کالاباغ ڈیم پلان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟


ملکی منظر نامے پر بظاہر تو آنے والے عام  انتخابات ہی سب سے بڑا مسئلہ نظر آ ر ہے ہیں اور ملک میں عام انتخابات کے اجرا سے پہلے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی گٹھ جوڑ کو بھی اہم سجمھا جاتا رہا ہے۔   عموماً عام انتخابات سے پہلے ایک دوسرے کی حریف جماعتیں وائیٹ پیپر جاری کرتی ہیں جس میں سر فہرست کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ اور کشمیر کی آزادی اور لوگوں کی خوشحالی کا ذکر ملتا ہے۔ مگر اس دفعہ آنے والے انتخابات سے پہلے ایشوز تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ ان آنے والے انتخابات میں صادق اور امین کے علاوہ پنجاب کا سیاسی دنگل، عمران خان صاحب کے حوالے سے ریحام خان کی کتاب اور کالاباغ ڈیم اہم موضوعات رہیں گے۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے سیاسی مستقبل  کے حوالے سے تبصرے اور تجزیے کافی عرصے سے جاری ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے اب شریف خاندان یا پاکستان مسلم  لیگ ن سے کوئی بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتا مگر حالات اور واقعات کو دیکھ کر   پنجاب کا سیاسی دنگل بھی میاں صاحب کے ہاتھوں سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔

آج کل ریحام خان  کی کتاب کا خوب چرچا ہے۔ ہہت سے دانشوروں کو کتاب سے شباب اور کباب کی خوشبو آ رہی ہے تو کوئی یہ سوچ کے پریشان ہے کہ ریحام خان نے یہ کاما سترا، کتاب اپنے 14 سالہ بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر کیسے ایڈٹ کی ہوگی، تو کوئی جمائمہ خان کے کتاب کے حوالے سے بیان اور ان کے بیٹے سلمان خان کی بنی گالا میں آپ بیتی کے وجہ سے حیران و پریشان نظر آ رہا ہے۔ کتاب کی مقبولیت جس طرح حمزہ علی عباسی، سلمان احمد اور دیگر مہروں نے کی  شاید ہی اور کوئی کر سکتا۔ ملک کے صحافی، تجزیہ نگار، دانشور اور عوام  میاں صاحب اور ملکی سیاست سے کافی عرصے سے بور ہو چکے تھے ایسے میں ریحام خان کی طلسماتی کتاب کا مزہ کانوں میں رس گھولنے لگا۔

ابھی پورا مزا  لیا جا ہی رہا تھا کہ اچانک سے ملک میں پانی کی شدید قلت سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئی۔ اور یہ تو بیرسٹر ظفراللہ کو بھی نہیں پتہ تھا کہ ان کی ڈیموں کے حوالے سے،   سالوں پرانے کیس کی بھی شنوائی ہوگی اور 2016، پاکستان کاونسل آف واٹر ریسورسز کی رپورٹ بھی منظر نامے پر آ جائی گی جیسا کہ وہ پانی کے کیمیائی فارمولے کی دریافت کی وجہ سے نوبل پرائز کے لیے نامزد ہوئی ہو اور  یک دم  کئی آوازیں سننے میں ملتی ہیں  کہ 2025  میں اگر کالا باغ ڈیم نہیں بنا تو بس پھر پاکستانی قوم پیاسی مر جائے گی۔ سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ اور الیکڑنک میڈیا پر اب کالا باغ ڈیم بننتا نظر آ رہا ہے۔

جنرل مشرف کے دور کے وظیفہ خور اینکرز، صحافی اور دانشور  چیف جسٹس آف پاکستان کو اپیل کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب ان کو روزانہ اسکول کے بچوں کے ہزاروں خطوط موٖصول ہو رہے ہیں جس میں  بچے کہہ رہے ہیں کہ وہ اور پوری پاکستانی قوم کالاباغ ڈیم بنانے کے لیے چندہ دینے کے لیے تیار ہیں اور کسی بھی بیرونی قرضے کی  ضرورت نہیں پڑے گی بس  حضور اعلیٰ  آپ اس پر عملدرآمد کروائیں۔ یہ دانشور حضرات  چیف جسٹس صاحب کو  یہ بھی یاد دلاتے نظر آ رہے ہیں کہ ان اسکول کے بچوں نے ہی شوکت خانم ہسپتال کے خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کیا تھا۔   یاد رہے کہ کالاباغ ڈیم کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہےجس پر  پنجاب کے علاوہ کوئی بھی صوبہ اس کی تعمیر کے لیے راضی نہیں۔

جب ملک  آنے والے عام انتخابات کے طرف جا رہا ہو  اور ایسے میں ایک ایسے معاملے کو اٹھایا جائے  جس پر لوگ مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے ہوں تو پھر  اس صورتحال سے کیا مطلب لیا جائے؟ کیا کالاباغ ڈیم کا ایشو ریحام خان کی کتاب سے توجہ ہٹانے کے لیے منظر نامے پر نمودار ہوا ہے؟ یا پھر کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے؟ ایسا نہ ہو کہ پنجاب کے سیاسی دنگل کو جیتنے کے لیے اس نازک معاملے کو اٹھایا گیا ہو؟ پنجاب کے حالات و واقعات اور سیاسی رسہ کشی کو دیکھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن ماضی کی سیاست کو خیر باد کہہ چکے اور خود میاں نواز شریف  اپنی پنجاب نواز پالیسیوں اور  ماضی میں  چھوٹے صوبوں کے خلاف کی ہوئی سیاسی غلطیوں پر پشیمان نظر آتے ہیں کہ اب وہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے میدان میں اترے ہیں اور وہ کبھی بھی کالا باغ ڈیم کے حق مین بیان نہیں دیں گے اور اس تمام تر صورتحال کا فائدہ بھی لیا جا سکتا ہے تاکہ ماضی کی لسانیت کو بنیاد بنا کر پنجاب اور دیگر صوبوں کو عوام میں لسانیت کے زہر کو ابھار کر آسانی سے کالاباغ کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو پنجاب سے کلین بولڈ کیا جائے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے کالاباغ ڈیم پر سیاست کر کے اس کو اتنا متنازعہ بنا دیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص اس وقت کالا باغ ڈیم کے حمایت میں بیان دے گا چاہیے وہ سندھی ہو یا پختون یا پھر بلوچ اس کو  اپنے صوبوں کے لوگ میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دینے میں دیر نہیں کریں گے۔

پانی کی قلت اور کالا باغ ڈیم کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا از خوڈ نوٹس کی شروعات تو کراچی سے ہو رہی ہے اور چاروں صوبوں کے دارالخلافہ میں اس حوالے سے کیس کے شنوائی ہوگی اور آنے والا وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے یا نہیں؟

 مگر یاد رہے جنرل مشرف نے بھی مکا لہراتے ہوتے کالا باغ ڈیم کو بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا اور ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل ر پرویز مشرف اپنا ادھور خواب پورا کرنے کے لیے پاکستان آنے کی تیاریوں میں ہیں کہ وہ وطن آ کر کالا باغ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔

  کالا باغ ڈیم کا ایشو جیسے تیسے بھی شروع ہوا مگر اس کے تمام فوائد تبدیلی اور اس کے طلبگار عمران خان  کے حق میں جا رہے ہیں وہ ریحام خان کی کتاب سے توجہ ہٹانے کی بات ہو یا پھر پنجاب کے سیاسی دنگل کو لسانیت کا رنگ دے کر جیتنے کی بات ہو۔ کالا باغ بنے گا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر  اس معاملے سے لسانیت کے بنیاد پر صوبوں اور عوام میں نفرتوں میں اضافہ ضرور ہوگا جسں سے یقیناً اکائیاں کمزور ہوں گی اور کمزور بنیادوں پر محلات کبھی بھی تعمیر نہیں ہو سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).