عمران خان کی تبدیلی


پارس انتہائی نایاب پتھر ہے۔ روایت ہے کہ پارس پتھر جس لوہے کو چھو لے، وہ سونے میں بدل جاتا ہے۔ ’وسطی ایشیائے کوچک کے قدیم شہر ” فریگیا “ کے بادشاہ ” میڈاس “ کو یہ کمال ہوگیا تھا کہ وہ جِس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا تھا وہ سونے کی ہو جاتی تھی۔ اِس عمل کو “Midas Touch” (برکت والا ہاتھ ) کہا گیا۔ گیدڑ سنگھی کے بارے میں بھی طرح طرح کے قصے مشہور ہیں۔ جسے گیدڑ سنگھی مل جائے اسے دولت، شہرت، اور کامیابی ملتی ہے۔ آجکل عمران کو دیکھ کر یہ ساری باتیں سچ لگتی ہیں۔ اب پتا نہیں ان کے پاس گیڈر سنگھی ہے یا نہیں۔ لیکن پارس پتھر ضرور بنے ہوئے ہیں۔

جو بھی تحریک انصاف جوائن کر لیتا ہے چاہے وہ کیسا ہی کرپٹ، بدعنوان، گھٹیا کیوں نہ ہو، چشم زدن میں سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ سمجھو لوہے کو پارس پتھر لگ گیا۔

حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کو جیسے ایمانداری کا ہیضہ ہوگیا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایماندار لوگ پارٹی میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ ایسے ایسے ہیروں کی رونق لگی ہے پارٹی کم اور جوہری کی دکان کا گمان زیادہ ہوتا ہے۔ عامر لیاقت، راجہ ریاض، جعفر لغاری، فردوس عاشق اعوان، نذر گوندل کیسے کیسے نیک نام کرپشن فری لوگ ہیں۔ صداقت امانت کے پتلے۔ پتہ نہیں کون سا معیار ہے جس کو بنیاد بنا کر عامر لیاقت کو پارٹی میں میں لیا گیا۔ جعلی ڈگری یافتہ، دین فروش، ٹٹ پونجیا، گالی باز، چرب زبان، نوٹنکی، ڈھیٹ، ننگ دیں، بد لحاظ، چھچورا، عقل و شرم سے عاری ایسے کئی اور الفاظ ہیں جو عامر لیاقت کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے۔ کوئی جماندرو انصافیہ بھی عامر لیاقت کی پارٹی شمولیت کا دفاع نہیں کر سکتا۔ انسان خطا کا پتلا ہے ہر انسان میں خامیاں ہوتی ہیں۔ لیکن جب آپ تبدیلی کا نعرہ لگا کر وہی گھسے پٹے پرانے پاپی اکٹھے کرلیں چہ معنی۔ اب ایسے لوگ تبدیلی کا چورن بیچیں۔ بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے۔

ایسا ہی حال صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کا ہے۔ جس محاذ کا روح رواں خسرو بختیار اپنے ہمنواؤں سمیت گزشتہ تین اسمبلیوں کی رونق رہا۔ وزارتیں بھی لیتے رہے جن میں مشرف صاحب کا دور بھی شامل تھا۔ مشرف صاحب تو سیاہ و سپید کے مالک تھے جتنے چاہے صوبے بنا لیتے۔ تب تو خسرو بختیار صاحب کی آواز بھی نہ نکلی۔ موجودہ اسمبلیوں کے بھی پورے مزے لیے۔ جب اسمبلی کی مدت پوری ہوچکی تب صوبہ یاد آگیا۔ اگر صوبے کا اتنا ہی خیال تھا تو کم ازکم اک آدھ پریس کانفرنس ہی کھڑکائی ہوتی تاکہ سند رہتی اور بوقت ضرورت کام آتی۔ کوئی فاتر العقل شخص ہی ان کے خلوص کی داد دے سکتا ہے۔ ایسی تبدیلی آنی تھی تو پندرہ سال ضائع کرنا کا کیا فائدہ یہی ٹیم مشرف کی تھی۔ یہی کام پہلے کیا جا سکتا تھا۔ تب ایمپائر ہاتھوں پاؤں کی انگلیوں سمیت ڈٹ کر کھڑا تھا۔

بے ضمیروں کے لیے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے ٹوڈی کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ اردو ادب میں ان کے لیے فصلی بٹیروں کی اصطلاح مستعمل ہے۔ پنجابی میں لوٹے۔ وہی لوٹے جسے بیچنے کے لیے دکاندار آواز لگاتا ہے ڈبے تے لوٹے۔ یہ برسات میں اگنے والی کھمبیاں کی طرح موسمی پرندے ذرا موسم کی سختی بڑھتی ہے تو دوسرے دیس پدھار گئے۔ جیسے ہی سائبیریا میں برف پگھلتی ہے تو یہ بھی پگھل جاتے ہیں۔ ان کا ضمیر ہر پانچ سال بعد جاگتا ہے۔ جب پتہ ہے کارکردگی صفر جمع صفر۔ سو شکست نوشتہ دیوار۔ تب ضمیر کی آواز نئے ٹھکانے ڈھونڈتی ہے۔ کہتے ہیں جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے سب سے پہلے چوہے چھلانگ لگاتے ہیں۔ جو لوگ آج انصافیے بن کر صاف چلی شفاف چلی۔ تبدیلی کی نوید سنا رہے ہیں بھیا ان سے تبدیلی نہ آئی۔ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے۔ چلے ہوئے کارتوس۔

محترمہ فوزیہ قصوری کا ذکر کیا کرنا۔ لیکن جسٹس وجیہہ الدین۔ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ بے داغ ماضی، بے باک، باکردار۔ جسٹس صاحب کسی زمانے میں تحریک انصاف کا چہرہ تھے۔ انہیں دیکھ کر تسلی ہوتی تھی۔ ابھی سیاست میں کچھ عزت اور عزت دار باقی ہیں۔ ان کی سفارشات پہ عمل تو کیا ہوتا ان جیسے جہاندیدہ، نرم گرم چشیدہ کو باہر کا دروازہ دکھایا۔ جن لوگوں پہ انہوں نے انگلی اٹھائی تھی آج کل ان ہی کی انگلی پکڑ کر پارٹی چل رہی ہے۔ تحریک انصاف کو تانگہ پارٹی کہنے والے آج اسی تانگے کے پائدان اور بمبو کے ساتھ لٹک رہے ہیں۔ بلکہ صدائیں دے رہے ہیں۔ سانوں وی لے چل نال وے بابو سوہنی گڈی والیا۔

تحریک انصاف آج جس مقام پر کھڑی ہے عمران خان کی مرہون منت ہے لیکن اس میں بڑے گمنام شہیدوں، وفا شعاروں کا بھی نام ہے۔ کیسے کیسے وفا کے پیکر تھے جو اس سفر میں رزق خاک ہوئے۔

موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے

فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے

کتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے

کتنے ہنس مُکھ چہرے، فصل بہاراں میں غمناک ہوئے

بڑے دیوانے تھے جنہوں نے لہو کے چراغ جلا کر امید کا دیا روشن رکھا۔ سب کے نام لکھنے بیٹھوں تو دفتر ہو جائے۔ میچ جیتنے کے لیے مخلص کپتان اشد ضروری لیکن اگر آدھی ٹیم میچ فکسر ہو تو انجام بخیر۔

ندیم افضل چن جیسے نسبتاً بہتر لوگوں کی آمد کا تو خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کے لوگ کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ لیکن عامر لیاقت نذ ر گوندل، جعفر لغاری، فردوس عاشق اعوان۔ جب کے پی کے میں تحریک انصاف کے حکومت بنی تو اس طرح کے لوٹے شامل حال نہیں تھے۔ عوام زرداری، نواز شریف اور اسکی کومہ فل سٹاپ والی اولاد سے بے زار ہے۔ زرداری نے پیپلز پارٹی کا ستیاناس کر دیا اور میاں صاحب کے مسلسل خود کش حملے نون لیگ کی لٹیا ڈبو کر چھوڑیں گے۔ جب اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح آپکی جھولی میں گرنے کا منتظر ایسے میں لوٹوں کا مینا بازار لگانے کا کیا فائدہ۔ کامیابی اپنے حسن عمل کی مرہون منت ہونی چاہیے۔ زندگی اپنے محاسن پر بسر ہوتی ہے۔ اگر تیز رفتاری باعث ہلاکت تو اوورلوڈنگ بھی زندگی بخش نہیں۔ اک حلقہ میں اک مناسب امیدوار ہی کافی ہوتا ہے۔ بجائے اس کے اک ہی پارٹی کے دس امیدوار کھڑے ہوں۔ اس طرح ووٹ تو خراب ہو سکتے ہیں لیکن جیتنا مشکل۔ اگر پارٹی کا آکسیجن پرانے کارکنوں کو کھڈے لائن نہ لگایا جائے۔ معیاری لوگوں کو ٹکٹ دیے جائیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان آج بھی باقیوں کی نسبت بہتر چوائس ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران کے پاس بیچنے کو بہت کچھ۔ لیکن اگر علیم خان، حامد خان، جہانگیر ترین، شاہ محمود اور دوسرے اندرونی گروپوں کو بروقت لگام نہ ڈالی گئی۔ اور عامر لیاقت مارکہ سیاست دانوں کو دھڑ ادھر ساتھ ملایا جاتا رہا تو کچھ بعید نہیں۔ اب آنے والا وقت ہی بتائے کا عمران خان جیسا ایماندار۔، انتھک، محنتی، ہٹ کا پکا ان لوگوں سے کیسے نتائج برآمد کرواتا ہے۔

اک واقعہ کا مفہوم ہے۔ اہل بیت سے عقیدت و محبت کے پیش نظر مفہوم سمجھانے کی کوشش ہے۔ عرب کی ایک معززعورت چوری کرتے پکڑی گئی۔ لوگ نبئی رحمت ﷺ کے پاس سفارش کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا “ اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو بھی سزا میں کوئی فرق نہ ہوتا “۔

پرنام سنکھ برطانوی آرمی میں فوجی تھا۔ آزادی کے بعد انڈین آرمی کا حصہ بن گیا۔ ہرنام سنکھ نے پرنام سے پوچھا پرنام سیوں آزادی کے بعد کیا تبدیلی آئی۔ کافی سوچ بچار کے بعد بولا۔ پہلے افسر انگریزی میں گالیاں دیتے تھے اب ہندی میں۔ یہ داغ داغ اجالا۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).