ہماری سندھ دھرتی کےمینڈک


ہمارے قدیمی سندھ کے اکثر دیہاتی نوجوان اپنے گھر کو ہی کل کائنات سمجھتے ہیں گھر سے کھیتی باڑی اور کھیتی باڑی سے گھر یا آفیس اور گھر ان کی بس یہی دنیا ہے اور وہ شاید اسی دنیا میں خوش ہیں اور کئی نوجوان تو اپنے امی ابو کے لاڈلے بھی جو گھرسے باہر نکل نہیں پاتے اور ان کا گھر ہی بس اپنی دنیا ہے۔ ہر سال کی طرح جب جون جولائی اور اگست کے مہینے آتے ہیں اور ان مہینوں کے اندر موسم گرم اور خشک رہتا ہے  اور اتنا گرم کے ہمارے جسم پسینوں سے شرابور ہوجاتے ہیں جیسا ہی جون جولائی کا موسم آتا ہے تو میرا ذہن بھی شمال کی طرف متوجہ ہونے لگتا ہے اور ہر سال میرا شمال کی طرف جانا ہوتا ہے۔

اس بار بھی میں نے جانے کا ارادہ کیا تو اپنے دوست کو کہا آپ میرے ساتھ وادی کمراٹ چلو گے تو کہنے لگا کے یہ کہاں پر ہے میں نے اس کو اپنے ٹور کا پورا پلان بتایا لیکن اس کے ذہن میں یہ بات پلے نہیں پڑی اور ہر دفعھ کی طرح کوئی نہ کوئی بہانہ کرتا کے نہیں مجھے بہت ڈر لگتا ہے امی ابو اجازت نہیں دیگے۔ میں نے کہا دیکھو بھائی میں آپ کو ہر دفعہ کہتا ہو اور آپ ہر سال ہی یہی جواب دیتے ہو۔ بھائی باہرکی دنیا دیکھیں اور گھومیں اپنے گھر میں قید بن کر رہ گئے ہو۔ کنویں کا مینڈک نہ بنو۔

جیسا کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ بڑی سخت گرمی پڑی اور برسات کا موسم بھی صاف نکل گیا۔ تالاب اور جھیلیں خشک ہونے لگیں۔ جھیلوں میں مچھلیاں تڑپ تڑپ کر مرنے لگیں۔ بگلوں نے اب دریا کا رخ کیا جہاں بے شمار مچھلیاں رہتی تھیں۔ ایک بگلے نے ایک موٹی تازی مچھلی پکڑی اور چونچ میں دبا کر لے اڑا اور سوچا کہ کسی درخت پر بیٹھ کر مزے سے کھاؤں گا، مگر مچھلی بھی طاقتور تھی، زور سے پھڑکی اور یوں بگلے کی چونچ سے آزاد ہو کر نیچے کنویں میں جا کر گری۔
اس کنویں کے اندر کئی چھوٹے بڑے مینڈک رہتے تھے۔ مچھلی کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے ایسی مخلوق کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ایک بڑا سا مینڈک ہمّت کر کے آیا اور مچھلی سے پوچھنے لگا، ”تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ “

مچھلی نے اسے بتایا، ”میں پانی کی مخلوق ہوں۔ مجھے مچھلی کہتے ہیں۔ میں دریا میں رہتی تھی اور دریا ہی میرا گھر ہے۔ “
مینڈک نے حیرانی سے پوچھا ”دریا کیا ہوتا ہے؟ “
مچھلی نے بتایا، ”دریا بہت لمبا چوڑا ہوتا ہے۔ اس میں گہرا پانی ہوتا ہے جو بہتا رہتا ہے۔ بہت لمبا چوڑا۔ جب پانی بہتا ہے تو لہریں اٹھتی ہیں اور ہمیں جھولا جھلاتی ہیں۔ “
مینڈک اچھل کر کنویں کے ایک کنارے پر پہنچا اور وہاں سے تیرتا ہوا آیا اور مچھلی سے پوچھا، ” کیا دریا اتنا چوڑا ہوتا ہے؟ “
مچھلی نے کہا، ”نہیں مینڈک بھائی! یہ فاصلہ تو کچھ بھی نہیں۔ دریا تو کہیں زیادہ چوڑا ہوتا ہے۔ “

مینڈک پھر اچھلا اور اچھل کر کنویں کے دوسرے کنارے پر گیا۔ پھر وہاں سے تیرتا ہوا آیا اور مچھلی سے پوچھنے لگا، ”دریا کیا اتنا لمبا ہوتا ہے؟ “
مچھلی کو ہنسی آگئی اور وہ کہنے لگی، ”نہیں نہیں مینڈک بھائی! یہ فاصلہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ دریا تو میلوں لمبا ہوتا ہے۔ “

مینڈک بڑی بڑی آنکھیں نکال کر مچھلی کو دیکھنے لگا اور بولا، ”تم ضرور مجھ سے مذاق کر رہی ہو۔ بھلا کوئی دریا ہمارے کنویں سے بھی بڑا ہو سکتا ہے۔ تم یا تو میرا مذاق اڑا رہی ہو یا تم نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہے۔ بھلا سوچنے کی بات ہے کہاں یہ لمبا چوڑا کنواں اور کہاں تمہارا دریا!“

مچھلی بے چاری کیا جواب دیتی۔ خاموش ہوگئی اور آہستہ سے مینڈک سے کہنے لگی، ”بھائی مینڈک! بات دراصل یہ ہے کہ جب تک تم نے کنویں سے نکل کر باہر کی دنیا نہیں دیکھو گے، تمہیں کسی بات کا یقین نہیں آئے گا۔ دنیا دیکھنی ہے اور نئی نئی چیزیں دیکھنی ہیں تو کنویں سے نکلو۔

آپ بھی خدارا کنویں کا مینڈک نہ بنیے بلکہ آگے بڑھئے دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھئے، کچھ کر گزرنے کا عزم کیجئے، اپنے آپ کو محدود نہ کرے، اپنی زندگی کو خوشحال بنائے قدرت کے تخلیق مناظر دیکھو خدا نے ہمارے لیے کتنی حسین دنیا بنائی ہے اپنے اندر کی خوشی کو پہچانو آپ کی خوشی کس میں ہے باہر کی دنیا دیکھو۔ یقین کرو۔ آپ کی زندگی گل و گلزار ہوجائے گی۔ کسی پرندہ کی طرح نہ بنو جیسے کوئی پرندہ جو پنجرے میں پیدا ہوا ہو اسے لگتا ہے کہ وہ آزاد ہے، وہ پنجرے کو ہی کل کائنات سمجھتا ہے۔ ہم انسان بھی پرندوں کی طرح خود کو آزاد سمجھتے ہیں، بس فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے پنجرے پرندوں کے پنجروں سے بڑےاور الگ تھلگ ہوتے ہیں۔

گھر سے آفس اور آفس سے گھر تک۔ جو علائقہ ہوتا ہے وہی ہمارے پنجرے ہوتے ہیں۔ ہماری مجبوریاں اور ڈر ہی دراصل ہمارے پنجروں کی سلاخیں ہوتی ہے جو ہمیں آزاد نہیں ہونے دیتی۔ جو لوگ ان پنجروں کو توڑ کر ایڈوینچر اور گھومنے پھرنے کے لیے نکلتے ہیں، وہی لوگ ہی اصل زندگی جیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).