ماں کے جنازے کا حساب


دوسرے دن میت آغاخان اسپتال سے گھر آئی۔

آنسوﺅں کے سیلاب میں امی کو قبرستان بھیج دیا گیا۔ شام کو راتوں کے جاگے ہوئے ہم سب باہر ورانڈے میں ہی بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ پانچوں خواتین یکا یک گھر میں داخل ہوگئیں اور باآواز بلند انہوں نے میرے بھائیوں سے کہا کہ اب آپ لوگوں کو سوئم، تیرہویں اور چالیسواں کی بدعت کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ سب کچھ حرام ہے اللہ کو پسند نہیں، یہ تو ہندوﺅں کی رسومات ہیں، بدعت ہیں جو ہم میں آگئی ہیں اور اگر آپ لوگوں نے یہ کیا تو نہ صرف یہ کہ آپ کی والدہ کو گناہ ہوگا جس کی معافی مانگنے کی اب ان کی حیثیت نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو تو گناہ کے ساتھ بڑی سزا بھی ہوسکتی ہے اﷲ کے ہاتھ میں کیا کیا ہے اس کا اندازہ نہیں ہے آپ کو، وہ رحیم ہے، رحم کرتا ہے مگر اس کا قہر ایسا ہے کہ آپ سے برداشت نہیں ہوگا۔ ہم اللہ کے لئے اللہ کی طرف سے آپ لوگوں کو سمجھا رہے ہیں اگر آپ مانیں گے تو آپ کا ہی بھلا ہے اور نہیں مانیں گے تو آپ کا ہی نقصان ہے۔

میرے بھائی نے کہا کہ یہ اُن کا مسئلہ نہیں ہے کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں سپارے پڑھیں، کہ ورد کریں، سوئم منائیں کہ چالیسواں کریں اور مناسب یہ ہے کہ وہ لوگ فوراً ہمارا گھر چھوڑ جائیں۔ ہمیں مسلمانی کی سند آپ سے نہیں چاہئیے، ہم کیسے خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور کیسے عبادت کرتے یہں، یہ سب کچھ ہمارا مسئلہ ہے۔ آپ لوگ بغیر کسی دعوت کے ہمارے گھر میں گھس آئے ہیں اور ہمیں اپنی طرح کا اسلام پڑھانے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ بالکل ہی قابل قبول نہیں ہے۔

یہ آپ کا گھر ہے اور آپ کے کہنے پر ہم چھوڑ بھی جائیں گے مگر میں آپ لوگوں کو بتا دوں کہ پچھلے مہینے فیز چار کے ایک گھروالوں نے ہماری بات نہیں مانی اور وہ ساری بدعتیں کی تھیں جو منع ہیں اس کا انجام یہ ہوا کہ وہاں دو بھائیوں کی ایک ساتھ موت ہوگئی آپ لوگ بھی باہر سے آئے ہیں آپ کو بھی واپس جانا ہے۔ اس طرح کی بدعت کے بعد آپ لوگوں کا بھی جہاز پھٹ سکتا ہے راستے میں حادثہ ہوسکتا ہے۔ جل جلالہ کب کیا کردیں کس کو پتہ ہے مگر آپ لوگوں کو پتہ ہونا چاہئیے کہ اللہ نے شرک اور بدعت کو نا پسند کیا ہے۔ آخر میں یہ بھی کہ آپ اﷲ کا نام لیں خدا نہیں کہیں کہ یہ بھی غیر اسلامی ہے۔ ہمارا کام سمجھانا ہے جو ہم نے اﷲ کے حکم سے کر دیا ہے، اب اﷲ ہی آپ سے سمجھے گا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ تک ہم نے اﷲ کی بات اور حکم پہنچایا نہیں ہے۔ “ یہ کہہ کر وہ لوگ چلے گئے۔

سلیم کو بہت غصہ آیا یہ کیا بکواس ہے یہ کون لوگ ہیں یہ جو ہمیں آکر اسلام پڑھا رہے ہیں ہماری مرضی ہے ہم بدعت کریں کہ نہ کریں۔ غصہ تو سب کو ہی آیا تھا مگر اظہار سلیم نے کیا بلکہ سلیم نے فوراً ہی پولیس اسٹیشن فون کیا اور تھانیدار کو بتایا کہ اس طرح سے گھر میں عورتیں آئیں جن کے ساتھ ایک وین میں لوگ بھی تھے اور ان کے پاس اسلحہ بھی تھا۔

ہم سب حیران ہوگئے جب سلیم نے بتایا کہ تھانیدار کو اس بات کا علم تھا، نہ صرف یہ کہ اسے علم تھا بلکہ اس نے بھی سمجھایا کہ وہ عورتیں صحیح اسلام پھیلا رہی ہیں اور اسلامی ملک میں صحیح اسلام پھیلانے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اس کے شہریوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے پیغام کو سمجھیں۔ یہ تو نیک کام کرنے والی، راہ راست پر چلنے والی، اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے والی پارسا خواتین ہیں جو سوسائٹی میں پھیلی ہوئی بدعت کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور اس کام کے لئے شہید بھی ہونے کو تیار ہیں۔ پھر یہ سوال بھی کیا کہ کیاآپ لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ اس اسلامی ملک میں صحیح اسلام پھیلے۔ لوگ بدعت نہ کریں، شرک نہ کریں، موت و پیدائش پر اﷲ کے قانون کے مطابق کام کریں۔ یہ عورتیں اور یہ لوگ تو اچھا کام کررہے ہیں اچھے کام سے انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے۔

 یہ بات بڑی تشویش کی تھی کسی کے سمجھ میں کچھ نہیں آیا میرے دونوں بھائیوں کا خیال تھا کہ کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے امی کو دفن کردیا گیا ہے اور اب خاموش ہی رہنا چاہئیے۔ ویسے بھی وہ عورتیں بری بری بدعائیں دے کر گئی ہیں پولیس والے بھی ان کے ساتھ ہیں کچھ بھی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

پھر یہی ہوا تھا نہ سپارے پڑھے گئے نا دانوں پر ورد ہوا نہ سوئم میں لوگ جمع ہوئے۔ امریکہ، کینیڈا سے آنے والے بھائی بہن بُری طرح سے ڈرگئے تھے۔ ان کا ڈرنا بھی بجا تھا۔ پاکستان کے بارے میں وہ لوگ وہاں پر عجیب و غریب باتیں پڑھتے اور سنتے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے یہ مذہبی لوگ بدعت کے خلاف جہاد کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ شاید ان کی بات صحیح بھی ہو۔

دس دن میں بھائی بہن اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے سلیم پندرہ دن کے بعد گیا یہ کہہ کر کہ تین ماہ میں اس کا کنٹریکٹ ختم ہوجائے گا پھر وہ واپس آجائے گا۔ امی کی موت کا صدمہ تو تھا ہی مگر یہ سب کچھ بہت برا لگا تھا مجھے۔ اپنا ہی گھر غیر کا گھر ہوگیا تھا جہاں آنے والے مہمان اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ کچھ کہہ سکے نہ کچھ کرسکے۔ رشتہ داروں کو گھر بلا کر نہ مل سکے، نہ سُن سکے، نہ روسکے، نہ دعا کرسکے۔ ایک تشنگی لئے ہوئے سب لوگ واپس چلے گئے۔ ڈرے ہوئے سہمے ہوئے کہ کہیں جہاز نہ پھٹ جائے۔

میں سوچتی رہی اور سمجھنے کی کوشش کرتی رہی بھائی بہنوں کے فون مسلسل آرہے تھے جو واپس جاکر سمجھنے کی کوشش کررہے تھے کہ یہ کون سا تبلیغ کا طریقہ تھا یہ کیسے لوگ تھے کون لوگ تھے جنہیں پولیس کی حمایت حاصل تھی جن کی مرضی سے بدعت کے خلاف جنگ لڑی جارہی تھی اگر پولیس بھی یہی سب کچھ کرے گی تو عام لوگ کیا کریں گے۔ کون محفوظ ہے بدعت کے خلاف جہاد کرنے والوں سے۔

مجھے سوچنے اور فیصلہ کرنے میں بہت دیر نہیں لگی۔ میں نے سلیم کو فون کرکے کہہ دیا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئے میں بھی امریکہ آ رہی ہوں وہیں رہوں گی،ماں کے لئے سپارہ تو پڑھ سکوں گی سوئم پر رو تو سکوں گی پولیس تو مجھے نہیں روکے گی نا، گھر میں تو کوئی نہیں گھسے گا میرا گھر میرا ہی گھر ہوگا چاہے میں بدعت کروں یا نہ کروں، میرا خدا میرا حساب لے گا، یہ جہادی نہیں !

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3