نسٹ کے طالب علم محمد مرسلین کا معافی نامہ اور میرا ذاتی تجربہ


جب بات اس نوجوان کی اپنی ذات پر آئی تو اس نے معافی کا راستہ بھی چنا، الفاظ بھی واپس لئے اور یہ یقین دہانی بھی کروا دی کہ مستقبل میں وہ ایسا نہیں کرے گا۔ یہ وعدہ اور دعوی محض دوسروں کو تسلی دینے کا ایک بہانہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ اس سوچ کے مالک ذہن کبھی بھی اپنی روش نہیں بدلتے، یہ یو ٹرن تب لیتے ہیں جب ان سے ان کی من پسند شے یا وہ جو ان کے عزت و وقار میں کمی لائے اس کے چھن جانے کا ان کو یقین ہوچلے، تب یہ پیروں میں بھی گر سکتے ہیں۔ معافی بھی مانگ سکتے ہیں اور آئندہ سب اچھا ہوگا کا یقین بھی دلا سکتے ہیں۔

 ” جو بھی عورت گھر سے باہر نوکری کے لئے قدم رکھتی ہے اسے مرد کی ہر بات سننا ہوگی کیونکہ اس نے اپنے لئے ذلت کا راستہ خود چنا ہے ویسے بھی د فتر اور وہ بھی میڈیا میں کام کرنے والی لڑکیاں کون سی پارسا ہوتی ہیں”۔

 2014 میں کئی ماہ کی ذہنی اذیت برداشت کرنے کے بعد جب میں نے اپنے ایک کولیگ کے خلاف ادارے میں شکایت کی تو اس شکایتی کونسل میں اس ایک جملے کو ناقابل برداشت قرار دیا گیا۔ میں بھی دیگر لڑکیوں کی طرح خاموشی سے برداشت کرتی رہی ۔ لیکن جب بات کردار اور تربیت پر آئی تو مجھے بتانا پڑا کہ عورت کمزور نہیں ہوتی۔ جس شخص کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اسے نوکری سے برخاست کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ تمام شہادتیں اس کے خلاف گئیں۔ یہاں تک کہ جب اسے انتظامیہ نے ایک موقع دیا کہ وہ دو لوگوں کی موجودگی میں مجھ سے اپنے کئے کی معافی مانگے تو اس کا معافی مانگنے کا انداز پہلے مودبانہ رہا اور پھر جب میری جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو اس نے ان دو لوگوں کے سامنے مجھے یہ دھمکی دے ڈالی یا تو اپنے جانی نقصان کے لئے تیار رہو یا پھر اس الزام کے لئے کہ تم نے کچھ نامعلوم افراد کے ذریعے مجھ پر حملہ کروایا ہے، کورٹ کچہریوں کے دھکے کھا کھا کر عقل ٹھکانے آجائے گی جب انصاف بھی نہیں ملے گا اور انگلیاں بھی ا ٹھیں گی۔ کیونکہ عدالتیں بھی جانتی ہیں کہ جو لڑکیاں گھر سے باہر کام کرنے نکلیں وہ ہوتی کیا ہیں؟ ( شاید خدیجہ صدیقی بھی ایسی ہی کسی سوچ کے حامل منصف سے انصاف لینے گئی ہوگی تب ہی اس کو انصاف نہیں ملا بلکہ الٹا بدکرداری کا سرٹیفیکیٹ جاری ہو گیا)۔

خیر جب موصوف کو نوکری سے فارغ کرنے اشارہ واضح ملا تو چند گھنٹوں کے بعد اس کے والدین کے میرے پاس نہ صرف فون آئے بلکہ اس کی والدہ کا یہ جملہ بھی تھا کہ اگر میرے بیٹے کی نوکری ختم ہوئی تو ہم اسے تمہارے خلاف کسی بھی حد تک جانے کے لئے نہیں روک پائیں گے اس لئے نرمی کا مظاہرہ کرو، وہ مرد ہے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ تم عورت ہو، یہ مت بھولو۔ اس ایک جملے نے مجھے سمجھا دیا کہ کیسے مائیں پسماندہ ذہنیت رکھنے والے بیٹوں کی صحت بنانے میں ان کی ضدیں پوری کرنے میں اور باپ محنت کر کے انھیں قابل بنانے میں بوڑھے ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ جہاں محنت کر رہے ہوتے ہیں، وہ زمانے کو نظر آئے، اس کی انھیں فکر ہوتی ہے۔ لیکن جہاں محنت کی اشد ضرورت ہے اسے وہ بھول جاتے ہیں۔ تب ہی ایک دفتر میں خوش گفتار، برینڈڈ کپڑوں اور دلفریب خوشبووں سے معطر شخص جب اپنی نشست سنبھالتا ہے تو اس کے آس پاس بیٹھنے والوں کو وہ آئیڈیل اور قابل رشک دکھائی دے رہا ہوتا ہے ۔ لیکن اس کا ذہن کسی غلیظ گٹر کی مانند ہر وقت ابل رہا ہوتا ہے یہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔ یہ ان ہی پر آشکار ہوتا ہے جو اس گھٹیا سوچ کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں۔ ایسی ہی سوچ رکھنے والے کو آج سے چند برس پہلے ایک ماں نے بچایا اور مجھے مجبور کیا گیا کہ میں اپنی شکایت واپس بھلے نہ لوں ۔ لیکن ان کے بیٹے کی نوکری بچا لوں۔ یہ تو ایک ماں کے الفاظ تھے لیکن مرسلین کے الفاظ سے ملتے جلتے کچھ جملے میری سماعت کو بھی ٹکرائے تھے جب مجھے کہا گیا کہ ۔۔۔۔

 ” مجھ سے غلطی ہوگئی، مجھے سکھایا ہی نہیں گیا تھا کہ عورت ذات کی عزت کس طرح کرنی ہے۔ میں آج سے ہر عورت کی عزت کروں گا۔ کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے کسی بھی عورت کو تکلیف پہنچے۔ بس خدارا میری نوکری بچا لو ورنہ میرا اور میرے والدین کا کیا ہوگا؟ وہ لوگوں کو کیسے بتائیں گے کہ ان کا بیٹا کس جرم میں ادارے سے فائر کیا گیا۔ میری بہت بدنامی ہوگی “۔

تو جناب آپ کا بیٹا سرکاری اسکول سے پڑھے یا او لیول سے، آپ اسے مقامی جامعہ بھیجیں یا ولایت۔ ابا اپنی خواہشات اور ضروریات کی قربانی دے کر نوکری سے پیسے بچا بچا کر اس کی بھاری بھرکم فیسیں ادا کریں یا زمینوں سے آنے والا پیسہ اس پر لگ جائے اس ساری محنت کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی تربیت بھی کیجئے۔ ورنہ آپ کا بیٹا ہر اعتبار سے بہترین ہے۔ اس کی صحت، شخصیت، تنخواہ، ڈگری، منصب سب کچھ قابل رشک ہے ۔ لیکن وہ ذہنی طور پر اتنا پسماندہ ہے کہ اگر اسے ذہنی معذوری کا بھی کوئی نام دے تو یہ توہین ہے ان ذہنوں کے ساتھ جو نہ فطین ہیں نہ ذہین نہ ہی کند ذہن لیکن کسی کے لئے برا نہیں سوچتے پھر بھی دنیا انھیں دنیا ذہنی معذور کا نا م دیتی ہے جو کہ میرے خیال سے درست نہیں۔

نوٹ: ڈگری، نوکری، عزت، نیک نامی بچانے کے لئے عورت کی عزت کرنے کی قسم کھانے والوں سے ہوشیار رہیں کیونکہ صفائی کا ٹھیکہ بھلے کسی معیاری کمپنی کو میسر آجائے لیکن باقیات پھر بھی رہ جانے کا امکان باقی ہے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar