پنجاب میں کمسن بچوں کے نظام انصاف پر عملدرآمد کی صورتحال


بچے ہمارے معاشرے کابہت اہم حصہ ہیں اس لیے خصو صی تو جہ او ر اہمیت کے حامل ہیں ۔ بچے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے فائدے اور نقصان کو سمجھ سکیں یا اپنا دفاع کر سکیں۔ اس وجہ سے وہ مختلف زیادتیوں اور نا انصافیوں کا شکار بنتے ہیں۔ بعض مرتبہ بچوں کومختلف جرائم میں پھنسا دیاجاتاہے ، یا وہ اپنے اردگرد کے ماحول، بری صحبت ، اور فرسٹریشن کی وجہ سے چھوٹے بڑے جرائم کر گزرتے ہیں۔ البتہ ایسے بچے جو سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہوں ان کے لیے غیر معمولی بنیادوں پر اور خاص طریقہ کار کے مطابق کاروائی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسطرح کے بچوں کی اصلاح اور ان کی معاشرے میں اسطرح سے شمولیت کے وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں حکومت /ریاست کی ذمہ داری ہے ۔

اس بارے میں ہمارے ملک میں ایک حد تک تو قوانین کتابوں میں ضرور موجود ہیں لیکن ان پر باقاعدہ سے عمل نہیں کیا اور کروایا جا رہا ہے۔ ماضی میں جرائم میں ملوث کمسن بچوں کے لیے قانونی کاروائیاں انہی قوانین کے مطابق کی جاتی تھیں جو قوانین بڑوں کے لیے تھے۔ اس وجہ سے فوجداری قوانین میں بچوں کے لیے الگ نظام قانون کی ضرورت رہی ہے اور اس طرح کے قوانین کا مقصد صرف سزا دینا نہیں بلکہ اخلاقی ، تعلیمی اور فنی تربیت دینا ہے تاکہ ایسے بچوں کی اصلاح ہوسکے۔ اسلامی قوانین میں بھی بچوں سے متعلق سزاؤں کا طریقہ کار مختلف ہے اور انہیں حد اور قصاص جیسی سزاؤں سے استثناء حاصل ہے۔

پاکستان میں سال2000 میں بچوں سے متعلق ـ “جوینائیل جسٹس سسٹم آرڈنینس ـ” 2000 آیا۔ البتہ اس سے قبل صوبہ پنجاب میں Punjab Youthful Offenders Act 1952 موجو دتھا جسکو Repealکر کےPunjab Youthful Offenders Ordinance 1983 بنایا گیا۔ مگر اس آرڈیننس میں صرف دو دفعات کو فعال رکھا گیا اور بقیہ دفعات کے بارے میں یہ کہا گیا کہ حکومت جب چاہے گی بذریعہ نوٹیفیکشن یا آفیشل گزٹ ان کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس آرڈیننس کی دفعہ 2 شق (a) میں بچے کی تعریف یہ کی گئی کہ جسکی عمر 15 سال پوری نہ ہوئی ہو ۔ جبکہ جوینائیل جسٹس سسٹم آرڈنینس 2000 میں بچے کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جسکی عمر ارتقاب جرم کے وقت 18سال سے کم ہو ۔

Punjab Youthful Offenders Ordinance 1983 کے مطابق صوبہ پنجاب میں ،After Care Association, Approved Homes, Place of Safety اور Voluntary Homes بنانے کا ذکر تھا مگر اس قانون پر بھی کوئی خاطرخواہ عمل نہ ہوا۔ بعد ازاں یہ قانون Repeal کر کے “Punjab Destitute and Neglected Children Act 2004” متعارف کرایا گیا۔ اگرچہ یہ قانون بچوں کے جرائم سے متعلق نہیں ہے مگر اس قانون میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چند دفعات کوشامل کیا گیا ۔

بچوں کے جرائم کے حوالے سے اس وقت ملک میں بشمول صوبہ پنجاب “جوینائیل جسٹس سسٹم آرڈنینس ـ” 2000 نافذ ہے۔ مگر اسکی عملی شکل قانون کے مطابق نظر نہیں آتی۔ اس قانون میں بچوں سے متعلق جو خاص شقیں درج کی گئی ہیں وہ اسطرح سے ہیں۔

٭ علاقائی سطح پر ایک یا ایک سے زائد بچوں کی فوج داری عدالتوں کا قیام۔ ہائی کورت ماتحت عدالتوں یا درجہ اول کے جوڈیشل مجسٹریٹ کو جوینائیل کورٹ کے طور پر کام کرنے کا اختیار دے ۔

٭ ایسے بچے جو کسی جر م یا فوجداری مقدمے میں ملوث پائے جائیں انہیں ریاست کی طرف سے قانونی مدد فراہم کی جائے۔ ایسے بچوں کے مقدمات کی سماعت صرف جوینائیل کورٹس کریں گی اور بچوں سے متعلق فوجداری مقدمات چار ماہ کے اند رنمٹائے جائیں گے۔

٭ پولیس اگر کسی بچے کو کسی جرم میں گرفتار کرے گی تو فوری طورپر گرفتاری کی اطلاع اسکے گھر والوں کو دے گی اور انہیں جرم ، وقت اور تاریخ کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا اور یہ بھی کے بچے کو کونسی جوینائیل کورٹ میں پیش کیا جاناہے۔

٭ قابل ضمانت جر م میں بچوں کو معقول ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔

٭ ایسا بچہ جسکی عمر 15سال سے کم ہو اور اس سے ناقابل ضمانت جرم سرزد ہوجائے تو عدالت ایسے جرم کوقابل ضمانت تصور کرکے بچے کی ضمانت منظور کر لے گی۔ البتہ ایسا بچہ جسکی عمر 15سال سے زائد ہو اور 18سال سے کم ہو اور اس سے کوئی سنگین جرم سرزد ہو تو پھر ضمانت عدالت کی ثوابدید پر منظورہوگی۔ کسی بچے کو ہتھکڑی یا بیڑیاں نہیں لگائی جائیں گی۔ دوران قید کسی بچے سے مشقت نہیں کرائی جائے گی اور نہ ہی اسے کوئی جسمانی سزا دی جائے گی۔ پروبیشن آفیسر بچے کے کردار سے متعلق رپورٹ بنا کر متعلقہ جوینائیل کورٹ کو فراہم کرے گا۔ بچے سے متعلق کوئی شناخت یا جوینائیل عدالت کی کارروائی سے متعلق کوئی بات کسی اخباریا جریدے وغیرہ میں نہیں چھاپی جائے گی۔

٭ کسی بچے کوسزائے موت نہیں دی جائے گی۔
٭ اگرکسی بچے کی عمر کے متعلق کوئی سوال یا اعتراض ہو تو اسکا تعین عدالت بذریعہ انکوائری یا میڈیکل رپورٹ کرے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ قوانین پر عمل انکی حقیقی روح کے مطابق کیا جائے۔
پاکستان میں اس قانون کو پڑھنے، جاننے اور نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).