پابندیوں  کے باوجود حقائق چھپانا ممکن نہیں


وطن عزیز میں اس حقیقت سے آنکھیں مسلسل چرائی جا رہی ہیں کہ اگر کسی ادارے پر ہر مکتبۂ فکر کی طرف سے تنقید ہو رہی ہے اور اسے کوئی ڈھکے چھپے الفاظ میں مطعون کر رہا ہے اور کوئی اسے ببانگ دہل مقررہ آئینی حدود سے تجاوز کرنے والا جارح قرار دے رہا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس ادارے سے کوئی سنگین غلطی ضرور سرزد ہوئی ہے اور یا اب بھی وہ ان غلطیوں کا مسلسل اعادہ کر رہا ہے۔ اس حقیقت کو اگر وسیع تر مفہوم میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمارے قریبی پڑوسی ممالک بھی ہم سے ہر وقت ناراض اور کھچے کھچے نظر آتے ہیں۔ اگر اس وسیع تر مفہوم کو مزید عالمی سطح پر پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس سے ہم اپنی خدمات کا عوضانہ ڈالروں میں وصول کرتے ہیں، وہ بھی ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ ہم  دہشت گردی کی پشت پناہی کرتے ہیں اور دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ اس لئے وہ ہمیں کبھی نرمی سے سمجھانے کوشش کرتا ہے اور کبھی سختی سے یہ حقیقت باور کراتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ نہ صرف ان کے مفادات کے خلاف ہیں بلکہ اس سے خود ہماری اپنی قومی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے حد سے زیادہ محب الوطن ادارے خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور ایسے بے سروپا الزامات اور گیدڑ بھبھکیوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے لیکن نتیجے میں جس مذہبی شدت پسندی، دہشت گردی اور لاقانونیت کا ہم سامنا کر رہے ہیں، ان سے نجات کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔

اس وقت ملک میں ایک حبس زدہ گھٹن پھیلی ہوئی ہے۔ کوئی صحافی، بلاگر یا سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اگر بعض حقائق لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لکھے گئے خیالات کو ریاست کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اور اسے غدار جیسے سخت الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر باقاعدہ دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات شائع یا نشر  نہ کرے جس سے ملک کے طاقت ور ادارے کے مخصوص بیانیے پر ضرب پڑتی ہو یا اس سے ان کی بد اعتدالیوں کا پول کھلتا ہو۔ لیکن اس گھٹن آلود ماحول میں کچھ صحافی، اینکر پرسنز اور بلاگرز وہ کچھ لکھتے ہیں جو ان کے ضمیر کی آواز ہے اور جن سے واقعتاً قوم اور ملک کا مستقل اور دیرپا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ تاہم ان حق پرست اور سچے محب الوطن لکھنے والوں کو مختلف حربوں کے ذریعے خاموش کرانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور صاحب کی حالیہ پریس کانفرنس میں بعض صحافیوں پر الزامات، پختون تحفظ موومنٹ کی بیرون ملک پشت پناہی اور قومی سلامتی کے حوالے سے ان کے اپنے بیان کردہ کچھ حقائق کے حوالے سے مین سٹریم میڈیا میں ان کے حق میں تبصرے ہو رہے ہیں جب کہ ان بیان کردہ حقائق پر بعض صحافی سوالات بھی اٹھا رہے ہیں جن کا جواب انھیں کبھی نہیں مل سکے گا بلکہ وہ  اگر اپنے اٹھائے گئے سوالات پر ڈٹے رہیں اور ان کے حق میں دلائل پیش کرتے رہیں تو حسبِ روایت ملک کے وسیع تر مفاد میں ان کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا  فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ملک کے طاقت ور ادارے کے لئے سب سے زیادہ تکلیف اور مصیبت کی وجہ ’پختون تحفظ موومنٹ‘ ہے جس کے پلیٹ فارم سے اس پر براہِ راست ایسے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں جن میں اگر تھوڑی سی سچائی بھی ہے تو اس سے عوام میں اس ادارے کی ساکھ پر بہت منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ فوج کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس سے فرق پڑ رہا ہے۔ پختون تحفظ موومنٹ میں پختونوں کے علاوہ بلوچی، سندھی اور بعض پنجابی بھی قدم سے قدم ملا رہے ہیں۔ کیوں کہ غائب کئے جانے والے افراد کا مسئلہ کسی ایک قومیت یا علاقے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس مسئلے نے قومی سطح پر سخت ناراضی اور مشتعل ردِ عمل کو جنم دیا ہے۔ پریس کانفرنس میں یہ بات بتائی گئی کہ پختون تحفظ موومنٹ کے لئے ایک ہی دن میں سوشل میڈیا پر پانچ ہزار جعلی اکاؤنٹ بنائے گئے اور تنظیم کے لئے ٹوپیاں باہر سے بھیجی گئیں۔ معلوم نہیں ایک ہی دن میں پانچ ہزار جعلی اکاؤنٹس بنانے کا اندازہ کیسے لگایا گیا اور مخصوص ٹوپیاں ریاست کی سلامتی کے لئے کیسے خطرات کا باعث بن سکتی ہیں؟ مقتدر ادارہ بہتر سمجھتا ہوگا۔

سوات اور وزیرستان میں جس طرح فوجی آپریشن کئے گئے اور ان میں عام لوگوں کو جس طرح بے دردی سے انسانی المیوں سے دوچار کردیا گیا، اس کے ردِ عمل میں یہی کچھ ہونا تھا جو ہو رہا ہے۔ جب ہزاروں لاکھوں لوگ احتجاج کرتے ہیں اور جلسوں میں اپنے مسائل اور مشکلات کچھ تلخ لہجے میں بیان کرتے ہیں تو ان میں لازماً حقیقت ہوگی۔ اس حقیقت کو جانچنے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے جب پرامن جلسوں اور احتجاجوں کے ردِ عمل میں محض زبانی طور پرتسلی آمیز وعدوں سے کام لیا جاتا ہو اور لوگوں کے بیان کردہ مسائل اور مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہو تو متاثرہ لوگوں میں نہ صرف غم و غصہ بڑھے گا بلکہ ان کے ساتھ مزید لوگ بھی شامل ہوتے چلے جائیں گے اور یوں احتجاجی کاروان روز بہ روز پر ہجوم ہوتا چلا جائے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی فرمایا کہ انھیں آرمی چیف صاحب کی طرف سے سختی سے ہدایات دی گئی ہیں کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت استعمال نہ کیا جائے لیکن وانا میں امن کمیٹی (لشکر) نے’پختون تحفظ موومنٹ‘ کے رہنماؤں اور حامیوں پر جس طرح حملہ کیا، اس سے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ایک باقاعدہ منظم اور مسلح فوج کی موجودگی میں امن کمیٹی (لشکر) کیا معنی رکھتی ہے۔ یہ تو پختون کو پختون کے ساتھ لڑانے کی دانستہ کوشش ہے جس سے خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ پختون تحفظ موومنٹ کی پشت پر اگر کوئی غیر ملکی ایجنڈا کارفرما ہے تو اس کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے، امن کمیٹی یا لشکر کے استعمال سے مزید پیچیدہ مسائل سامنے آئیں گے۔

پختون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کے حوالے سے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ کہ چکے ہیں کہ ’منظور پشتین ہمارا اپنا بچہ ہے، اس نے آرمی پبلک سکول سے تعلیم حاصل کی ہے لیکن اگر وہ غصے میں بھی ہے تو ہم انہیں سنیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے بعض مطالبات جائز ہیں اور ان کے تمام جائز مطالبات آئین اور قانون کی روشنی میں حل کیے جا رہے ہیں‘۔ تو جائز مطالبات پر صرف غور کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ان جائز اور آئینی مطالبات کے لئے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پختون تحفظ موومنٹ کے اسلام آباد دھرنے میں سابق وزیر اعظم ایک تحریری معاہدے کے باوجود عملی قدم نہیں اٹھاسکے جس کی وجہ سے معاملات روز افزوں بگڑتے چلے گئے۔ جس ملک میں ایک منتخب وزیراعظم بھی اکثر معاملوں میں بے دست و پا ہو، وہاں بد اعتمادی اور افراتفری کی فضا کی موجودگی کوئی انہونی بات نہیں۔

’پختون تحفظ موومنٹ‘ کو جس طریقے سیدھا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سے ملک وقوم کو بہت بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اگر ان کے مطالبات حقیقت پر مبنی نہ ہوتے تو مین سٹریم میڈیا میں ان کا بلیک آؤٹ نہیں کیا جاتا۔ ان کے مؤقف کو نشر اور شائع کرنے کا موقع دیا جاتا لیکن ایسا اس لئے ممکن نہیں ہے کہ اس طرح بعض ریاستی اداروں کی خود ساختہ حب الوطنی پر ضرب پڑنے کا امکان ہے اور پختون علاقوں میں جو غیرمعمولی بے اعتدالیاں کی گئی ہیں، ان کے طشت ازبام ہونے کا خطرہ ہے۔

ملک کی سلامتی کا تقاضا ہے کہ اپنی غلطیوں کا ادراک کیا جائے، ان کے ازالے کی قابل قبول صورت نکالی جائے اور آئندہ کے لئے ملک کی سلامتی کے لئے خود ساختہ بنائی گئی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔ ریاست کا فرض اپنے عوام کا ہر حال میں تحفظ ہوتا ہے، پراکسی جنگوں کے لئے ان کو قربانی کا بکرا بنانا نہیں۔ جب تک ہمارے سکیورٹی ادارے عوام کے تحفظ اور ان کی عزت اور وقار کو مقدم نہیں سمجھیں گے، اس وقت تک وہ عوام کے دلوں میں اپنے لئے عزت اور احترام کے جذبات پیدا نہیں کرسکتے۔ وطن عزیز کے کسی بھی گوشہ میں عوام کے شہری حقوق معطل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام اور ریاست کے مابین نفرت اور بے زاری کی نہ پاٹنے والی خلیج پیدا کرنا۔ وہ وقت گزر چکا ہے جب عوام کو بلڈی سویلینز سمجھا جاتا تھا اور ان سے حقائق چھپا کر ان کے بنیادی انسانی اور شہری حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا۔ اب تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے حقائق چھپانا یا ان پر پابندی لگانا ممکن نہیں رہا، اس لئے یہ بدیہی حقیقت جتنی جلدی سمجھ لی جائے، اتنا ہی ریاست اور طاقت ور ریاستی ادارے کا بھلا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).