ایدھی کے جھولے سے اللہ کے گھر تک


سڑک کنارے، کوڑے دان اور قبرستانوں میں نومولود بچے زندہ اور مردہ حالت میں ملنے کے واقعات ہمارے ملک میں عام ہیں۔ ایسا ہی واقعہ گزشتہ روز جنوبی پنجاب کے علاقہ دنیا پور میں پیش آیا ہے۔ جہاں مسجد کے احاطے سے نوزائیدہ بچی ملی، علاقہ مکین نمازفجر کی ادائیگی کے لئے آئے تو بچی کومسجد میں پایا، اس کے ساتھ ہی پولیس کو اطلاع دی گئی پولیس نے بچی کو تحویل میں لے لیا اور رات کے اندھیرے میں بچی کو مسجد کی گود میں ڈالنے والے والدین کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔

حلال و حرام کے معنی سے انجان، شرعی و غیر شرعی سے لا علم، معاشرے کے اصول ضوابط اور رسم و رواج کی کریہہ حقیت سے نا واقف، اپنے پیدا کرنے اور پھینکنے والوں سے اپنا قصور پوچھنے سے قاصر، اس بے حس معاشرے میں کھلنے والی ننھی کلی نے اللہ کے گھر میں پناہ لے لی۔ ٹھیک کہتے ہیں جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا وہ رب ہوتا ہے۔ اسی رب کے کچھ نیک بندے انسانیت کی خاطر ان ٹھکرائے ہوئے ننھے پھولوں کو اپنے آنگن کی کیاری میں سجا کر پروان چڑھاتے ہیں۔

پاکستان میں کئی ایسے غیر سرکاری فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں جو ایسے لاوارث بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ایدھی فاونڈیشن کے ملک بھر میں سینکڑوں مراکز قائم ہیں جن کے باہر جھولے لگائے گئے ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کو اس بات کی جانب آمادہ کرنا ہے کہ وہ ایسے بچے جن کی پرورش وہ نہیں کرنا چاہتے انہیں قتل کرنے یا کسی گلی محلے اور کوڑے دان میں پھینکنے کے بجائے ان جھولوں میں ڈال دیں۔ یہ ادارہ ان بچوں کی ناصرف پرورش کرتا ہے بلکہ ان کو تعلیم و تربیت سے اچھا شہری بناتا ہے یہاں تک کہ بے اولاد جوڑے جو بچہ گود لینے کے خواہش مند ہوتے ہیں ادارہ ان کی مکمل چھان بین کے بعد بچہ ان کے حوالے کرتا ہے، معصوم جانوں کو درندوں کی خوراک بننے سے بچانے والے ادارے کو بھی بد قسمتی سے ہمارے ہاں شدید تنقید کا سامنا رہا ہے اور اب تک اسلام کے کئی ٹھیکے داروں کا کہنا یہی ہے کہ ایدھی کا جھولا حرام کو ترغیب دیتا ہے۔ کیا وہ بھول چکے ہیں کہ ا سلام میں تو یہ بھی کہا گیا کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا یا۔ ڈر اس بات کا ہے اب یہ نا کہہ دیا جائے کہ ایسے لاوارث بچے اسلام کے دائرے سے باہر ہونے کے ساتھ انسانیت کے دائرے سے بھی باہر ہیں سو ان کو بچانا اتنا اہم نہیں ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایدھی کے جھولے میں پلنے والے سب بچے زنا کی پیداوار ہیں جبکہ ان بچوں کو گمنام چھوڑ دینے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو زیادتی کے باعث مائیں بن جاتی ہیں اور معاشرے میں بدنامی کے خوف سے ان کی پرورش نہیں کرنا چاہتی۔ بعض عورتیں دوسری شادی کے لئے بچے چھوڑ جاتی ہیں۔ اور بعض غربت اور دیگر مجبوریوں کے باعث بچے کی پرورش سے دستبردار ہوتی ہیں، چھیپا اور ایدھی جیسے کئی فلاحی اداروں کے مطابق زندہ یا مردہ حالت میں پائے جانے والے بچوں میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹے پیدا کرنے کا معاشرتی دباو یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والی لڑکیوں کو کوڑے دانوں یا قبرستانوں تک پہنچاتا ہے۔ اور کئی ننھی پریاں اپنے آنگن کی رونق بننے کی بجائے کوڑے دانوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ کوڑا چننے والے لوگ ایسے بچوں کو دریافت کرتے ہیں جن میں زیادہ تر بچوں کے جسمانی اعضا چیل کوے یا آ وارہ کتے نوچ چکے ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو آپ کی نظر سے بھی گزری ہوگی جس میں آوارہ کتا نومولود بچے کی لاش کو منہ میں دبائے سڑکوں پر گھوم رہا ہے۔ اس معصوم کو جھولے میں نہیں ڈالا گیا تو درندوں کے سپرد کر دیا گیا۔ جو بچہ نہیں رکھنا چاہتا وہ ہر صورت میں نہیں رکھے گا۔ وہ اس کو مار کر پھینک دے گا، گلا دبا دے گا، سانس روک دے گا اور اگر زندہ کہیں پھینک دیا گیا تو جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن جائے گا یا غلط ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ تو کیوں گنہگار ہے وہ جھولا جس میں ڈالے گئے بچے کی کم سے کم جان تو بچ جائے گی، جانوروں کی خوراک تو نہیں بنے گا، اس کو تعلیم اور کھانا تو مل جائے گا۔

اگر جھولا غلط کام کو ترغیب دے رہا ہے تو کیا لگتا ہے اگر ایسے ادارو ں کو جھولوں کو ختم کر دیا جائے تو معاشرے سے بے راہ روی ختم ہو جائے گی؟

ہمیں معاشرے کی اس بے حسی کو ختم کرنے کے لئے انفرادی طور پر مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ اپنی اپنی جگہ پر اس معاشرے کو بدلنے اور بہتر سے بہتر کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہو گا۔

ہمارے ملک میں غربت ہے، بے روزگاری ہے، منصوبہ بندی نہیں ہے، تعلیم عام نہیں ہے اگر سیاسی برادری ازم اور موروثی تعلق داری سے نکل کر ووٹ کا صحیح استعمال کر کے ملک کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں تو غربت اور بے روز گاری ختم ہو گی، صحت اور تعلیم عام ہو گی، تعلیم کے با آسانی حصول سے نئی نسل با شعور ہو گی کہ وہ صحیح اور غلط کا انتخاب کر سکیں تو بے راہ روی بھی ختم ہو سکتی ہے اور ان جھولوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).