عام انتخابات کا میدان ممکنہ طور پر کس کے نام رہے گا؟


عام انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم اور جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر ہے۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف عام انتخابات کا میدان مارنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگاتے دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف بین الاقوامی اور مقامی اندازوں کے مطابق مسلم لیگ نواز کو انتخابی ریس جیتنے کے لئے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے لیکن تیزی سے بدلتی ہوئی زمینی صورتحال اور ملکی مین اسٹریم میڈیا پر پس پشت قوتوں کی مکمل گرفت اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے مخالف شخص کی بطور نگران وزیر اعلی تعیناتی نے اس وقت مسلم لیگ نواز کے لئے انتخابی محاذ پر کافی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ بہت سے مبصرین اور تجزیہ نگار پس پشت قوتوں کی تحریک انصاف کی حمایت کی وجہ سے تحریک انصاف کو انتخابی دوڑ میں فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی جماعت تن تنہا انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے؟ کیونکہ سیاسی انجینئرنگ کا جو کھیل رچایا گیا تھا اس کا مقصد عام انتخابات کے نتیجے میں ایک مخلوط حکومت کا قیام تھا تا کہ آنے والی نئی حکومت واضح عددی اکثریت نہ ہونے کے سبب سر تسلیم خم کرتے ہوئے ہیئت مقتدرہ کے اشاروں پر چلنے میں ہی عافیت گردانے۔ مبصرین کے تجزیے اور مختلف سروے اپنی جگہ لیکن زمینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک نظر آئندہ انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کی ممکنہ نشستوں اور کامیابی کے امکانات پر ڈالتے ہیں۔

 پاکستان پیپلز پارٹی:

پیپلز پارٹی کو زیادہ تر مبصرین اور سروے انتخابی میدان مارنے کے لئے کوئی خاص اہمیت دیتے دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی سن دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کی نسبت بہتر پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے۔ سندھ سے روایتی نشستوں پر دوبارہ جیت کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے خلا سے پیدا ہونے والی صورتحال کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا دکھائی دیتا ہے اور پیپلز پارٹی اس مرتبہ کراچی اور حیدرآباد سے آٹھ سے دس نشستیں نکال کر سندھ سے اپنی قومی نشستوں کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ کر سکتی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ختم کرنے کے انعام کے طور پر چار سے پانچ نشستیں پیپلز پارٹی کو ملنے کا قوی امکان ہے۔ خیبر پختونخواہ میں گزشتہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو طالبان نے انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی تھی اس لئے پیپلز پارٹی کا وہاں سے تقریبا صفایا ہو گیا تھا لیکن اس بار پیپلز پارٹی خیبر پختونخواہ سے کھل کر انتخابی مہم چلا رہی ہے اور عوامی نیشنل پارٹی یا دیگر جماعتوں سے انتخابی اتحاد کی صورت میں پیپلز پارٹی خیبر پختونخواہ سے آٹھ سے دس نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی عام انتخابات میں 65 کے لگ بھگ نشستیں جیت کر ایک مخلوط حکومت کو لیڈ کرنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔

تحریک انصاف:

پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے تاثر کو میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش تو کیا جاتا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ خیبر پختونخواہ جہاں گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف قومی اسمبکی کی اٹھارہ نشستیں جیتی تھی اس بار وہاں میدان خالی نہیں ہے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی انتخابی مہم چلانے میں آزاد ہیں اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا کوئی قابل ذکر گورننس ماڈل نہ پیش کر پانے کا فیکٹر بھی تحریک انصاف کے خلاف ہے۔ اگر تحریک انصاف اس بار خیبر پختونخواہ سے دس سے بارہ قومی اسمبلی کی نشستیں بھی جیتنے میں کامیاب ہوئی تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔ سندھ سے شاہ محمود قریشی کی آبائی نشست اور کراچی سے ایک عدد نشست کے علاوہ تحریک انصاف کی جیت کے امکانات معدوم ہیں۔ بلوچستان میں اگر جھاڑو پھیرا گیا تو شاید تین سے چار نشستیں تحریک انصاف کو مل جائیں وگرنہ دوسری صورت میں بلوچستان سے ایک نشست سے زائد پر تحریک انصاف کی کامیابی ممکن نہیں نظر آتی۔ پنجاب سے تحریک انصاف نے گزشتہ عام انتخابات میں پانچ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتی تھیں ۔اس مرتبہ جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کو اٹھا کر چونکہ تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے اور مرکزی اور شمالی پنجاب سے کچھ امیدوار حلقوں کی ڈی لیمیٹیشن کے بعد نواز لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے کے باعث تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں اس لئے تحریک انصاف پنجاب میں گزشتہ انتخابات کی نسبت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچیس سے تیس قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ یعنی کل ملا کر عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف 45 کے لگ بھگ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ پینتالیس نشستوں پر جیت کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف پییلز پارٹی اور دیگر آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت کا حصہ بن سکتی ہے لیکن متوقع مخلوط حکومت کو لیڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ہے۔

 متحدہ مجلس عمل

جمیعت علمائے اسلام ، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد متحدہ مجلس عمل قومی اسمبلی کی پندرہ سے اٹھارہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے اور مخلوط حکومت کے قیام کی صورت میں متحدہ مجلس عمل کا کردار اہمیت کا حامل ہو جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز)

مسلم لیگ نواز جنوبی پنجاب میں مضبوط امیدواروں سے محروم ہونے کے باوجود مرکزی اور شمالی پنجاب میں اس وقت انتہائی مستحکم پوزیشن پر ہے۔ لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ ڈویژن، سیالکوٹ سرگودھا فیصل آباد راولپنڈی ڈویژن اور ضلع اٹک میں لیول پلئینگ فیلڈ ملنے کی صورت میں یہ جماعت ان علاقہ جات سے تقریباً کلین سویپ کر سکتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں اگر جاوید ہاشمی ، لغاری برادران، اور دیگر نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو مسلم لیگ نواز بآسانی پنجاب سے اسی سے پچاسی نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن معروضی حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے اور جنوبی پنجاب سے الیکٹیبلز کی تحریک انصاف کی شمولیت کے باعث ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ پنجاب سے مسلم لیگ نواز ستر کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے پائے گی۔ خیبر پختونخواہ کی ہزارہ بیلٹ سے متوقع طور پر مسلم لیگ نواز آٹھ کے لگ بھگ نشستیں جیت سکتی ہے اور امیر مقام کی اچھی پرفارمنس کی بدولت مسلم لیگ نواز سوات ، شانگلہ اور خیبر پختونخواہ کے دیگر علاقوں سے چھ سے آٹھ نشستوں پر کامیابی متوقع کر سکتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے کوئی بھی نشست ملنا مسلم لیگ نواز کے لئے معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ یوں اگر مسلم لیگ نواز کو لیول پلئینگ فیلڈ ملی تو مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی کی ایک سو پانچ سے ایک سو دس کے لگ بھگ نشستیں جیتے گی۔ بصورت دیگر اسے 80 سے 85 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی ملنے کے امکانات موجود ہیں۔ ایک سو دس کے قریب نشستوں پر کامیابی کی صورت میں مسلم لیگ نواز باآسانی آزاد امیدواروں ،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی ، اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ ملکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ لیکن اگر مسلم لیگ نواز عام انتخابات میں اسی سے پچاسی کے لگ بھگ نشستیں جیتنے میں ہی کامیاب ہونے پائی تو پھر صورتحال دلچسپ ہو جائے گی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے مابین مخلوط حکومت بنانے کے لئے بعد از انتخابات کانٹے کا جوڑ ہو گا۔

ممکنہ طور پر مخلوط پارلیمنٹ وجود میں آ سکتی ہے

کسی بھی جماعت کے واضح برتری نہ لینے کی صورت میں پیپلز پارٹی اپنی پینسٹھ قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ پس پشت قوتوں کی مہربانی کی بدولت اگر تحریک انصاف کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئی جس کا کہ عملی مظاہرہ ہم نے سینیٹ کے انتخابات میں دیکھا تھا تو پھر آئندہ ملک میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت وجود میں آ سکتی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف اگر ساتھ نہ بھی دے تو پیپلزپارٹی متحدہ مجلس عمل، بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی ہوزیشن میں آ سکتی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کو اگر لیول پلئینگ فیلڈ ملی تو یہ جماعت سادہ اکثریت حاصل کر کے مرکز میں حکومت قائم کر لے گی بصورت دیگر اسی سے پچاسی نشستوں کی صورت میں مسلم لیگ نواز کو متحدہ مجلس عمل، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی اور چند آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دینی پڑے گی۔ کسی بھی جماعت کے سادہ اکثریت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے دونوں ہی صورتوں میں یا تو پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آئے گا یا پھر مسلم لیگ نواز ایک مخلوط حکومت تشکیل دے دے گی۔ توقعات اور اندازوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف انتخابی دوڑ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے تحریک انصاف سپائلر کا کام انجام دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملنے کی خاطر میدان میں اتاری گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).