میری نہیں، یہ پانی کی کہانی ہے!


پاکستان میں، جیسی تیسی جمہوریت کے مسلسل دس سال پورے ہوئے۔ مبارک ہو۔ اگلی اسمبلیاں منتخب کرنے کے لیے، چند ہی دن میں، نہ صرف امیدواروں کا اعلان مکمل ہو جائے گا بلکہ، انتخابی سرگرمیاں بھی شروع ہو جائیں گی۔

میری معلومات کے مطابق ابھی تک تینوں بڑی قومی سیاسی جماعتوں نے اپنے نئے انتخابی منشور کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے علاوہ وہ ہر مسئلے پہ بات کر چکے ہیں بشمول اپنے مخالفین کی خواب گاہوں کے رازوں کے۔

میرے نزدیک اس وقت پاکستان کے تین بڑے مسائل میں سے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ پانی ہے۔

پانی کا نام آتے ہی ہم ’کالا باغ ڈیم‘ کا مردہ پیٹنے اور لسانی سیاست کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ زیادہ سوچیں گے تو ہندوستان کو کوسنا پیٹنا شروع کر دیں گے، لیکن ہم اب خطرے کے نشان سے بہت آگے آچکے ہیں۔

ان انتخابات میں جس جماعت کو بھی چنا جائے اس کے منشور میں ‘واٹر ایمر جنسی’ ضرورشامل ہونی چاہیے۔ میری ناقص عقل اور کم علم کے مطابق، میٹھے پانی کے ذرائع، گلیشیئرز، دریا، بارشیں، برفباری اور زیرِ زمین پانی ہیں۔

پاکستان کے بڑے دریا دنیا کے عظیم ترین پہاڑی سلسلوں سے نکلتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے باعث، گلیشیئرز کا حجم ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔ بارشیں اور برفباری کا سالہاسال سے جاری سلسلہ بھی موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے۔ چنانچہ دریاؤں میں پانی کی آمد پہ اثر پڑ رہا ہے اور اگلے سالوں میں یہ مزید متاثر ہو سکتی ہے۔

آج کے انسانی معاشرے میں پانی، عام صارف کے پینے، نہانے، کپڑے دھونے، برتن دھونے اور دیگر مصارف میں استعمال ہو رہا ہے۔ زراعت کا کلی انحصار پانی پہ ہے۔

پینے کا پانی، ہندوستان اور پاکستان میں صدیوں سے کنوؤں کے ذریعے حاصل کیا جا رہا ہے۔ زیرِ زمین پانی کے ذخائر بہترین فلٹر سمجھے جاتے ہیں، ماسوائے ان کنوؤں کے، جن کا پانی کھارا ہوتا ہے۔

کچھ عرصے پہلے تک پاکستان کی زراعت کا سب سے بڑا مسئلہ، سیم اور تھور تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پنجاب کے سارے دریا بہا کرتے تھے۔ سندھ طاس معاہدے کے ساتھ ہی آب پاشی کا ایک اور نظام، جو انگریز کے نہری نظام ہی کی توسیع تھا متعارف کرایا گیا۔

اس پہ جو کام ہوا اور جو باقی رہ گیا وہ ایک طویل کہانی ہے جو قریباً سب ہی کو معلوم ہے۔

یہ معاہدہ اور اس کے ساتھ منسلک شقیں ایک سیاسی نظام اور انسانی انتظام کے ساتھ پیوست تھیں۔ مصیبت یہ ہے کہ دریاؤں، ندیوں، نالوں کا اپنا نظام ہوتا ہے۔ دریا ان کی گزرگاہیں، ان سے بننے والے میدان، ان کو سیراب کرنے والی کھاڑیاں، پوکھر، سب ایک بہت بڑے قدرتی منصوبے کا حصہ ہیں۔

جب انسان نے اس منصوبے کے سامنے اپنا منصوبہ رکھ دیا تو گڑ بڑ شروع ہو گئی۔ آدھا پنجاب راتوں رات، نہری سے چاہی ہو گیا۔ یہ چاہ اس وقت تک، زیادہ تر رہٹ کی طرز پہ بنے ہوئے تھے۔ بیل یا اونٹ، کتنا پانی کھینچ سکتے تھے؟

ٹیوب ویل آئے اور ہم سب، تشکر کے مارے اوندھے ہو گئے کہ اس طرح نہ صرف زیرِ زمین پانی کی سطح مناسب ہو جائے گی جس سے سیم تھور کا مسئلہ کسی حد تک حل ہو جائے گا بلکہ گاؤں، گاؤں بجلی بھی پہنچ جائے گی۔ بجلی پہنچی نہ پہنچی کالے انجن، جو مٹی کے تیل سے چلتے تھے ضرور پہنچ گئے۔ اس وقت پانی پندرہ فٹ سے بھی اوپر تھا۔ کسی کو بھی کسی بھی بات کی فکر نہ تھی۔

پاکستان

زرعی کنکشن، سبسڈائیز ہوتے تھے۔ ٹیوب ویل دن رات چلا کرتے تھے۔ نہری پانی باری سے ملتا تھا اور کسی کو اس کی پروا بھی نہ رہ گئی تھی۔ سوائے شوقیہ لڑائی جھگڑے کے نہری پانی، ٹیوب ویل کے پانی کے سامنے اتنا اہم نہ رہ گیا تھا۔

شہری زندگیوں میں پانی بے دریغ استعمال ہونا شروع ہوا۔ پختہ سڑکیں، پختہ نالیاں، پختہ صحن، پختہ سیوریج سسٹم، پانی کو زمین میں جذب نہیں ہونے دیتے اور یہ سارا پانی ڈرین کے ذریعے گندے نالوں اور وہاں سے سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔

ڈیموں میں گزرتے وقت کے ساتھ، مٹی کی سطح بڑھتی گئی اور ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی گئی۔ جو بجلی گاؤں گاؤں پہنچی تھی اسے بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ کیا ہوا اور بجلی کا بحران کیسے پیدا ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں قابلِ کاشت اور زرخیز ترین زمینوں پہ بے سوچے سمجھے صنعتیں لگائی گئیں۔

ان صنعتوں کا آلودہ پانی، میٹھے پانیوں کے ذخیروں میں نہایت بے ملالی سے ڈالا جاتا رہا۔ آج ان دریاؤں اور نہروں کا پانی دیکھیے، کثیف پانی پہ ملگجی جھاگ دور ہی سے نظر آجاتی ہے اور کیمیائی تجزیے کے بغیر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ پانی کس قدر ضرر رساں ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).