خدیجہ صدیقی کو انصاف کون دے گا؟


میں شروع میں دو باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں۔ ایک کہ میں عبرتناک سزاوں اور پھانسی کی سزا کے خلاف ہوں۔ دوسرا میں اپنے گلے سڑے نظام انصاف کے بارے میں بھی پوری طرح ادراک رکھتا ہوں۔ تو پھر آپ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ تم محترمہ خدیجہ صدیقی کے لئے انصاف کیوں اور کس سے مانگ رہے ہو؟

جب سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار نعیم نے خدیجہ صدیقی کے خلاف اقدام قتل کے ’مجرم‘ شاہ حسین کو باعزت بری کیا ہے سول سوسائٹی اور باشعور لوگوں میں غم و غصہ اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ خدیجہ صدیقی کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں بھی ان میں شامل ہوں۔ میں ذاتی طور پر ’بابا رحمتے‘ کے ہر کام میں ’ٹانگ اڑانے‘ کے خلاف ہوں مگر کیا کیا جائے کہ اس گلے سڑے انصاف کے نظام میں ہر کوئی ان کی طرف دیکھتا ہے اور وہ بھی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ عوام ان کی طرف متوجہ ہوں اور انہیں سے انصاف طلب کریں۔ میری نظر میں یہ وقتی طور پر پیٹ درد کا تو علاج ہو سکتا ہے مگر کینسر زدہ نظام انصاف کے علاج کے لئے کوئی مفید نسخہ نہیں ہے۔

اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں سب سے اہم کیا تبدیلی آئی ہے تو میں کہتا ہوں کہ ’عورتوں کا انقلاب‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے بچپن میں دیکھا کہ معاشرہ میں عورت کا کوئی مقام نہیں تھا وہ مرد کے پیچھے شٹل کاک برقع پہنے چل رہی تھی۔ نوکریوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا صرف چند پیشے عورتوں کے لئے مخصوص تھے اور گھر سے باہر کام یا ملازمت کے لئے جانے والی عورت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔

پاکستان میں سرمایہ داری کے نتیجہ میں آج عورت پاکستانی سماج میں ہر شعبہ زندگی میں موجود ہے اور اس کے کردار، شراکت داری سے انکار ممکن نہیں ہے۔ بلکہ کئی شعبوں خاص کر تعلیم میں تو عورتوں نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

میں ایک زمانے میں ماڈل ٹاون لاہور میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا اور اکثر عام وین میں سفر کرتا تھا میں صبح سینکڑوں بچیوں کو لوگوں کے گھروں میں کام کرنے جاتی دیکھتا تھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ عورت اس بات کا خیال نہیں کرتی تھی کہ اسے الگ سیٹ ملی ہے کہ نہیں بس اسے کام کے بعد گھر واپس جانے کی جلدی ہوتی تھی کیونکہ اس نے اپنے بچے کو دودھ پلانا ہوتا تھا اور گھر جا کر کھانا پکانا ہوتا تھا۔

پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے لئے بہت ساری تنظیموں نے کام کیا سب سے اوپر اپوا کا نام آتا ہے۔ اگر آپ شخصیات کا نام لیں تو محترمہ فاطمہ جناح، نسیم ولی خان، طاہرہ مظہر علی، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو اور بہت سارے دوسرے نام آتے ہیں۔

آج پاکستان میں اسمبلیوں میں عورتوں کی 33 % نمائندگی ہے۔ وہ پارلیمانی نظام میں بہت اہم اور بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔

پاکستان میں National Commission  on Status of Women بھی ہے جس کی صوبائی شاخیں بھی ہیں۔ عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قوانین بھی بنائے گئے ہیں،عورتوں کو جائداد میں حصہ نہ دینا ایک جرم ہے۔ نچلی سطح پر عدلیہ میں بھی عورتیں کام کر رہی ہیں گو سپریم کورٹ میں آج تک کوئی عورت جج نہیں بنی۔ ابھی حال ہی میں پنجاب سرکار نے عورتوں کو موٹر سائکل بھی دئیے ہیں۔

آپ یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بھئی آپ نے معاشرہ میں عورت کے مقام میں اتنی بڑی تبدیلیوں کا ذکر کیا پھر خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کیوں ہوا اور سب سے بڑھ کر مجرم کو لاہور ہائی کورٹ نے باعزت بری بھی کردیا۔ یہ واقعہ لاہور میں دن دہاڑے چند سال پہلے ہوا۔ (اس کو کہتے ہیں کہ قانوں اندھا ہوتا ہے)۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آج اقتصادی ترقی کے باوجود ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر پدر شاہی ،جاگیردارانہ معاشرہ ہے جہاں عورت کو کمتر اور نیچ سمجھا جاتا ہے۔ مجرم شاہ حیسن جس نے خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کیا دراصل ذہنی مریض اور جاگیردارانہ اور پدر شاہی سوچ کا نمائندہ ہے۔ جو عورت کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔ اس کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کوئی عورت اس کی خواہشات کی تکمیل کی نفی کرے گی۔ لہذا اس نے اسے تشدد کا نشانہ بنانا اپنا حق سمجھا۔

خدیجہ صدیقی پاکستان کی ان بہادر عورتوں میں ایک ہیں جنہوں نے حصول انصاف کے لئے آواز اٹھائی اور اس سلسلہ میں انہیں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا یہ آپ ان کے ’ڈان چینل‘ میں انڑویو میں دیکھ سکتے ہیں۔ پہلے تو ہر آدمی بشمول عدلیہ یہ سمجھتا ہے کہ ’عورت ہی آدمی کے جذبات بھڑکاتی ہے‘۔ جو لوگ پاکستانی پولیس کے نظام سے واقف ہیں کہ  FIRلکھوانا اور اس پر سزا دلوانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ پھر جج صاحب کا عورت سے طرح طرح کے سوال کر کے اسے ہراساں کرنا۔ پھر کہنا کہ مقدمہ واپس لے لو۔ سب سے بڑھ کر ایک بڑے صوبہ پنجاب کے گورنر کا مظلومہ کو کہنا کہ ’معاف کردو‘۔ جب ان سب باتوں سے کام نہیں چلا تو پھر ’عدلیہ‘ سے یہ کام لے لیا گیا۔

میں نے جج صاحب کا فیصلہ نہیں پڑھا یقینناً کسی اچھے وکیل نے کوئی نہ کوئی قانونی اور تکنیکی سقم نکال لیا ہوگا۔ لوگ بھول گئے کہ (عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کی امام) مختاراں مائی کے کیس میں بھی مجرم باعزت بری ہو گئے تھے۔ اگر میرا حافظہ مجھے دھوکہ نہیں دے رہا تو موجودہ عبور ی وزیر اعظم جسٹس ناصر الملک نے اس میں اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

میاں ثاقب نثار چیف جسٹس صاحب نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کا نوٹس لے لیا ہے۔ دو سوال سب سے اہم ہیں۔ کیا آپ انصاف کے حصول کی جدوجہد میں مظلوم طبقات کے ساتھ ہیں؟ عورت اس کا سب سے اہم اور بنیادی جز ہے۔ دوسرا کیا عام آدمی کو جلد،سستا انصاف فراہم کرنے کے لئے کوئی پہلا ٹھوس قدم اٹھا لیا گیا ہے؟ پاکستان میں اس وقت انصاف کے کئی نظام رائج ہیں۔ قبائلی جرگہ کا نظام،جاگیردارانہ نظام اور اینگلو سیکسن /اسلامی نظام (کچھڑی) ہیں۔ آج کوئی بھی نظام کام نہیں کر رہا۔

کیونکہ مجرم کا والد وکیل ہے اور مجرم شاہ حسین بھی قانون کا طالب علم ہے اس لئے میں اپنی بات ایک حقیقی واقعہ بتانے کے بعد ختم کرتا ہوں۔ پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں لاہور سمن آباد میں دو قتل ہو گئے۔ قاتل میرے دوست (بعد میں DSJ بنا) کا بھائی تھا میرا دوست لائلپور میں بزرگ وکیل میر قیوم کے پاس گیا اور اسے سارا ماجرا سنایا اور مدد کی اپیل کی۔ میر قیوم کے الفاظ مجھے آج تک نہیں بھولتے۔ He is a murderer he should be hangedسوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہ حسین کے والد میں یہ حوصلہ اور اخلاقی جرات ہے کہ وہ کہتے کہ میرے بیٹے نے جرم کیا ہے اور اسے ضرور سزا ملنی چاہئے! اسے کہتے ہیں معاشرتی انحطاط جب والدین بچوں کے اخلاقی جرم کو چھپاتے ہیں۔

(میں تہمینہ درانی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے خدیجہ صدیقی کی مقدمہ لڑنے میں مالی امداد کی۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ مدعی نے وکلا کے فیس کی مد میں بیس لاکھ روپے خرچ کئے ہیں)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).