرتب کرتا ہے۔ نمبر ایک۔ یہ نظام محکوم Colonized معاشروں پر اپنی اقتصادی گرفت کو مضبوط بنا کر ان کو خود انحصاری سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ نمبر دو۔۔۔ یہ نظام محکوم معاشروں کے لیے دوست اور دشمن کا تعین کرتا ہے۔ یہ نظام یہ طے کرتا ہے کہ محکوم معاشروں نے کس سے دوستی کرنی ہے اور کس سے جنگ۔۔۔۔ نمبر تین۔۔۔۔ نوآبادیاتی نظام محکوم معاشروں میں موجود اختلافات کو ہوا دے کر اور نئے اختلافات کو پیدا کر کے ان کو انتشار کی ایک مستقل کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے۔ اور نمبر چار۔ یہ نظام محکوم معاشروں کے افراد کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ ان افراد کی جان عزت اور صلاحیت کی توقیر حاکم معاشروں کے افراد کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان چاروں عوامل کی مثالیں ہمارے معاشرے میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ چند ایک گزشتہ گزارشات میں عرض کرچکا ہوں۔

ذرا نوآبادیاتی نظام کے پیدا کردہ تیسرے پہلو پر دوبارہ غور فرمائیں۔ یہ پہلو محکوم معاشروں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارنے سے متعلق ہے۔ میں اصرار سے کہتا ہوں کہ محکوم معاشروں میں موجود ہرطرح کا اختلاف مردہ اور مصنوعی ہوتا ہے۔ اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ اختلافات پیدا کئے جاتے ہیں۔ اور ان کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ مردہ اور مصنوعی اختلافات سے مراد وہ اختلافات ہیں جن کا محکوم معاشروں کی روزمرہ زندگی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ٹی وی کے اشتہار میں کرکٹ کھیلتی بچی۔۔۔۔ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر۔۔۔۔ ممبران پارلیمنٹ کا حلف نامہ۔۔۔۔ اور ریحام خان کی آنے والی کتاب۔۔۔۔۔۔ان مردہ اور مصنوعی اختلافات کی چند مثالیں ہیں۔ یہ مردہ اور مصنوعی اختلافات جہاں تفرقے اور نفرت میں اضافہ کرتے ہیں ہیں وہیں یہ چار مسائل اور بھی پیدا کرتے ہیں۔۔۔۔

نمبر ایک۔۔۔ لا طائل، بے مقصد اور لا حاصل گفتگو۔ آپ ملاحظہ فرمائیے کے اوپر بیان کردہ چند موضوعات پر ہونے والی گفتگو نے قوم کا کتنا وقت برباد کیا۔ درجنوں نہیں یہ موضوعات سینکڑوں ٹاک شوز اور کالمز کا موضوع بنے۔ جب ان موضوعات پر ماہرین، صحافی اور سینئیر تجزیہ نگار گفتگو فرما رہے تھے لگتا تھا کہ یہ ہماری زندگی کے اہم ترین موضوعات ہیں۔ اگر ان کے بارے میں فیصلہ نہ ہو سکا تو زندگی آگے نہیں بڑھے گی۔ ان موضوعات پر گفتگو کرنے والے دانت کچکچاتے اور کف اڑاتے تجزیہ نگار کس کو یاد نہیں ہوں گے۔۔۔۔پھر ایک دن یہ تمام موضوعات اور ان پر ہونے والی گفتگو ایسے غائب ہوئی جیسے گرم توے پر سے پانی کی بوندیں غائب ہوتی ہیں۔ لیکن ایک موضوع کے ختم ہوتے ہی ایک اور نئے موضوع پر بالکل اسی طرح کی ایک اور گفتگو چھڑ جاتی ہے۔ یعنی ایک ہنگامے پر موقوف ہے۔۔۔۔۔۔ والا معاملہ ہو جاتا ہے۔

ان مردہ اور مصنوعی اختلافات کا دوسرا شاخسانہ معاشرے میں پھیلنے والی بے یقینی اور کنفیوزن ہے۔ایسے معاشروں میں ہر کوئی ہر بات میں سازش کی بو سونگھتا ہے۔ عدالتوں کا ہر فیصلہ۔ ہر بلاگر کے غائب ہونے اور پھر منظر عام پر آنے کی تفصیلات۔۔ ہر ٹی وی چینل کے ہر ٹاک شو کے ہر اینکر۔ ہر سیاسی اور مذہبی لیڈر کے ہر فرمودے اور اداروں کی ہر پریس کانفرنس کے پیچھے چھپی سازشوں کے بارے میں کیا کیا تھیوری پیش کی جاتی ہے اس کی مثال دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ذرا سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان ایسے معاشروں میں کہی جانے والی باتوں اور کیے جانے والے کاموں میں سے کسی ایک پر بھی یقین نہیں رکھتا۔ شک کی ایک مسلسل کیفیت اس پر طاری رہتی ہے۔۔۔۔ اس کا لازمی نتیجہ تیسرا پہلو ہے۔۔۔۔۔ جو خوف ہے۔۔۔ ایسے معاشروں کے افراد ایک بے نام خوف میں ہر وقت مبتلا رہتے ہیں۔ یہ جان مال عزت اور آبرو جانے کا خوف ہے یا ایک وجودی  Existential خوف ہے اس بات کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھیے۔ یہ خوف اخبارات میں چھپنے والی اور عام طور پر سنی جانے والی ایک بات سے بخوبی عیاں ہوتا ہے۔ “پاکستان ایک انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے” یہ ایک ایسا خوف ہے جو محکوم افراد کی صلاحیت و اعصاب کو شل کر دیتا ہے۔ ان کو جھنجھلاہٹ کا مریض بنا دیتا ہے۔ اور معاملہ فہمی سے دور لے جاتا ہے۔اس خوف کا لازمی نتیجہ چوتھا پہلو ہے۔۔۔۔۔ اور وہ ہے حقیقت سے فرار۔۔۔۔

آپ آج ایک سروے کروایں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کمپیوٹر گیمز، موبائل فونز، سوشل میڈیا اور ٹی وی ڈراموں کو زندگی کے حقائق سے فرار کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اگر ان چیزوں کا بڑھتا ہوا استعمال دیکھنا ہو تو پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں جائیے اور نوجوانوں کی اس تعداد کو دیکھئے کہ جو ایک دوسرے سے الگ تھلگ بیٹھی اپنے فون پر مصروف نظر آئے گی۔ ڈرامے دکھانے والے ٹی وی چینلز کی مقبولیت کو دیکھیے۔ فلم نہیں لٹریری فیسٹیولزمیں اداکاروں اور اداکاراؤں کی شرکت اور ان خصوصی سیشن میں حاضرین کی تعداد کو دیکھیے۔ آپ کو میری بات کے ثبوت مل جائیں گے۔

اگر میں اب تک کی گفتگو کا خلاصہ کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ بے مقصد گفتگو مردہ اور مصنوعی اختلافات کو زندہ رکھنے اور معاشرے کو مصنوعی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے مقاصد کو پورا کرتی ہے۔

ریحام خان کی کتاب ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی۔ لیکن اس کے بارے میں جو کچھ اب تک علم آیا ہے اوپر بیان کردہ گزارشات کا ثبوت ہے۔ اس کتاب نے شائع ہونے سے پہلے معاشرے پر جو اثرات مرتب کئے ہیں وہ بھی اس طالب علم کی گزارشات کی تائید کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آپ نے یقیناً غور فرمایا ہوگا کہ فیس بک پر اس کتاب کے مندرجات کے بارے میں لوگوں کے تخیل کی پرواز کہاں تک پہنچی ہے۔ کیسے کیسے رکیک لطیفے گھڑے گئے۔ مصنفہ اور اس کے سابق شوہر کے ذاتی تعلقات پر جو کچھ کہا گیا اس پر گفتگو ایک الگ موضوع ہے۔ تاہم ایک سوال کے ذیل میں سردست ایک بات کہی جاسکتی ہے۔ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اس کتاب سے عمران خان کو کوئی نقصان پہنچے گا یا نہیں۔ یہ سوال معصومانہ ہے یا احمقانہ مجھے نہیں معلوم۔۔ لیکن عمران خان کی ذاتی زندگی سے متعلق جن باتوں کے بارے میں یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ ان باتوں کے منظر عام پر آنے سے ان کو کوئی نقصان پہنچے گا اس طالب علم کی نظر میں یہ صرف ایک خیال خام ہے۔

لوگ بھول جاتے ہیں کہ عمران خان کی ذات میں لوگوں کی اولین دلچسپی ان کی ذات کے یہی پہلو تھے۔۔۔وہ فخریہ مختلف خواتین سے اپنے تعلقات بیان کرتے تھے۔ خواتین ان پر مرتی تھیں اور مرد ان جیسا پرکشش بننا چاہتے تھے۔ عمران خان کو اپنی ذات میں موجود اس مقناطیسیت کا اندازہ تھا تب ہی وہ 65 سال کی عمر میں بھی اپنی شادی کو ایک اہم موضوع گفتگو بناتے رہے ہیں۔ اور لوگوں نے اس موضوع میں دلچسپی لے کر عمران خان کے اپنی ذات کے بارے میں تمام اندازوں کو درست ثابت کیا ہے۔ ۔۔۔۔ جس شخص میں مرد و زن دونوں کے لئے یکساں کشش کا یہ سامان ہوگا اسکی خوابگاہ میں جھانکنے سے کون انکار کرے گا۔ واقعات جتنی تفصیل سے بیان ہوں گے اتنی ہی دلچسپی سے پڑھے جائیں گے۔ واقعات کے بارے میں معمولی اشاروں پر پوری پوری کہانیاں تخیل کے زور پر گھڑی جائیں گی۔ خالی جگہیں خود کو مبینہ کرداروں کی جگہ پر رکھ کر پوری کی جائیں گی۔ اس سے حظ اٹھایا جائے گا۔ ایسا پرکشش مرد بننا مردوں کی خواہش اور ایسے مرد کے ساتھ وابستگی خواتین کا خواب کیونکر نہ ہوگا۔ عرض یہ کرنا تھا کہ عمران خان اپنے دیگر سیاسی اقدامات سے نقصان اٹھا سکتے ہیں یہ کتاب ان کا کچھ نہیں بگاڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).