طیبہ کیس سے پاکستان میں کم سن گھریلو ملازماؤں پر تشدد کا مسئلہ اجاگر ہوا


طیبہ کیس

طیبہ پر مبینہ طور پر تشدد کرنے والی ملزمہ اور ان کے شوہر

سنہ 2016 میں جب طیبہ کے بری طرح زخمی چہرے کی تصاویر پہلی مرتبہ ٹوئٹر پر شیئر کی گئیں تو کافی واویلا ہوا۔ وہ ایک جج کے گھر میں کم سن ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔

طیبہ اب اسلام آباد کے ایک فلاحی ادارے میں رہتی ہے۔ وہ سکول جاتی ہے اور اپنی نئی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کے بارے میں بات کرنا اب بھی اس کے لیے آسان نہیں۔ فلاحی ادارے کے نگرانوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں جب طیبہ یہاں آئی تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ اب اسے کام نہیں کرنا پڑے گا۔

عظمت کہتی ہیں کہ ’وہ مجھے بھی ویسا ہی سمجھتی تھی کہ میں اس سے کام کرواؤں گی اور ماروں گی۔ ایک دو ماہ بعد آخر کار اسے یقین آگیا کہ اسے اب صفائی نہیں کرنی نہ برتن دھونے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی مارے گا۔‘

اس بارے میں مزید پڑھیئے

طیبہ تشدد کیس میں کب کیا ہوا؟

طیبہ تشدد کیس میں سابق جج اور اہلیہ کو ایک برس قید

طیبہ کو ملازمت پہ رکھنے والے جوڑے کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی تاہم اپنی نگران کے ساتھ بیٹھی طیبہ نے بتایا کہ اس کی مالکن نے اسے محض ایک جھاڑو گم ہو جانے پر مارا۔ ’انھوں نے میرے ہاتھ بھی جلائے۔‘ ایک سال گذرنے کے باوجود اس کے ہاتھوں پر اس کے نشان موجود تھے۔

میں نے پوچھا کے اس کے والدین نے کبھی بتایا کہ اسے سکول جانے کے بجائے کام کیوں کرنا پڑا تو طیبہ کا کہنا تھا ’میری ماں نے مجھے بتایا تھا کہ میرے خاندان پر قرض تھا۔‘

خبردار: نیچے دکھائی جانے والی تصویر آپ کو ناگوار گذر سکتی ہے

طیبہ اسلام آباد سے چار گھنٹوں کی مسافت پر واقع شہر فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔

اس کے والد ایک مزدور ہیں اور جب ایک حادثے میں ان کی ایک انگلی کٹ گئی تو انھوں نے طیبہ کو کام پر لگا دیا۔

’میں کام نہیں کر سکتا تھا اور میری بیوی کا ایک آپریشن ہونا تھا۔ ہمیں پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا تو اس نے یہ خاندان بتایا۔‘

طیبہ کے والد اعظم کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا گا تھا کہ طیبہ کو صرف اس جوڑے کے بچوں کے ساتھ کھیلنا ہوگا۔

کم سن ملازمائیں

درحقیقت ان کم سن ملازماؤں کو عام طور پر کھانا پکانے، صفائی کرنے اور ننھے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے رکھا جاتا ہے۔

پاکستان کے زیادہ تر تجارتی علاقوں میں قانونی طور پر بچوں کو ملازم رکھنے کی اجازت نہیں تاہم بڑے پیمانے پر موجود ان گھریلو ملازمین کو روکنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ ملک میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق دسیوں ہزار بچے گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک کاروبار ہے۔ ارشاد بی بی اسلام آباد کے نواح میں ایک روزگار ایجنسی چلاتی ہے۔

انھوں نے بتایا ’میں صرف 12 سال سے بڑے بچوں کے لیے کام تلاش کرتی ہوں دس سال کم عمر کے لیے نہیں۔‘

ان کے دفتر میں بچوں کے ہمراہ آئے والدین کی ایک لمبی قطار موجود تھی جو کام کی تلاش میں آئے تھے۔ ایک والد جس کے ساتھ موجود اس کے بیٹا اور بیٹی پچھلے کام والے کے گھر سے بھاگ گئے تھے لیکن وہ انہیں پھر لے آیا تھا کیونکہ اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔

ارشاد بی بی کا کہنا تھا ’کوئی بھی والدین اپنے کم عمر بچوں سے کام نہیں کروانا چاہتے۔ وہ پریشان ہوتے ہیں۔ یہاں ایک والد روتا ہوا آیا کہ ہمیں گھر سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ ہمارے پاس ادا کرنے کے لیے 5000 روپے نہیں تھے اس لیے میری بیٹی کو کوئی کام دلا دو۔‘

ارشاد بی بی کا کہنا ہے کہ انھوں نے جن بچوں کو کام دلایا ان میں سے کسی پر تشدد نہیں کیا گیا لیکن استحصال کی یہ کہانیاں عام ہیں اور شاید ہی کبھی اس کے لیے کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہو۔

طیبہ

ماہین ظفر اور کے شوہر جج راجہ خرم علی کو ایک زخمی بچی سے صرف نظر کرنے پر ایک ایک سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے تاہم انہیں طیبہ پر تشدد سمیت دیگر تمام الزامات سے بری کر دیا گیا

مقدمہ ختم کروانے کی کوشش

پاکستان میں زیادہ تر مقدمے متاثرہ افراد یا ان کے والدین کی جانب سے دائر کیے جاتے ہیں ناکہ ریاست کی طرف سے۔ یعنی زیادہ تر معاملات میں ان کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ملزمان کو ’اللہ کے نام پر معاف کردیں۔‘ تاہم وکلا کا کہنا ہے کہ انہیں اس کا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔

طیبہ کا معاملہ عدالت میں گیا۔ تشدد کی ملزمہ ماہین ظفر اور کے شوہر جج راجہ خرم علی پر کم عمر بچی کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کا الزام تھا۔

طیبہ کے والد نے اپنے وکیل کے ذریعے اس مقدمے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر مقدمے چلانے کا حکم دیا۔

طیبہ نے حکام کو بتایا کہ اسے مارا گیا تھا تاہم اس کے والد کا اصرار تھا کے ملزم جوڑا قصور وار نہیں ہے۔

’اس نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی ناکہ اسے کسی نہ مارا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اسے ڈرا کر جوڑے کے خلاف الزام دلوایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں اتنا یقین کیسے ہے کہ جج اور اس کی بیوی نے طیبہ کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی۔

’ان کے اپنے چھوٹے بچے ہیں جب آپ کے اپنے بچے ہوں تو آپ کسی دوسرے کے بچے کے ساتھ بدسلوکی نہیں کر سکتے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ انہیں مقدمہ ختم کرنے کے لیے رقم نہیں دی گئی تھی۔

’انھوں نے ہم پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ نہ انھوں نے ہمیں پیسوں کی پیش کش کی اور نہ دھمکیاں دیں۔‘

جب طیبہ کو عدالت میں یش کیا گیا تو اس نے اپنا موقف دہرایا کہ اسے مارا گیا تھا۔

تاہم جرح کے دوران طیبہ اپنے بیان سے پھر گئی اور دعویٰ واپس لے لیا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ طیبہ نے وکیل صفائی کے ہر سوال کا جواب صرف ’جی ہاں‘ میں دیا۔ عدالت تک ساتھ آنے والی طیبہ کی ایک نگراں کا کہنا تھا کہ ملزمان کو دیکھتے ہی خوف سے طیبہ کے ہاتھ سرد پڑ گئے تھے۔

ملک بھر میں قانون سازی کی ضرورت

طیبہ کے مقدمے کو میڈیا میں کافی توجہ ملی۔ بچوں کے حقوق کی کارکن قدسیہ محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تشہیر کی وجہ سے بچوں کو گھریلو ملازم کے طور پر رکھے جانے کے معاملے میں قانونی سقم دور کرنے میں مدد ملی ہے۔ تاہم نیا قانون صرف دارالحکومت میں ہی قابلِ عمل ہے جبکہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو قانون کا نفاذ ایک بڑا چیلینج ہے۔

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک غریب گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کو ملازمت کے لیے بھیجنے کے لیے تیار رہیں گے امیر گھرانے انہیں ملازم رکھتے رہیں گے اور یہ مسئلہ جاری رہے گا۔

ارشاد بی بی اور ان کی ایک تیز تیز بات کرنے والی ایجنٹ سدرہ کم سن کام والی لڑکیوں کی تلاش کے لیے ہمیں ایک گاؤں میں لے جانے پر راضی ہو گئیں۔

ان کے فون مسلسل بج رہے تپے جو بظاہر ان لوگوں کے تھے جنہیں کم عمر ملازماؤں کی ضرورت تھی۔

کچے راستے پر چلتے ہوئے میں نے سدرہ سے پوچھا کہ کیا کبھی اس نے والدین کو قائل کیا کہ ان کے بچے محفوظ رہیں گے؟

’ہاں، مجھے یہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو بھیجیں ہم ان کا خیال رکھیں گے۔‘

وہ مجھے ایسے خاندان کے پاس لے گئیں جو اپنی 10 سالہ بیٹی کو 150 میل دور اسلام آباد میں کام کے لیے بھیجنا چاہتے تھے۔‘

اس کی ماں کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی بیٹی کو بتایا دیا ہے اور وہ اس کے لیے راضی ہے۔ دس سالہ رابعہ نے شرماتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ اگرچہ اس نے پہلے کبھی کام نہیں کیا تھا تاہم اس نے بتایا کہ اپنے گھر میں برتن دھو لیتی ہے اور بکریوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔

میں نے پوچھا وہ والدین سے دور رہنے پر خوفزدہ نہیں تو اس نے سر ہلا دیا کہ ’نہیں‘۔

اس کی ماں کا کہنا تھا ’ہم غریب لوگ ہیں ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘

انھوں نے خود بھی بچپن میں مقامی زمیںدار کے گھر پر کام کیا تھا۔

’شروع کے دنوں میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کہاں آ گئے ہیں لیکن پھر آپ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔‘

پاکستان

طیبہ کیس کی تشہیر کی وجہ سے بچوں کو گھریلو ملازم کے طور پر رکھے جانے کے معاملے میں قانونی سقم دور کرنے میں مدد ملی ہے

بہتر مستقبل کا لالچ

چند ہفتوں بعد جب جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف طیبہ سے بدسلوکی کا مقدمہ ختم ہونے کو تھا مجھے رات گئے طیبہ کے والد اعظم کا فون آیا۔

’میں آپ کو سچ بتانا چاہتا ہوں۔ کیا آپ دوبارہ میرے گاؤں آ سکتے ہیں؟‘

سچ یہ تھا کہ طیبہ نے اسے بتایا تھا کہ اسے مارا گیا ہے۔

’اس نے بتایا تھا کہ جج کی بیوی نے استری سے اس کا ہاتھ جلایا اور اسے سونے کے لیے بستر تک نہیں دیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے وکیل نے ان کو معاوضہ دلوانے کا بندوبست کیا تھا۔ اور اسے مقدمہ واپس لینے کے لیے قائل کیا۔

اس نے کہا تھا ’یہ رشوت نہیں ہے، یہ ہمدردی کے طور پر ہے۔ تمہارے بچوں کے پاس گھر نہیں ہے ہم تمہیں گھر اور گاڑی دلائیں گے۔ ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘

’اگر میں ان کے خلاف نہ بولا تو جو میں چاہوں گا وہ مجھے دیں گے۔‘

میں نے طیبہ کے والد سے پوچھا تو اب وہ یہ سب کیوں بتا رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جھوٹ بول بول کر تنگ آ گئے ہیں اور اپنی بیٹی کی حوالگی چاہتے ہیں۔ لیکن انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ سب ان کے خاندان کو غربت سے نکالنے کے وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے۔

’میں نے سوچا جو ہوا سو ہوا کم سے کم میرے باقی بچے تو بہتر زندگی جیئیں گے۔ لیکن انھوں نے مجھے کچھ نہیں دیا۔‘

یہ جاننا مشکل تھا کہ سچ کیا ہے تاہم اس کے اس بیان کی تصدیق ایک دوسرے ذرائع سے بھی ہوئی جسے اس بات چیت کا علم تھا۔

طیبہ کے والد کے سابق وکیل کا کہنا ہے کہ یہ دعوے سراسر غلط ہیں اور طیبہ کے والد نے عدالت میں کہا تھا کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔

راجہ خرم علی اور ان اہلیہ ماہین ظفر کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ دعوے جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔

ان دونوں کو ایک زخمی بچی سے صرف نظر کرنے پر ایک ایک سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم انہیں طیبہ پر تشدد سمیت دیگر تمام الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔

تاہم طیبہ کے لیے ایک خوشگوار اختتام کا موقع موجود ہے۔ وہ بڑی ہو کر وہ استانی بننا چاہتی ہے۔

وہ کہتی ہے کہ ’بچوں کو کام کرنے کے بجائے سکول جانا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp