ایم ایف حسین نے ہندو دیویوں کو برہنہ پینٹ کیوں کیا؟


‘یہ جانا کہ کچھ نہیں جانا ہائے

وہ بھی ایک عمر میں ہوا معلوم’

سالوں پہلے بی بی سی سے بات کرتے کرتے ہوئے مقبول فدا حسین نے یہ شعر سنایا تھا اور صحیح معنوں میں یہی ان کی زندگی کا فلسفہ بھی تھا۔

ایک قدیم یہودی کہاوت ہے کہ ‘خدا کا مسکن تفصیلوں میں ہوتا ہے۔’

خدا کے بارے میں یہ سچ ہو یا نہ ہو، ایم ایف حسین کے فن کا سچ یہی ہے۔

ایم ایف حسین کی پوری زندگی پر نظر دوڑائیں، تو جو چیز فورا آنکھوں کا دھیان کھینچتی ہے، وہ کوئی بھاری بھرکم عظیم سچائی نہیں، بلکہ چھوٹی موٹی چیزیں ہیں، جنھیں تاریخ نے تو کنارے چھوڑ دیا ہے، لیکن ایم ایف حسین ایک کے بچے کی طرح انھیں اپنی جیبوں میں بھر کر چلے جاتے ہیں۔

ایک مرتبہ روسی مصنف ولادی میر نوبوکوف نے ایک عظیم فنکار کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک ایسے آدمی کی طرح ہے جو مکان کی نویں منزل سے گرتا ہوا اچانک دوسری منزل کی ایک دکان کا بورڈ دیکھ کر سوچتا ہے ‘ارے، اس کے تو ہجے غلط لکھے ہوئے ہیں۔’

یہ تھے مقبول فدا حسین۔

’اوہ مائی گاڈ۔ ایم ایف حسین‘

کامنا پرساد مشہور مصنفہ اور اردو پرست ہیں۔ ان کو ایم ایف حسین کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی اور ایم ایف حسین کی پہلی ملاقات کہاں پر ہوئی تھی؟

‘سڑک پر’، ان کا جواب تھا۔

کامنا نے مزید بتایا کہ ‘میں نے دیکھا کہ بھارتی نگر کے چوراہے پر ایک شخص کالی کار کو پیچھے سے دھکا لگا رہا تھا۔ وہ اپنی کار میں اکیلے تھے اور وہ سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے ان کی بغل میں اپنی کار یہ سوچ کر روک دی کہ شاید انھیں مدد کی ضرورت ہو۔ وہ فورا آ کر میری کار میں میری بغل میں بیٹھ گئے۔ جب میں نے ان کی طرف دیکھا، تو میرے منہ سے نکلا ‘اوہ مائی گاڈ۔ یو آر ایم ایف حسین۔‘

‘وہ بولے جی۔ اس کے بعد ان سے ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد تو ان سے دوستی ہو گئی۔

ان کو شاید لگا کہ ہم اردو شعر و شاعری اور اپنی تہذیب کے پرستار ہیں۔ ان کو بھی شعر پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ ہر موضوع پر موزوں شعر کہتے تھے۔ اردو کے پرانے استاد انھیں بہت یاد تھے۔’

ایم ایف حسین اپنے زمانے کے شاید سب سے مہنگے مصور تھے۔ لیکن ان کی دریا دلی کے بے انتہا قصے مشہور ہیں۔

ایم ایف حسین
ایم ایف حسین اپنے زمانے کے سب سے مہنگے مصوروں میں شمار کیے جاتے تھے

گیلے کینوس پر دوڑتا گھوڑا

سنیتا کمار ایک معروف مصورہ ہیں اور ایک زمانے میں مدر ٹریسا کی ترجمان رہی ہیں۔ ان کے شوہر نریش کمار بھارتیا ڈیوس کپ ٹیم کے کپتان رہ چکے ہیں۔

سنیتا بتاتی ہیں کہ ‘میری ایم ایف حسین سے پہلی ملاقات دلی کی ایک پارٹی میں ہوئی تھی۔ میں نے انھیں اگلے دن ہونی والی راشٹریا ٹینس چیمپیئن شپ کا فائنل دیکھنے کے لیے مدعو کر لیا۔ حسین نے مال اینڈرسن کے جیتنے پر شرط لگا لی۔’

‘ہم لوگ اوبرائے ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ جب ہم باہر جانے لگے تو ریسیپشن نے کہا کہ آپ کے لیے حسین صاحب ایک پیکٹ چھوڑ گئے ہیں۔ میں سوچا کہ شاید میچ دکھلانے کے لیے کوئی تھینک یو نوٹ ہوگا۔’

سنیتا نے مزید بتایا کہ ‘جب میں نے پیکٹ کھولا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس میں حسین کی پینٹ کی ہوئی گھوڑے کی ایک پینٹنگ تھی۔ پینٹنگ کے رنگ ابھی تک گیلے تھے، کیونکہ آئل پینٹ بہت جلدی سوکھتا نہیں ہے۔ حسین نے رات بھر پینٹ کر کے وہ پینٹنگ مجھے تحفتاً دی تھی۔’

معروف نقاد پریاگ شُکل کو بھی ایم ایف حسین کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔

پریاگ شُکل بتاتے ہیں کہ جب 80 کی دہائی میں بھوپال میں بھارت بھون بنا، تو یہ طے کیا گیا کہ اس میں ایم ایف حسین کی پینٹنگز بھی لگائی جائیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘سوامی ناتھن کی سفارش پر حسین اپنی کچھ پینٹنگز بھارت بھون کو چھ مہینے کے لیے دینے پر راضی ہو گئے۔ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ میں حسین سے وہ پینٹنگز لے کر بھوپال بھجواؤں۔’

‘میں نے ان کے بیٹے شمشاد سے کہا کہ جب حسین صاحب ان کے یہاں آئیں تو مجھے اس کی خبر کر دینا۔ شمشاد کا فون آتے ہی میں ان کے یہاں پہنچ گیا۔ انھوں نے میرے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے جب بتایا تو انھوں نے کہا کہ میں پینٹنگز لے جانے کے لیے پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔ تم انھیں کیوں نہیں لے کر گئے۔’

‘میں نے کہا کہ میں ان پینٹنگز کو آپ کی موجودگی میں لے جانا چاہتا تھا اور پھر میں آپ کو لکھ کر بھی دینا چاہتا تھا کہ یہ پینٹنگز مجھے مل گئی ہیں۔’

‘حسین نے کہا کہ لکھ وکھ کر دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ پینٹنگز بھارت بھون جا رہی ہیں۔ یہ بتاؤ کہ تم انھیں لے کر کیسے جاؤ گے؟ ان دنوں آروز سنیما کے سامنے کچھ ٹیپپو کھڑے رہتے تھے۔ میں بنا وقت ضائع کیے ٹیمپو بلا لایا اور پینٹنگز کو ان میں لاد کر کارنتھ صاحب کے پنڈارا روڈ والے گھر میں رکھ آیا۔’

پھر پیر میں جوتے کیوں پہنوں۔۔۔

ایم ایف حسین نے سنہ 1963 کے بعد سے جوتے پہننا چھوڑ دیا تھا۔ اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے جو انھوں نے ایک بار بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سنائی تھی۔

انھوں نے بتایا: ‘مکتی بوتھ ہندی کے بہت مشہور شاعر ہوا کرتے تھے۔ وہ میرے دوست تھے۔ میں نے ان کی ایک تصویر بھی بنائی تھی۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں ان کے جسد خاکی کے ساتھ شمشاد گھاٹ گیا تھا۔ میں نے اسی وقت اپنی چپلیں اتار دی تھیں، کیونکہ میں زمین کی تپش کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔ میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا تھا۔ وہ کربلا کا تھا۔ اس کی ایک اور کہانی بھی ہے۔ میری ماں کا انتقال اس وقت ہوا تھا، جب میں صرف ڈیڑھ سال کا تھا۔ میرے والد کہا کرتے تھے کہ میرے پیر میری ماں کی طرح دکھتے ہیں۔ میں نے کہا تب اس پیر میں جوتے کیوں پہنوں؟’

حسین
ایم ایف حسین کی ایک پرانی تصویر

ایک قسم کی آوارگی

ایم ایف حسین کو سنکی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کے مزاج میں ایک قسم کی آوارگی ضرورت تھی۔

کامنا پرساد بتاتی ہیں کہ ‘ان کی طبیعت میں بلا کا آوارہ پن تھا۔ ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ وہ گھر سے دلی جانے کے لیے نکلیں اور ہوائی اڈے پر پہنچ کر کلکتے کا ٹکٹ خرید لیں۔ ان میں بچے کی طرح کا ایک جوش بھی تھا۔ ہر کچھ جاننے کی تمنا ہوا کرتی تھی۔’

سنیتا کمار بتاتی ہیں کہ کتنی بار ہوا کہ وہ ان کے گھر سے ہوائی اڈے جانے کے لیے نکلے اور وہاں سے واپس گھر آ گئے۔

‘ایک بار ایئرپورٹ جاتے ہوئے انھوں نے کار رکوا دی اور ڈرائیور سے بولے کہ میں یہاں میدان میں سونا چاہتا ہوں۔ انھوں نے اپنا بیگ نکالا اور اس پر سر رکھ کر سو گئے۔ میرے ڈرائیور نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ایک طرف مرسڈیز کھڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف حسین کھلے میدان میں سو رہے ہیں۔’

اسی طرح کا ایک دلچسپ واقعہ ایس کے مشرا کے ساتھ بھی ہوا تھا۔

ایس کے مشرا وزیراعظم چندر شیکھر کے سیکریٹری جنرل رہے تھے۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب وہ انڈیا ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔

انھوں نے قبرص میں ایک ہوٹل کھولا تھا، جہاں انھوں نے ایم ایف حسین کی مصوری کی نمائش منعقد کی اور وہاں کے صدر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا۔

ایس کے مشرا یاد کرتے ہیں کہ ‘نمائش کا دن آ گیا اور حسین کا کہیں پتا نہیں تھا۔ اچانک پتا چلا کہ وہ شام کو آ رہے ہیں۔ جب میں ہوائی اڈے پر پہنچا تو دیکھا حسین بنا پینٹنگ کے چلے آ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ پینٹنگ کہاں ہیں، تو بولے اگلی فلائیٹ سے آ رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ آخری فلائیٹ ہے۔ حسین بولے چلو کھانا کھانے چلتے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ میں بہت غصے میں تھا۔ میں نے کہا آپ مجھے بتا دیتے کہ آپ بنا پینٹنگ کے آئیں گے تو میں کوئی بہانہ بنا دیتا کہ حسین کو ہاٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ اب میں صدر کے سامنے کیا منہ دکھاؤں گا۔’

وہ بتاتے ہیں کہ ‘دوسرے دن صبح حسین پھر میرے کمرے میں آئے۔ بولے چلو اس ہال میں چلتے ہیں جہاں میری نمائش لگنی ہے۔ میں نے کہا تم میرا وقت کیوں ضائع کر ہے ہو۔ بہرحال میں ان کے کہنے پر وہاں گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہاں حسین کی 13 پینٹنگ لگی ہوئی ہیں اور ان پر رنگ اتنے تازے ہیں کہ وہ لگ بھگ ٹپک رہے ہیں۔ حسین نے رات بھر جاگ کر میرے لیے وہ پینٹنگز بنائی تھیں۔’

حضرت نظام الدین میں ایک زمانے میں ذکی میاں کا چائے کا ایک ڈھابہ ہوا کرتا تھا۔

ذکی میاں ہر صبح دودھ سے تروتازہ ملائی کی پلیٹ بچا کر الگ سے رکھ دیتے تھے۔ کیا پتا کس وقت ملائی کے شوقین ایم ایف حسین پہنچ جائیں۔

کھانے پینے کے انوکھے اڈے اور جگہیں انھیں بچپن سے ہی متاثر کرتی تھیں۔

کامنا پرساد بتاتی ہیں: ‘ہم لوگ بہار سے ہیں۔ ہمارے یہاں چھٹھ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ چھٹھ پر ہمارے یہاں ٹھیکوا بنایا جاتا ہے، جسے بنانے میں آٹے، گھی اور گڑ کا استعمال ہوتا ہے۔ وہ ان کو بہت پسند تھا۔ وہ اس کی ہمیشہ فرمائش کرتے تھے۔ وہ اس کا نام بھول جاتے تھے، لیکن کہتے تھے کہ ہمیں ‘بہاری ڈونٹ’ کھلاؤ۔ وہ اکثر ہمارے گھر آ کر کہتے تھے، چائے بناؤ۔ پھر اپنے گھر فون کر کے کہتے تھے، رات کی روٹی بچی ہے کیا؟ پھر وہ اس رات کی روٹی کو چائے میں ڈبو کر کھایا کرتے تھے۔’

بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ رام منوہر لوہیا بھی ایم ایف حسین کے گہرے دوست تھے۔

ایک بار وہ انھیں جامع مسجد کے پاس کریم ہوٹل لے گئے کیونکہ لوہیا کو مغلائی کھانا بہت پسند تھا۔ وہاں لوہیا نے ان سے کہا ‘یہ جو تم برلہ اور ٹاٹا کے ڈرائینگ روم میں لٹکنے والی تصویروں سے گھرے ہو، اس سے باہر نکلو۔ رامائن کو پینٹ کرو۔’

لوہیا کی یہ بات ایم ایف حسین کو تیر کی طرح چبھی اور یہ چبھن برسوں رہی۔

انھوں نے لوہیا کی موت کے بعد بدری وشال کے موتی بھون کو رامائن کی قریب سو پینٹنگز سے بھر دیا۔

سال 2005 میں کٹر ہندوؤں نے ان کی پیٹنگز کی نمائش میں توڑ پھوڑ کی۔

ان کی دھمکیوں کی وجہ سے انھوں نے انڈیا چھوڑا تو پھر کبھی واپسی کا رخ نہیں کیا۔

ایک بار بی بی سی نے ان سے سوال بھی پوچھا: ‘کیا سوچ کر انھوں نے ہندو دیویوں کو برہنہ پینٹ کیا؟’

ان کا جواب تھا: ‘اس کا جواب اجنتا اور مہابلی پورم کے مندروں میں ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے جو اپنا تاریخی فیصلہ سنایا ہے، اسے پڑھ لیجیے۔ میں صرف فن کے لیے جواب دہ ہوں اور فن عالمگیر ہے۔ نٹ راجہ کی جو تصویر ہے وہ صرف انڈیا کے لیے نہیں ہے، ساری دنیا کے لیے ہے۔ مہابھارت کو صرف سنت سادھوؤن کے لیے نہیں لکھا گیا ہے۔ اس پر پوری دنیا کا حق ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp