سو موٹو ایکشن، پرویز مشرف کی معافی: الزام و عدل کی داستان


اس وقت ملک میں شفافیت کی دھوم ہے۔ بدعنوانی کے خلاف مہم زوروں پر ہے جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف بقلم خود کررہے ہیں۔ دونوں کا مؤقف ہے جمہوریت برحق لیکن احتساب ضرور ہو گا۔ عدالتی نظام پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ لیکن یہ معلوم نہیں پڑتا کہ یہ آنچ کدھر سے آنے کا خطرہ ہے۔ ملک کے عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ انہیں خطرات سے آگاہ یا دشمن کی سازشوں سے خوفزدہ تو کیا جاتا ہے لیکن اس بات کا سراغ نہیں ملتا کہ یہ خطرہ اور سازش ہے کیا۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق اپنے ہی لوگوں پر غداری اور بد اعمالی کے الزامات لگا کر ان کا قافیہ تنگ کیا جاتا ہے۔ انصاف کی فراہمی یا توجیہ بھی بد عنوانی کے الزامات کی طرح تخصیصی معاملہ بن کر رہ گئی ہے۔ الزام لگانے یا اسے ثابت کرنے کے لئے قانون ، دلیل یا ثبوت کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اپنے پسندیدہ مخالف کے بارے میں اپنی بساط کے مطابق افواہ سازی کا سلسلہ شروع کر دیجئے اور اس کے بعد اس بات کی تکرار کی جائے کہ وہ شخص، حکمران، سیاست دان یا جو بھی کوئی وہ ہے، ملک و قوم کو لوٹ کر کھانے والا ہے۔ باقی کام کان میں کہی بات کو چھت تک پہنچانے والے مزاج کے تحت پورا ہو جاتا ہے۔

کسی کو اس بات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ جس بات کا اعلان کیا جا رہا ہے یا جس بات کے لئے شدت سے کسی بھی شخص کو سخت ترین رسوائی یا سزا کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے، اس کی تصدیق کرلی جائے۔ دلیل اور جواز کی کمیابی نے پاکستانی معاشرہ کو ایسے سماجی عوارض سے روشناس کروایا ہے کہ وہ ایک وسیع معاشرتی اور سیاسی بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کی دریافت اور استعمال نے اس کام کو مزید سہل کردیا ہے۔ اب افواہ سازی کے لئے جھوٹی خبر شائع یا نشر کروانے کی بجائے سوشل میڈیا پر کسی بے نام شناخت کے ذریعے اسے عام کرنا سہل ہو گیا ہے۔ ملک میں سیاسی اقتدار کا حصول چونکہ متعدد حلقوں کا بنیادی مقصد رہا ہے اور اس کے لئے کسی بھی ہتھکنڈے کو اختیار کرنا جائز اور مناسب خیال کیا جاتا ہے۔ اس لئے سیاست میں الزام تراشی کا چلن اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اعتبار اور یقین کے الفاظ بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔

 اب ناانصافی یا قانون شکنی اس بات کا نام نہیں ہے کہ قانون اس کے بارے میں کیا کہتا ہے اور مسلمہ طریقہ کے مطابق ایسے الزام کو کیسے انجام تک پہنچانا ہے۔ اب تو میڈیا اینکرز یا سیاستدانوں نے ہر ٹاک شو یا عوامی جلسہ میں ’ مامے کی عدالتیں ‘ لگائی ہوتی ہیں۔ ان عدالتوں میں مدعی، استغاثہ اور منصف کا کام ایک ہی شخص بڑے اطمینان اور سکون سے سرانجام دیتا ہے اور سننے دیکھنے والے ا گر اس رائے سے متفق ہیں تو وہ اسے دلیل سمجھ کر اور بنا کر عام کرنے کی اپنی سی سعی کرنے لگتے ہیں۔ رہی سہی کسر اعلی عدلیہ پوری کررہی ہے ۔ جو آئین کی تشریح کو اپنا استحقاق اور قانون کی تفہیم کو اپنا فریضہ جان کر من مانی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے معاملہ میں سپریم کورٹ کا حکم ہے جس کے تحت پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مسترد کیا گیا ہے کہ سابق فوجی آمر انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف اس فیصلہ کو تبدیل کیا ہے جو قانون کے مطابق بلاشبہ اس کا استحقاق ہے بلکہ یہ حکم بھی صادر فرمایا ہے کہ پرویز مشرف اگلے ہفتے کے دوران عدالت کے سامنے پیش ہوں اور انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔ آئین کے باغی اور ملک کی عدالتوں اور حکومت کو ’دھوکہ‘ دے کر ملک سے فرار ہونے والے سابق فوجی جنرل کے بارے میں یہ استثنائی رویہ اسی عدالت کی طرف سے اختیار کیا گیا ہے جسے گزشتہ برس نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لئے جب کوئی دلیل یا عذر فراہم نہیں ہؤا تو بلیک اسٹون ڈکشنری میں اثاثوں کی تشریح تلاش کرکے ایک غیر وصول شدہ تنخواہ کو اثاثہ قرار دے کر اسے حاصل کرلیا گیا تھا۔

اس حکم کے تحت یہ طے ہؤا کہ نواز شریف نے اگر اپنے بیٹے کی کمپنی میں عہدہ لے کر اس کی تنخواہ وصول نہیں کی تو اس نے بڑا گناہ کیا۔ اگر یہ غیر وصول شدہ تنخواہ کاغذات نامزدگی میں اثاثہ کے طور پر ظاہر نہیں کی تو وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ اور آئین کی شق 62 (1) ایف یہ واضح کرتی ہے کہ جو شخص صادق و امین نہ ہو، وہ کسی منتخب عہدے پر کام کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اسی پر بس نہیں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت جب نواز شریف دوبارہ اپنی پارٹی کے صدر بننے میں کامیاب ہوگئے تو اسی عدالت نے تصریح کی کہ ایک بار جھوٹا ور خائن قرار پانے والا شخص کسی بھی حیثیت میں کسی سیاسی عہدے پر کام کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اب وہی عدالت آئین شکنی کے ملزم اور دو اہم ترین سیاسی لیڈروں کے قتل کے الزام میں مفرور جنرل (ر) پرویز مشرف کو غیر مشروط طور سے ملک میں آنے اور گرفتاری سے استثنیٰ دینے کا اعلان کررہی ہے۔ جب اس حیرت انگیز اور تکلیف دہ فیصلہ کو آئین و قانون سے ماورا قرار دیا جاتا ہے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منصب عدل پر جلوہ افروز ہو کر اس کا یہ جواب عطا کرتے ہیں کہ ’بعض لوگ پرویز مشرف کے ملک واپس آنے سے خوف زدہ ہیں‘۔ حیرت ہے کہ واپسی سے وہ خوفزدہ ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن ملک سے مفرور پرویز مشرف ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہے گا تو شاید توہین عدالت کا مرتکب قرار پائے کہ کیا یہ نرم دلی اس حلف کا شاخسانہ ہے جو معزز چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت لیا تھا۔

پرویز مشرف کو گرفتاری سے استثنیٰ دینے کا معاملہ اس قدر متنازع ہے کہ صرف سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ہی اس پر انگلی نہیں اٹھائی بلکہ ملک کے سینئر قانون دان اور ماضی میں وزیر قانون کے عہدے پر فائز رہنے والے ایس ایم ظفر نے بھی پرویز مشرف کی انتخابی عمل میں نااہلی کو معطل کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم کو ’بڑی حد تک آئین سے ماورا‘ قرار دیا ہے۔ یادش بخیر ایس ایم ظفر نگران حکومت میں وزیر قانون کے عہدے پر متمکن سید علی ظفر کے والد بھی ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر نکتہ چینی کرنے والوں میں سینیٹ کے سابق چئیرمین رضا ربانی اور قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی شامل ہیں۔ انصاف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اندھا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں انصاف کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ انصاف گراں گوش بھی ہے۔ ہر دلیل اس کی سماعت سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے۔ بلکہ منصف اعلیٰ ایسے تبصروں کا مسکت جواب عطا کرنا بھی اپنے فرائض منصبی میں شامل سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں الزام لگانا اور کسی معاملہ کو پرکھنا چونکہ پسند اور ناپسند کا محتاج ہو چکا ہے۔ کسی اختیار، قانون یا انتظامی طریقہ کے بارے میں بھی رائے اسی وقت قائم کی جاتی ہے جب کسی فرد یا گروہ کا مفاد اس سے متاثر ہوتا ہو۔ اسی لئے اب لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی نے ایک قرار داد کے ذریعے آئین کی شق 184(3) کے تحت چیف جسٹس کے سو موٹو اختیار کو چیلنج کیا ہے۔ اس قرار داد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ملنے والے اس اختیار کے حوالے سے بنیادی اصول و ضوابط وضع کرے۔ یہ قرار داد سپریم کورٹ کی طرف سے ملک کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کے نتیجہ میں سامنے نہیں آئی بلکہ لاہور کے معزز وکیلوں کو شکایت ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے خدیجہ صدیقی حملہ کیس میں سو موٹو ایکشن لے کر اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے۔ قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر اس کے ایک ہم جماعت نے مئی 2016 میں لاہور میں چاقو کے 23 وار کئے تھے اور انہیں مارنے کی کوشش کی تھی۔ زیریں عدالت نے ملزم کو سات سال قید کی سزا دی تھی جو سیشن کورٹ نے کم کرکے 5 برس کردی تھی۔ تاہم گزشتہ ہفتہ کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو منسوخ کرتے ہوئے ملزم کو تمام الزامات سے بری کردیا اور کہا کہ استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد سوشل میڈیا پر شدید احتجاج دیکھنے میں آیا تھا اور ’جسٹس فار خدیجہ‘ کی مہم شروع کی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں سپریم کورٹ کے سو موٹو اختیار کے خلاف قرار داد لانے والے معزز وکیل سید تنویر ہاشمی ، خدیجہ صدیقی پر حملہ میں ملوث شاہ حسین کے والد محترم ہیں۔ اس طرح یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمیں قانون اور اخلاقی روایات بھی صرف اس وقت یاد آتی ہیں جب ہمارے اپنے مفاد کو زک پہنچتی ہے۔

پاکستانی معاشرہ اعلیٰ اخلاقی روایات کا امین کہلانا پسند کرتا ہے۔ اس کے باشندوں کی اکثریت مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتی ہے اور آئے روز ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں جہاں دین حق کے لئے جان کی قربانی کے اعلانات کئے جاتے ہیں۔ لیکن الزام تراشی کی جس بیماری میں پاکستانی معاشرہ مبتلا ہے اسے کوئی بھی غیبت اور بہتان کے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی مرضی کے مطعون شخص یا سیاسی لیڈر کے خلاف ان الزامات کو دہرانے اور پھیلانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتا جن کے نہ ہم گواہ ہوتے ہیں اور نہ ہی جن کے ثبوت ہمارے پاس موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک بچی پر حملہ کرنے والے شخص کے باپ کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس کے بیٹے نے ایک معصوم لڑکی کی زندگی اجیرن کردی اور اسے جان سے مار ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن وہ اعلیٰ ترین سطح تک اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لئے متفکر ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی معاشرہ کے اخلاقی انحطاط کا ذکر کیا جائے تو بہت سی جبینیں شکن آلود ہو جائیں گی۔

اسی معاشرہ میں ریحام خان کی غیر مطبوعہ کتاب کے غیر مصدقہ اقتباسات کے حوالے سے جو طوفان برپا کیا گیا ہے، اسے جاننے اور اس کا حصہ بننے والوں کی تعداد کا شمار کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اب سوشل میڈیا پر ایک بوڑھے شخص کا ایسا ویڈیو پیغام گردش کر رہا ہے جس میں وہ ملک کے چیف جسٹس پر نہایت نازیبا الزامات عائد کر رہے ہیں۔ ان الزامات کو قلم بند کرنا بھی مناسب نہیں۔ اس کے باوجود یہ پیغام ایک دوسرے سے ہوتے ہوئے ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ الزام کو پھیلانے کا رجحان خواہ کسی عدالتی حکم نامہ کے ذریعے ہو یا کوئی تقریر یا بیان اس کا سبب بنے، یہ ملک کے سیاسی اور سماجی شعور پر حملہ ہے۔ لیکن یہ حملہ دن رات چہار طرف سے ہو رہا ہے۔ اس کے بچاؤ کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali