میری عید کہانی، میرے پاپا کی زبانی


میرا نام عبد اللہ شاہد ہے، تاہم میں اپنا مکمل تعارف اپنی کہانی کی پہلی قسط ’’میری کہانی، میرے پاپا کی زبانی‘‘ میں کروا چکا ہوں، اس لئے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ بار بار تعارف میرے لئے اذیت کا باعث بنتا ہے۔ آج میں اپنے شب و روز کے چند مزید معمولاتِ زندگی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ میری کہانی پڑھتے ہوئے یہ بات ذہن میں ضرور رکھئے کہ یہ صرف میری کتھا نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان میں میرے جیسے دیگر ہزاروں لاکھوں سپیشل بچے کم وبیش ایسی ہی پراذیت صورتحال کے ساتھ اپنی مشکل زندگی کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ میرے مسائل کا حقیقی درد صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کے گھروں میں میرے جیسے بچے موجود ہوتے ہیں یا جن لوگوں کے کسی حادثہ کی وجہ سے وقتی طور پر ہاتھ یا پاؤں ٹوٹ جائے اور انہیں پانچ چھ مہینوں کے لیے دوسروں کا محتاج بننا پڑیں۔

ہمارے معاشرے میں صرف امیر طبقہ ہی عید کی خوشیوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ کسی غریب کے لیے یہ تہوار اب کسی عذاب سے کم نہیں رہا لیکن ایک اَپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود عید کا دن میرے اور میرے والدین کے لیے بجائے کوئی خوشی دینے کے مزید اداسی کا سبب بنتا ہے۔ نارمل بچے تو ماہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی عید کا بے چینی سے انتظار کرنے لگتے ہیں اور اس کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں لیکن میرے لیے یہ سارا بابرکت مہینہ اور پھر عید کا دن قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا اورنہ ہی میں اس قابل ہوں کہ میں اس کی اہمیت کو کسی بھی حوالے سے سمجھ سکوں۔ مجھے عید کا صرف ایک ہی فائدہ ہوتا ہے کہ میرے پاپا کو عید کے تہوار کے موقع پر تین چار دن کی چھٹی ہوتی ہے اور میں یہ سارا وقت ان کے ساتھ گزار کر بہت خوش ہوتا ہوں اور یہی میری اصل عید ہوتی ہے۔

عید کے دن صبح سویرے سب بچے نہا دھو کر نئے کپڑے اور جوتے پہن کر عید کی نماز کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں لیکن اس اہم موقع پر میرے والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جب تک میرے پاپا نماز عید ادا کر کے گھر واپس نہ آ جائیں، اس وقت تک میں نیند سے بیدار نہ ہوں کیونکہ میں اپنی اسلامی ریاست میں نماز کی ادائیگی کے لیے اپنی مسجد بھی نہیں جا سکتا۔ چھ سات سال کی عمر میں میری ماما کے مجبور کرانے پر پاپا مجھے صرف ایک دفعہ عید کی نماز کے لیے اپنے ساتھ محلے کی مسجد میں لے گئے تھے تو وہاں میری ’’سپیشل حرکتوں‘‘ کی وجہ سے چند لوگوں نے میرے پاپا کے کان میں کہا کہ آپ برا نہ منایئے گا آپ اس بچے کو گھر پر ہی نماز پڑھا دیا کریں کیونکہ اس کی وجہ سے ہماری عبادت میں خلل پڑتا ہے اور دوسری بات یہ کہ چونکہ آپ کا بیٹا بیماری کی وجہ سے ہر وقت ڈائپر استعمال کرتا ہے تو اس کی وجہ سے بھی مسجد کی پاکیزگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ میرے پاپا نے کسی شرعی بحث میں الجھنے کی بجائے فوراً ان کی بات پر ’آمین‘ کہی اور مجھے آئندہ مسجد لے جانے سے توبہ بھی کی۔ اس کے علاوہ کسی بڑی مسجد یا عید گاہ میں پاپا مجھے اس ڈر کی وجہ سے ساتھ لے کر نہیں جاتے کہ کہیں میں نماز کے بعد فرزندانِ توحید کی کسی روایتی بے صبری کے مظاہرے پر ان کے پیروں تلے ہی نہ روندھا جاؤں۔ بہرحال مکہ، مدینہ اور دیگر اسلامی و غیر اسلامی ریاستوں کے دورے کے دوران مجھے کبھی ایسی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔

میں نے لمحۂ موجود تک کبھی بھی عید کے دن دوسرے نارمل بچوں کی طرح کسی بھی روایتی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا مثلاً بچے عید کے دن نئے کرنسی نوٹوں والی عیدی کو خرچ کرنے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ اٹکھلیاں کرتے ہوئے بازار جا کر من پسند چٹ پٹی چیزیں کھاتے ہیں۔ مختلف قسم کے جھولوں سے سارا دن بلکہ عید کے تینوں دن بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا بندوق سے غباروں کو اپنا ازلی دشمن تصور کرتے ہوئے پھاڑ دیتے ہیں یا گھوڑے اونٹ وغیرہ کی سواری کے مزے لیتے ہیں۔ ذہنی و جسمانی معذوری کی وجہ سے میں ان ساری سرگرمیوں میں بالکل حصہ نہیں لے سکتا اور شاید آئندہ بھی ساری عمر ان ساری خوشیوں سے محروم رہوں گا، اسی لیے میں اپنی جمع شدہ ساری عیدی اپنی باجی کو ہی دے دیتا ہوں۔

عید کے دن زیادہ تر بچے اور بڑے نئے کپڑوں کے ساتھ نئے جوتے بھی پہنتے ہیں۔ قدرت کی بھی میرے ساتھ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جس کام کو کرنے کی میرے اندر بالکل صلاحیت نہیں ہے سب سے زیادہ اسی کام کو کرنے کی خواہش میرے اندر مچلتی رہتی ہے جیسا کہ میں بغیر سہارے کے کھڑا نہیں ہو سکتا اور بغیر کسی سہارے کے چل پھر بھی نہیں سکتا لیکن مجھے نئے سے نئے شوز لینے کا بہت شو ق ہے۔ نارمل لوگوں کے شوز زیادہ تر نچلے حصے سے خراب ہوتے ہیں لیکن میرے شوز (کراؤلنگ کی وجہ سے) ہمیشہ اوپر سے پھٹ جاتے ہیں اور ایک سال گزرنے کے باوجود میرے جوتے نچلے حصے سے اتنے نئے محسوس ہوتے ہیں جیسے کبھی استعمال ہی نہیں ہوئے ہوں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2