الیکشن کمیشن پہلے پولنگ ایجنٹس کو بدمعاشی سے تحفظ دے


چند روز قبل الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے ایک خبر پڑھنے کو ملی کے جیکب آباد میں محکمہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد آئندہ ہونے والے انتخابات میں ڈیوٹی کرنے میں سنجیدہ نہیں جس کے باعث ملازمین کی بڑی تعداد الیکشن کمیشن کی جانب سے کرائی جانے والی ڈیوٹی ٹریننگ سے غیر حاضر رہی۔ اس سلسلے میں ہونے والی میٹنگ میں جج صاحب نے ضلعی تعلیمی افسر کو طلب کرکے ملازمین کی ہر ممکن حاضری کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کیے اس کے بعد محکمے کی جانب سے اپنے ملازمین کو حاضری کی سخت ہدایات اور بدلے میں تنخواہوں کی بندش کی دھمکی دیدی گئی۔

اس خبر کے پس پردہ جانے کیا حقائق ہوں یا تو ملازمین کی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے وقتی غفلت ہو یا کوئی اور بات، مگر اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کے سرکاری ملازمین کی ایک تعداد الیکشن میں ڈیوٹی کی نامزدگی کے نام پر بیزاریت اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچنے کی کوشش ضرور کرتی ہے۔ کچھ سفارشیں لگواکر اپنا دامن بچا جاتے ہیں اور جو نامزد نہیں ہوتے وہ خدا کا شکر ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملازمین کی اس اہم قومی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے پیچھے کاہلی یا سستی کا دخل نہیں ہوتا بلکے وہ ہمارے فرسودہ نظام سے خوفزدہ ہوتے ہیں کیونکہ جب یہ بیچارے متعدد مقامات پر اپنے کمزور کاندھوں پر اتنی بھاری ذمہ داری اٹھائے دوران پولنگ، سیاسی جماعتوں کے کارندوں بلکے نگرانوں کے درمیان گھرے ہوئے ہوں تو یقینن ان کی حالت قابل رحم ہی ہوتی ہے۔

بظاہر تو پولنگ اسٹیشنز اور ایجنٹس کو حکومت کی جانب سے سکیورٹی فراہم کی ہی جاتی ہے لیکن کئی بار دیکھا گیا ہے کے سکیورٹی پر تعینات پولیس کا عملہ، نفری میں کمی کے سبب اور کہیں سیاسی اثرو رسوخ کے ناجائز استعمال کی بناء پر ایک وسیع علاقے کی نگرانی کرنے اور سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو آپس کی ہنگامہ آرائی یا پولنگ میں مداخلت کرنے سے روکنے میں بری طرح ناکام ہوجاتا ہے۔ ایسے علاقوں میں پولنگ ایجنٹس مکمل طور پر سیاسی جماعتوں کے ورکرز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جہاں اکثروبیشتر ان کو چپ چاپ رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنے اور ان کے کام میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایات بھی دیدی جاتی ہیں۔

ایک پولنگ ایجنٹ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کے وعدے پر بتایا کے ایک بار وہ اور اس کا ساتھی شکر ادا کر ہی رہے تھے کے آج کا دن خیر خیریت سے گزر گیا اور کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی مگر پولنگ ختم ہونے سے ایک گھنٹہ قبل وہاں کی اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعت کے ورکرز آگئے اور انہیں کہہ دیا کے بس، باقی کے ووٹ اب ہم ڈالیں گے یعنی ٹھپے لگنے شروع ہوگئے۔

ایک بار ایک پولنگ ایجنٹ، بقول اس کے ساتھی کے اس بیچارے کا جرم صرف یہی تھا کے وہ ان سیاسی ورکرز کو دھاندلی کرنے سے منع بھی نہیں کررہا تھا۔ اس کی خطا صرف یہی تھی کے اس نے انہیں ان کے غلط طریقہ کار پر ٹوکا تھا کے ایک ورکر نے، اس کی پوری بات سنے بغیر اس کے منہہ پر تھپڑ رسید کردیا۔ جس پر اس نے خود ہمت کرکے ان سے یہی کہا کے یار اسے مارو نہیں اور بتعمیزی نہ کرو باقی جو کرنا ہے کرلو۔

” تم نے اس کے خلاف شکایت کیوں نہیں کی؟ ‘‘
” بھائی ہمیں اپنے گھروں میں بھی رہنا ہے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی اس پھڈے سے۔ ہم ایک معمولی سے سرکاری ملازم ہیں ہماری اتنی اوقات نہیں کے سیاسی جماعتوں سے ٹکر لیں ہم چاہتے تو اس وقت ان کو بھی لینے کے دینے پڑجاتے لیکن ہمارا قانون ہمیں چند دن سپورٹ کرپاتا اس کے بعد کیا ہوتا، کیا یہ لوگ بخش دیتے ہمیں؟ ہمارا پتا بھی نہیں چلتا کہاں چلے گئے، پیچھے ہمارے گھر والے ہی روتے رہتے۔ گورنمنٹ تو خود برائے نام سکیورٹی دیتی ہے ہمیں جب ہی تویہ لوگ غنڈہ گردی کرتے ہیں اور کبھی اتفاق سے ڈیوٹی اپنے ہی علاقے میں لگ جائے تو پھر محلے داری بھی دیکھنی پڑتی ہے الیکشن تو ایک دن میں ختم ہوجائے گا لیکن ہمیں تو وہیں جینا مرنا ہے نا۔ ویسے بھی یہ سب دھاندلی تو ہر جگہ ہی ہورہی ہوتی ہے، بہت سی جگہوں پر ٹھپے لگائے جاتے ہیں سندھ میں بھی پنجاب میں بھی، اگر ہمارے بوتھ پر بھی لگ گئے تو کیا ہوا اور بھائی تمھارا بھی اس چیز پر آواز اٹھانے سے کیا ہوگا، سب کو پتا ہے کیا ہوتا ہے۔ ‘‘

ایک اور صاحب نے بھی اپنے تجربات بیان کیے۔
” ویسے ایسی بھی بات نہیں کے سارے ہی سیاسی کارکنان جنگلی ہوں اگر آپ ان سے تعاون کریں گے تو وہ آپ کی بہت عز ت بھی کرتے ہیں۔ سائیں سگریٹ یا پان، بوتل پیو گے، کھانے کو کچھ لادیں آپ کے لیے؟ ہر جگہ نہیں لیکن کہیں کہیں یہ دھاندلی ہوتی ضرور ہے اور ہر جگہ کی پولیس بھی مجبور نہیں ہوتی ہم نے پولیس کو سیاسی ورکرز کو پو لنگ میں دخل اندازی کرنے کے جرم میں گھسیٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے لیکن یہ سب وہاں ہوتا ہے جو پولنگ اسٹیشن حساس قرار دے دیے جائیں، وہاں میڈیا والے بھی ہر وقت موجود ہوتے ہیں یا جہاں رینجرز والوں کے بوٹ دکھائی دے رہے ہوں وہاں کسی کی جرت نہیں ہوتی کے کوئی گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرئے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں لاتوں سے ہی مانتے ہیں۔ ‘‘

خیر جزوی طور پر اس طرح کے متعدد واقعات کی خبریں ہمارے الیکشن والے روز آتی ہی رہتی ہیں بس وہیں گڑبڑ نہیں ہوتی جہاں کے پولنگ اسٹیشنز اپنے علاقہ نمائندوں کی بدولت خصوصی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں اور دلچسپ مقابلے کے پیش نظر وہاں خاص نظر رکھتے ہوئے فل ٹائم میڈیا کوریج جاری رہتی ہے ساتھ ہی سکیورٹی کا معیار بھی نہایت سخت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں کی نظریاتی سیاسی جماعتیں عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ان منفی ہتھکنڈوں کے استعمال کو اہمیت نہیں دیتی اور جہاں کے خود مختار ووٹرز بھی اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرنے کا حق رکھتے ہوں وہاں بھرپور طریقے سے انتخابی عمل سر انجام پاتا ہے اور اکثر اپ سیٹس بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

لیکن بہت سے علاقوں میں جو ادھر ادھر سینکڑوں چھوٹے بڑے پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جاتے ہیں وہاں جس کو دھاندلی کا موقع مل جائے یا جو مکمل طور پر علاقے کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت ہو، اس کا غلبہ رہتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹرز کا ووٹ استعمال کرتی ہیں، ووٹرز کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے اور ووٹ کاسٹ کرنے والا اتنی ہمت ہی نہیں کرپاتا کے اپنے ووٹ کی اہمیت اور طاقت کا صحیح استعمال کرپائے کیونکہ اکژ تو بیچاروں کا ووٹ پہلے ہی کاسٹ کیا جاچکا ہوتا ہے یا اپنی مرضی سے تھوک کے حساب سے ٹھپے لگا کر نتائج کو حسب منشاء کرلیا جاتا ہے۔

دوسری طرف جو بیچارہ اقلیت میں مدمقابل نمائندہ ہوتا ہے اس کے پاس سوائے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے رونے دھونے یا بے بسی سے اپنی ہار پر آنسو بہانے کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کے بہت سے علاقوں میں لوگ چاہ کر بھی کوئی تبدیلی نہیں لاپاتے کیونکہ انتخابات میں ہارنے کے بعد ہارنے والوں کو جو روتے دھوتے دیکھا جاتا ہے اس میں ہر جگہ تو نہیں لیکن بہت ساری جگاہوں پر واقعی دھاندلی کی جاتی ہے جس کا ثبوت ماضی میں ہمیں جعلی ووٹنگ کی بدولت مقررہ حد سے زیادہ ٹرن آؤٹ کی صورت میں، تو کہیں باوجود وقت مقررہ کے پولنگ شروع نہ ہونے کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے۔

بھلے الیکشن کمیشن یا اعتراض کرنے والے یہ توجیہ پیش کریں کے ایسی منظم دھاندلی ہر جگہ نہیں ہو سکتی لیکن سوال یہ ہے کے کہیں کہیں بھی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ عرصے سے کچھ علاقوں پر قابض سیاسی جماعتوں کا یا ان علاقوں کے با اثر نمائندوں کا الیکشن میں یوں دھاندلی کرنا الیکشن اور ہمارے نظام کی شفافیت پر سوال کھڑے کرتاہے تو ساتھ ہی الیکشن کمیشن کا اتنے بڑے نظام کو سنھالنے سے قاصر ہونے کی صداقت کو بھی عیاں کردیتا ہے جس کی مثال ہم 2013 کے الیکشن میں بخوبی دیکھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی ووٹ ڈالنے کے بجائے گھر بیٹھے تماشہ دیکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

اسی لیے الیکشن جیسے قومی فریضے کا احترام کرتے ہوئے، وطن عزیز کے وسیع تر مفاد اور قوم کو بہتر مستقبل کی فراہمی کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کے الیکشن کمیشن الیکشن سے قبل آئندہ ہونے والے انتخابات کی تیاریوں میں سب سے پہلے ان اقدامات پر غور کرے جن کی مدد سے ملک کے ہر چھوٹے بڑے پولنگ اسٹیشن پر صاف اور شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن بنایا جاسکے اور ایسا سازگار ماحول پیدا کیا جائے جہاں پولنگ ایجنٹس بنا کسی سیاسی مداخلت اور دباؤ کے اپنی قومی ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں اور ووٹ کا تقدس یوں پامال نہ کیا جاسکے۔

اس سلسلے میں ہر چھوٹے بڑے پولنگ اسٹیشن کو حساس قرار دے کر وہاں بائیومیٹرک سسٹم کے تحت، رینجرز کی ڈیوٹی میں انتخابی عمل کرایا جائے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر پولنگ سی سی ٹی وی کیمراز، میڈیا اور صحافی حضرات کی نگرانی کے بغیر نہ ہو۔ کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر اندر یا باہر، سیاسی ورکرز کے بلاجواز کھڑے رہنے یا ووٹرز کو ہراساں کرنے پر سخت کارروائی کی جائے۔ ہوسکے تو الیکشن جیسے بڑے کام کو، جس پر ملک کے آئندہ آنے والے پانچ سالوں کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے، ایک ہی دن کی دھکم پیل میں نمٹانے کے بجائے مرحلہ وار طریقے سے سرانجام دے دیا جائے تاکے الیکشن کمیشن زیادہ بہتر طور پر ہر صوبے کے نظام پر نظر رکھ سکے۔

ہم حکومت اور الیکشن کمیشن سے ایسے آزاد ماحول میں منصفانہ الیکشن کروانے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں اس ملک کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھنے والے عوام، کسی بھی سیاسی جماعت کے دباؤ میں آئے بغیر آزادی سے اپنے ووٹ کا جائز استعمال کرکے جمہوریت کا بول بالا کر سکیں۔ پھر فیئر اینڈ فیری الیکشن کے انعقاد سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کے ہارنے والا اپنی شکست پر دھاندلی دھاندلی کا راگ الاپنے کے بجائے عوامی فیصلے کے آگے پسپا ہوکر بیٹھ جائے گا اور عوام کو ورغلانے کے ساتھ جیتنے والے کے کاموں میں خلل پیداکرنے کا باعث بھی نہیں بن سکے گا۔ یاد رکھیے صرف جرنیل ہی جمہوریت پر شب خون نہیں مارتے، انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے حکومت میں آنے والے خود بھی جمہوریت کے اتنے بڑے ہی دشمن ہوتے ہیں جو اپنی کرپشن کا آغاز الیکشن والے روز سے ہی کر چکے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).