شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں ٹکٹوں پر اختیار کے لئے کھلی جنگ: عمران خان بے بس


تحریک انصاف میں ایک مرتبہ پھر ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ پر اقربا پروری نے غلبہ پا لیا ہے۔ عمران خان جنوبی پنجاب کے دونوں دھڑوں کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہو چکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں ذاتی عناد اور چپقلش اب ایک دوسرے کو پچھاڑنے اور اقربا پروری کی جنگ میں بدل چکی ہے جس سے جنوبی پنجاب میں نہ صرف تحریک انصاف کو دھچکا پہنچ رہا ہے بلکہ بعض حلقوں میں تو مسلم لیگی امیدوار مبارکبادیں اور داد وصول کر رہے ہیں۔

جہانگیر ترین نے لودھراں میں پہلا ہاتھ اپنے سیاسی استاد اور سابق رکن قومی اسمبلی نواب امان اللہ سے کیا اور انہیں منانے ان کے گھر پہنچ گئے۔ جہانگیر ترین نے اس ڈھنگ سے نواب امان اللہ خان، میاں ارشد اقبال، احمد شاہ، عزت جاوید، حسن محمود شاہ، شیر محمد اعوان، ارشاد خان گھلو پر مشتمل پرانی پی ٹی آئی کی چھٹی کروا دی اور نئے چہروں کو متعارف کرا دیا جن میں نذیر بلوچ، شفیق ارائیں، زوار وڑائچ، اختر کانجو، اعجاز نون، نواب حیات اللہ، محمود نواز جوئیہ شامل ہیں۔ اس سے افراتفری پھیل گئئی ہے اور ابھی تک ضلع لودھراں میں پی ٹی آئی کی ایک بھی نشست کا فیصلہ نہیں ہوا۔ گویا جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں پی ٹی آئی کے اہم فیصلے کرنے والے اپنے ضلع کے فیصلے کرنے میں تادم تحریر ناکام نظر آرہے ہیں۔

دوسری طرف شاہ محمود قریشی نے بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر میرٹ کو ایک طرف رکھ کر محض گروپ بازی میں وسیم خان بادوزئی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مضبوط ترین امیدوار، جو کہ 2013 کے الیکشن میں صرف 2000 ووٹوں سے ہارے، کی جگہ پر اپنی بھانجی کے خاوند معین قریشی کو لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وسیم خان بادوزئی کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے ابراہیم خان کے کہنے پر جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی پر مشتمل گروپ کیساتھ چند ماہ سے وابستگی اختیار رکر رکھی تھی جس کی وجہ سے وہ شاہ محمود قریشی کے میرٹ پر پورے نہ اترے اور ان کی جگہ معین قریشی کو لایا جا رہا ہے۔ معین قریشی پیپلز پارٹی کے ایک کارکن عثمان بھٹی سے ایک ضمنی الیکشن میں شکست کھا چکے ہیں۔ ان کا اپنے انتخابی حلقے میں کئی سال سے کوئی رابطہ نہیں مگر وہ چار سال مسلسل رابطے رکھنے والے وسیم خان پر محض برادری کی بنیاد پر بھاری قرار پائے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کہ معین قریشی نے گھوٹکی میں شاہ محمود قریشی کے ساتھ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر کے واپسی کی راہ لے لی تھی اور مسلم لیگ ن کی پناہ میں چلے گئے تھے۔ معین قریشی پاکستان کی بجائے زیادہ وقت کینیڈا میں گزارتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے اپنی سیٹ کے علاوہ اپنے بیٹے زین قریشی کی سیٹ بھی پکی کر لی ہے۔

حیران کن طور پر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی نے باہم اتفاق سے سکندر بوسن کیلئے دل کے دروازے کھول رکھے ہیں اور سالہا سال سے قومی اسمبلی کے اس حلقے این اے 154 میں پی ٹی آئی کی قیادت اور ورکروں کی خدمت کرنے والے احمد حسین ڈیہڑ کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ سکندر بوسن 2013کے الیکشن میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد عین وقت مسلم لیگ ن میں چلے گئے تھے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو اس حلقے میں بہت بڑا دھچکا لگا تھا۔ تحریک انصاف کے ورکر سکندو بوسن کے اس دھوکے کو بھول نہیں پا ر ہے البتہ پی ٹی آئی کی قیادت اسے بھول چکی ہے۔ سکندر بوسن کو پی ٹی آئی میں لانے کیلئے سب سے زیادہ کوشش جہانگیر ترین کر رہے ہیں جو تاحال لودھراں میں سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ نہیں کر سکے۔ ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی اس کوشش میں ہیں کہ اگر معین قریشی کو ٹکٹ نہیں ملتا تو پھر ملک عامر ڈوگر کے بھائی عدنان ڈوگر کو اکاموڈیٹ کرلیا جائے مگر وسیم خان بادوزئی کو پٹھان گروپ کیساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے کی سزا ضرور دی جائے۔

شاہ محمود قریشی میاں چنوں سے مضبوط ترین امیدوار پیر اسلم بودلہ کی بجائے ظہور قریشی کو لانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ جو کہ اسلم بودلہ کے مقابلے میں کمزور امیدوار ہیں مگر شاہ محمود قریشی کے قریبی رشتے دار ہیں۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے 154 میں ٹکٹ کا فیصلہ ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی سے رائے حسن نواز کریں گے۔

سارے علاقے میں پی ٹی آئی کے کارکن مضطرب ہیں۔ حیران کن طور پر اس صورتحال سے اسحاق خاکوانی اور ابراہیم خان لاتعلق ہیں اور کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).