آذربائیجان میں کوئی ایمانداری کی مثال قائم نہیں کرتا 


ماہ جون کے دوران آذربائیجان کے شہر باکو میں یکایک جب موسم سرد ہو جاتا ہے تو شام جرسی میں گذارنی پڑتی ہے۔ دو تین دن تو ایسے رہے کہ ٹھنڈی ہوا نے دن بھر حکومت قائم رکھی اور وہی جرسی کام آئی۔ لیکن سچ پوچھئے تو سرد موسم کے باوجود وہاں کے لوگوں کے رویہ میں جو گرم جوشی اور مہربانی ہے اس کی راحت جرسی سے زیادہ فرحت بخش ہے۔ بحیرہ کیسپین کے کنارے قائم باکو جس کا نام فارسی کے دو الفاظ ”باد کوبہ“ یعنی ٹھنڈی ہواؤں کا شہر ہے، کو پوشیدہ شہر کا نام دینا بھی بیجا نہیں جو نیشنل جیو گرافک کی ایک ڈاکیومینٹری میں دیا گیا ہے۔

یہ شہر دنیا کے لئے گویا گمنام سا ہے جسے دریافت کیا جا رہا ہے۔ معروف سیاحتی ویب سائٹ ”ٹرپ ایڈوائزر“ کی لسٹ کے مطابق باکو میں موجود دو سو پچیس دیکھنے لائق جگہوں میں سے مجھے جو مقامات قابل دید محسوس ہوئے ان میں شہرِ قدیم، آتش گاہ، نظامی گنجوی میوزیم، حیدر علی میوزیم، نیشنل میوزیم آف آذر بائیجان ہسٹری، شیروان شاہ محل، قالین میوزیم، فوارہ چوک، نظامی اسٹریٹ، زیارت گاہ بیبی ہیبت، جمع مسجد، تازہ پیر مسجد، منی ایچر بک میوزیم، اپ لینڈ پارک، مڈ والکینو، سمندری کنارہ (باکو بلیوارڈ) ہیں۔

یہ شہر جس کی تاریخ ایک لاکھ سال پہلے پتھر کے زمانے کی بتائی جاتی ہے مجھے شہرِ دلپذیر محسوس ہوا۔ ایک شہر نہیں بلکہ میزبان، جو آپ کے لئے اپنے بازو واکیے ہوئے ہے۔ شہر کا انفرا اسٹکچر تو ترقی یافتہ اور سیاح دوست ہے ہی لیکن وہاں کے باشندے بھی اپنی مثل آپ ہیں۔ جس وقت بھی ہم نے کسی سے معلومات یا مدد چاہی وہ مہربان ہی رہا۔ درشتگی سے دور چہرے تپاک سے ملتے اور اگر زبان دانی میں انہیں مشکل ہوتی تب بھی مسکراہٹ سے نوازنا نہ بھولتے۔ ہمدردی اور دوستی یہاں کی صفت ثانیہ محسوس ہوئی۔ ایسے عمدہ مزاج لوگ ہیں کہ سبحان اللہ کے سوا کیا کہیے۔ اور یہ سب وہ اپنی موج میں کیے جا رہے ہیں۔ صلے یا ستائش کی کوئی پرواہ انہیں شاید ہی ہو۔

تو بات ایسے ہے کہ وہ جرسی جو سردی سے بچاؤ کے لئے ہماری صف اوّل اور صف آخر تھی ایک ریسٹورینٹ میں رہ گئی۔ میں سدا کا بھلکڑ اور غائب دماغ سو یاد بھی تب آیا جب نصف بہتر نے اس کے بارے کڑی تفتیش کی۔ میرے تو طوطے کیا مینائیں بھی اڑ گئیں۔ دیار غیر میں ویسی جرسی کہاں سے آتی؟ یہ تو ایک مہربان کی عنایت تھی جو دساور سے ہم پر کی گئی تھی۔ نئی جرسی خریدنا جوئے شیر تھا لہٰذا ہم اس دن جس ٹوئر کمپنی کے گروپ میں باکو شہر کے آس پاس مڈ والکینو اور آتش گاہ وغیرہ کی سیر کر رہے تھے، کے گائیڈ سے مدد کے خواہاں ہوئے۔ یا حضرت کچھ کیجئے۔ گائیڈ جو روسی شہریت کے حامل اور باکو میں کسی یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجنیئرنگ کے طالب تھے، بولے واپس جانا تو مشکل ہے، گروپ ساتھ ہے۔ آپ ٹرپ کے اختتام پر اوبر ٹیکسی لے کر جا کے لے آئیے۔

مجھے ان کی بات بلکل نہ بھائی۔ اپنے حساب سے بول پڑا بھائی دیر ہوگئی تو وہ مکر نہ جائیں۔ اور ہم باہر کے ہیں سو ان کی گردن پر سوار ہوکر کیسے ان سے جرسی بازیاب کروا سکیں گے۔ اس معاملے میں آپ کا ساتھ ہونا لازم ہے۔ یہ سن کر اس نے عجب سے ہمیں دیکھا اور بولے آپ کی جرسی وہاں رہ گئی ہے تو کیوں نہ دیں گے؟ بھیا یقین کیجئے میری بات پر اس کے چہرے پر جو حیرت زدہ تاثرات ابھرے ہمیں تو چپ لگ گئی۔ آدمی کیا بولے جب کچھ سوچ ہی نہ پائے۔ اب ایک طرف اطمینان میسر آیا لیکن دل دہلتا بھی رہا۔ ٹرپ کے خاتمے پر اوبر پر جا کر جب ان سے پوچھا تو انہوں نے بغیر کوئی سیکنڈ لگائے جھٹ سے مسکراتے جرسی ہمارے ہاتھ میں تھمادی۔ یقین کریں یقین آنے میں مجھے تو وقت لگ گیا۔

اور یہ بھی سن لیں۔ ہماری فلائٹ شام میں تھی اور ہوٹل چیک آؤٹ ٹائیم بارہ بجے کے قریب تھا لہٰذا ہم نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور سامان ریسیپشنسٹ کے حوالے کر کے آخری بار اس شہر دلپذیر پر نگاہ ڈالنے چلے گئے۔

جب ہم سامان لینے واپس ہوٹل آئے تو یوکرینین ریسیپشنسٹ گل نارا خانم نے وہ منی ایچر پینٹنگز ہمارے حوالے کیں جو اس سفر میں خریدی گئیں ہماری سب سے پیاری چیز تھیں۔ بچت کی ساری رقم لگا کر ہم نے وہ خریدی تھیں۔ یہ منی ایچر پینٹنگز کمرے کی صفائی کرنے والی مہربان خاتون کے ہاتھ ردی کی ٹوکری سے لگی تھیں جو نہ جانے کیسے ہم سے پلاسٹک کی تھیلیاں ردی کی ٹوکری میں بھرتے چلی گئی تھیں۔ اس عنایت پر جب نصف بہتر اور میں بے اختیار اس کا جھک جھک کر شکریہ ادا کرنے لگے تو وہ اپنے نرم تاثرات کے ساتھ مسکراتی نفی میں سر ہلاتی رہیں۔ کہ یہ تو ایسی کوئی بات ہے؟ گویا یہ تو ایک معمول ہے۔ عام سا۔ جیسے کہ ہم سانس لئے جاتے ہیں۔ یہ کوئی خاص بات نہیں۔ اس کا روشن چہرہ دیکھتے میں نے اپنے اندر دیکھا، خود کو جانچا اور سر نیچے جھکا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).