وہ کون تھا؟


وہ ابھی چھوٹا تھا جب گھر سے نکل کر گلی سے باہر سڑک پر آیا یہ دنیا نئی اور کسی حد تک تیز بھاگتی تھی کیونکہ یہاں ادھر سے اُدھر پہیے گھومتے سائیکل، تانگہ، ریڑھی، گاڑی، ویگن، بس اور ٹرک آجا رہے تھے۔

گھر میں اگر زیادہ لوگ آ بھی جاتے تو اتنی حرکت پھر بھی دیکھنے کو کم ملتی، صرف تبدیلی اتنی آتی کہ آوازیں زیادہ ہوجاتیں، الفاظ اپنی اُڑانیں بھرتے، ہر طرف کیوں، کیا، کیسے، کہاں، کب اور نہ جانے ایسے الفاظ سوال بن بن کر آتے جاتے۔ پھر جوابی پروازیں بھی کچھ ایسے ہی لفظوں کا مجموع ہوتیں۔

اُس کا ذہن گھر کے اُن الفاظ کو پکڑنے کی کوشش ایسے ہی کرتا جیسے کبھی باغ میں تتلی یا گھاس میں سبز طوطے کو۔ اگر کچھ سمجھ نہ آتا تو اُسے گمان ہوتا کہ درخت پر بیٹھی بُلبل اُڑ گئی۔ یا پھر جیسے کھڑے کھڑے کسی نے پیچھے سے دھکا دے دیا ہو۔

بڑوں کی حرکات بھی پوری طرح سے ذھن کے پردے پر چلتے ہوئے اپنے نقش نہیں چھوڑ پاتی تھیں۔ اکثر انہیں ریوائینڈ کرکے دیکھنے کی ناکام کوشش کرتا۔

نانی اماں کی کہانیاں صرف ایسی تھیں جن میں الفاظ کا ذخیرہ ذھن کے گودام میں اکٹھا ہوجاتا اور خیالی تصاویر کا البم بھی تیار ہوجاتا۔ لیکن جو سوال سر اُٹھاتے اُن کو پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔

گھر سے باہر چلتے بڑوں کے ساتھ قدم ملاتے اور ہاتھ تھامے رکھتا۔ جیسے دودھ پیتے بچہ اماں کے پیٹ پر ہاتھ رکھتا یا قمیض کا کونہ پکڑے ہو تا بھیڑ اُسے لگتا کہ اگر دامن چھوٹ گیا تو وہ کہیں کھو جائے گا یا کسی کے ٹکرانے سے گر جائے گا۔ وہ آتی جاتی گاڑیوں کو بڑی توجہ سے دیکھتا اُن کے پہیوں سے لیکر اندر بیٹھے انسانوں تک پر پوری نگاہ ہوتی تھی۔ جہاں اُسے یہ سب کچھ بھلا لگتا وہیں اس بات کا ڈر بھی ہوتا کہ وہ اُس پر چڑھ نہ جائیں۔ بیک وقت پسندیدگی اور پذیرائی کی نگاہوں کے ساتھ ساتھ خوف کے جذبات بھی آنکھوں میں ہوتے۔

آہستہ آہستہ ایسے لمحات بھی آئے جب خود بڑوں کا ہاتھ چھڑانے کی کوشش ہوتی اور راہ جاتی گاڑیوں کو چھونے کی بے دھڑک حرکت کبھی کبھار چوٹ لگنے کا موجب بن جاتی، وہ وقت بھی آیا کہ چلتے تانگے پر چپکے سے پائیدان پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہوجانا اور پھر کوچوان کی دھمکی آمیز نگاہوں یا پھر اکثر منہ بھر نکالی گالی کے نتیجے میں اسی طرح واپس اُتر جانا۔ لیکن یہ سب کرتے بڑا مزہ آتا۔ کسی دوست کو سائیکل چلاتے پیچھے سے دھکا لگانا اور کبھی اسے آگے آگے روکنے کی کوشش کرنا۔ دونوں حرکتوں کے مقاصد اگرچہ مختلف ہوتے لیکن سب کچھ بے ساختہ ہوجاتا۔

وہ بھی ان سے ملتی جلتی کارروائیاں کرتا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ دوسروں کو دیکھ کر حرکت سرزد ہوتی اور زیادہ تر نتائج درست نہ آتے۔

وہ سڑک پر چلتے ایسے ایسے تجربات دیکھتا کہ ذھن کے اندر سوالات اور بعض اوقات خودساختہ جوابات کا سلسلہ جاری رہتا۔ بڑوں سے کچھ باتیں پوچھ لیتا، کچھ کو شرمندگی، ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنے تک ہی رکھتا لیکن ایسے تمام سوالات جن کے جواب نہ ملتے ان سے متعلق اُس کا تجسس بڑھتا جاتا۔

اب وہ بڑا ہوگیا سوالوں کے جواب بھی ملتے، اردگرد کی حرکات وسکنات کا ادراک بھی نسبتاً ہوجاتا مگر ذھن کے اندر چلنے والی ٹریفک کی آمدورفت مزید بڑھ گئی۔

وہ اپنے جسمانی اور ذھنی سوالوں کے جواب بھی تلاش کرنے لگا مسئلہ وہیں کا وہیں تھا یعنی اُن میں سے کچھ پوچھ لیتا باقی دبے رہتے۔ اب جواب نہ ملنے پر ذھن انتشار کا شکار ہو جاتا۔ سوچ کا عمل کہیں زیادہ تیز ہوگیا، وہ علم اور جانکاری کے لیے تگ ودو کرتا۔

سڑک اُس کو کئی باتوں میں رہنمائی کرتی، جہاں اُس نے منزل تک پہنچانے کا کام نہیں چھوڑا وہیں اب جدید سہولتوں کی بدولت فاصلے بھی کم پڑنے لگے۔ جہاں کبھی قدم قدم گن کر چلتا تھا وہ مقامات اب ساعتوں میں پیچھے رہ جاتے۔ اُسے معلوم ہوگیا سڑک پر چلنے والا پہیہ کس قدر تیز ہوگیا۔ اس کا ذھن بھی اتنی برق رفتاری سے کام کرتا لیکن سوال ابھرتا اُسے جواب مل جاتا یا پھر تجسس اور پُراسراریت کا لبادہ اوڑھ کر کسی ایک کونے میں بیٹھ جاتا۔

اب اُس نے اپنی گاڑی بھی سڑک پر ڈال دی، اُسے نہ صرف سامنے سے آنے والی گاڑیوں کا دھیان رکھنا پڑتا بلکہ وہ پیچھے سے کراس کرنے والیوں پر بھی نگاہ رکھتا۔ اُس کی کوشش ہوتی کہ انہیں آگے جانے سے روکے بلکہ اپنے سے آگے والی کو کس طرح کراس کرے۔ سڑک پر چلنے کے قواعد تو شائد اُسے زیادہ نہیں بتائے گئے تھے کیونکہ اُس وقت وہ چھوٹا تھا کوئی پوچھتا نہیں تھا لیکن اب ہر قسم کے اصول و ضوابط موجود ہیں۔ وہ انہیں جانتا بھی ہے لیکن اپنی ڈرائیونگ میں اتنا مگن ہوگیا کہ اُسے آگے بڑھنے کی لگن میں کئی بار انہیں توڑنا پڑتا ہے۔ یہ کہہ لیں وہ اپنی غلط حرکت سے بھی بے گانہ ہوتا ہے اب دوسرے اس کی حرکات وسکنات دیکھ رہے ہیں اُس کی نگاہیں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھتیں۔

اُسے یہ احساس بھی نہیں کہ گاڑی کسی سے ٹکرا جائے گی کوئی نیچے آجائے گا۔ وہ دوسروں کی سنتا ہے مگر کرتا اپنی ہے۔

پہلے وہ ایسا نہیں تھا ساتھ چلنے والی گاڑیوں کے سوار بھی اب یہ گلہ کرنے لگے ہیں وہ کہتے ہیں یہ گاڑی اتنی تیز کیوں چلارہا ہے۔ اُسے کہاں جانا ہے اپنے فاصلے جلد طے کرکے کیا حاصل کرلے گا۔

ہاں ایک بات ضرور ہے جب بھی وہ کوئی فاصلہ جلد طے کرتا اُسے کامیابی کے انعام ملتے تعریف ہوتی اور ترقی ملتی۔ شائد یہی وہ بنیادی وجہ تھی جسے ذھن میں پال لیا تھا۔ اُسے جواب طلب سوالوں سے بھی سروکار نہیں رہا۔ اب وہ نئے جواب تلاش کرتا اور نئے خواب تراشتا۔ کبھی ایسا بھی تھا بڑوں کے ساتھ بیٹھتا باتیں کرتا مگر اب مصروفیت کی بدنامی کا طوق گلے میں ڈال لیا۔ اپنے یہی سوال کرتے وہ ایسا کیوں ہوگیا، وہ ایسا ہرگز نہیں تھا وہ حالات کا مارا ہے وہ ٹھیک ہوجائے گا وہ بدل گیا ہے۔

مگر اُسے سڑک پر ریس لگانے کا جنون تھا۔ سب اُس کے بارے میں فکرمند رہتے، کئی بار اُس کے چھوٹے موٹے حادثے بھی ہونے لگے۔ اب ڈرائیونگ کرتے وہ دل میں اتار چڑھاؤ سے دوچار ہوجاتا۔ اُس نے بھی سوال کرنا شروع کردیئے وہ دل کی اس حرکت سے بڑا چڑتا کہ تم نے بھی ذھن والے کام پکڑ لیے۔

اُسے احساس تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ غلط ضرور کررہا ہے، گاڑی مناسب رفتار میں قواعد و ضوابط کے مطابق چلانا ہوگی۔ گاڑی کے بھی اپنے تقاضے اور سڑک بھی اُسے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ اُسے ان سب کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ گاڑی اب پُرانی ہوچکی ہے، اُس کے کئی پارٹس درست طریقے سے کام نہیں کرپاتے۔ الفاظ کے پیٹرول، حوصلے اور تعاون کے انجن آئل میں بھی کمی آگئی ہے۔

نہیں اُس کا اس طرح سفر ممکن نہیں، وہ توازن لانے کی کوشش کررہا ہے ابھی بہت وقت ہے لیکن شائد نہیں۔

ایک دن پیچھے سے آنے والی تیز رفتار گاڑی نے ایسی ٹکر ماری کی سب کچھ تباہ ہوگیا۔ الفاط، سوال حرکات جواب آڑانیں تجسس سب کچھ بکھر گیا۔

اپنے غیر دیکھتے رہ گئے، سب نے ایک ساتھ آواز بلند کی۔

 وہ کون تھا۔۔۔۔۔۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar