ایک خاندان، 28 قتل اور دو کمسن بہن بھائی


دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے ہم لوگ تین ہفتے گزارنے کے لئے ایک جگہ اکٹھے تھے۔ ہم تقریباً 65 ملکوں کے 90 سے زائد افراد تھے۔ عجیب فضا تھی، پوری دنیا جیسے ایک ہی چھت کے نیچے آگئی تھی۔ گورے، کالے، سانولے مرد اور عورتیں۔ درجنوں زبانیں بولنے والے۔ مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ، بدھسٹ، ایتھیسٹ امریکی ریاست ورمونٹ (Vermont) کے چھوٹے سے شہر بیٹل بَرو (Brattleboro) میں اپنے اپنے قصے لئے ہم سب ایک دوسرے کے دکھ درد جاننے اور ان کے ممکنہ حل تلاش کرنے کے سلسلے میں جمع تھے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ مجھے اس پر ایک کتاب لکھنی چاہئے۔ اس وقت میں آپ کو ایک ناقابل یقین کردار کے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔

ہمیں تقریباً دس دن بیت چکے تھے اور ہم سب ایک دوسرے کو کافی حد تک جان چکے تھے، دوستیاں ہو چکی تھیں۔ ایک دن ہمیں بتایا گیا کہ Joseph Sebarenzi (جوزف شبارینزی) آئیں گے اور ہمیں Restorative Justice کے متعلق پڑھائیں گے۔ ہمیں بس اتنا پتہ تھا کہ جوزف ایک Peace builder ہے اور انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے؛ “God Sleeps in Rawanda”. جیسا کہ وہاں لوگوں کا معمول ہے، جوزف وقت سے کچھ پہلے پہنچ گئے تھے۔ 40 سے اوپر ایک دراز قد سیاہ فام۔ جوزف نے اپنا تعارف شروع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسی ادارے سے Peace building میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ملک روانڈا کی پارلیمنٹ کا صدر بن گیا۔ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد جوزف امریکہ واپس آگیا اور واشنگٹن میں Restorative Justice کے لئے ایک ادارے میں بطور ڈائریکٹر کام کرنے لگا۔

وہ امریکہ کیوں اور کیسے آیا، یہ ایک لمبی اور اعصاب شکن کہانی ہے۔ 1994 میں روانڈا میں Hutu اور Tutsi قبائل کے بیچ جاری چپقلش خونریزی کے انتہا کو پہنچی تو صرف سو دن میں ہوتوؤں کے ہاتھوں دس لاکھ تُتسیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لاکھوں کی تعداد میں تُتسی جانیں بچانے کے لئے بے سروسامانی کی حالت میں چاروں جانب بھاگنے لگے۔ جوزف ان خوش نصیبوں میں تھا جو کسی طرح جان بچا کر امریکہ پہنچ گیا۔ جوزف ہمیں لیکچر دے رہا تھا اور جوں جوں ہمیں اس کے متعلق پتہ چلتا گیا، ہال میں سناٹا چھاتا گیا، سب لوگوں کے چہرے فق ہوگئے، دل درد کی شدت سے پٹے جاتے تھے۔ جوزف کی داستانِ غم دلوں پر ہتھوڑا بن کر برس رہی تھی۔ جوزف نے پروجیکٹر پر ایک تصویر ڈال دی۔ ایک ہنستے بستے خاندان کے 28 لوگ اس تصویر میں نمایاں تھے۔ سب کی آنکھوں میں زندگی کے خواب صاف دکھائی دے رہے تھے۔ جوزف کے ماں، باپ، دادا، دادی، بھائی، بہنیں، ان کے بچے، چچا، ماموں، کزنز۔ کسی فیملی فنکشن میں شاید سب اکٹھے ہوئے ہوں گے۔ جوزف ایک لمحہ رکے اور پھر ہمیں بتایا کہ اس تصویر میں جتنے لوگ تھے، سوائے دو کے، سب کے سب چند لمحوں میں بیدردی سے مار دئے گئے۔ جوزف اور اس کے ایک کزن کی خوش قسمتی کہ ان خونی لمحات میں گھر پر نہیں تھے۔ ہال میں اب جوزف کی آواز کے ساتھ ہماری سسکیاں بھی شامل ہوگئیں۔ ناقابل یقین بات یہ کہ جوزف کے چہرے پر اب بھی ایک خفیف مسکراہٹ اور اطمینان دیکھا جا سکتا تھا۔ ہم میں مزید سننے کا یارا نہیں تھا۔

سننے والے رو دئے سن کر مریضِ غم کا حال

دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے

جوزف نے اپنی بات جاری رکھی۔ درد اور غم سے بوجھل دل لئے جب وہ امریکہ پہنچا تو اس کی حالت غیر تھی۔ انتقام کے شعلے اس کے سینے میں تھے اور دل و دماغ منتشر۔ وہ سوچتا رہا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ اس نے انتقام کے بجائے عفو و درگزر سے کام لینا ہے۔ وہ ایس آئی ٹی ( سکول آف انٹرنیشنل ٹریننگ) پہنچا، وہاں کی ڈائریکٹر پالاگرین (Paula Green) سے ملا، اپنا قصہ سنایا اور اپنے عزم کا اظہار کیا۔ Peace building میں پی ایچ ڈی کی۔ واپس اپنے وطن گیا۔ اپنے خاندان اور قبیلے کے قاتلوں کے ساتھ کام کیا۔ اور آج اپنے بچوں کے ساتھ ایک بامقصد زندگی گزار رہا ہے۔ بیٹے کا نام Peace ہے جب کہ Harmony اس کی بیٹی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنی ماں کو بہت مس کرتا ہے۔ Harmony کو اس کا احساس ہے اس لئے تین سالہ بچی اس کی ماں بن گئی ہے۔ وہ اسے ماں کہہ کر پکارتا ہے تو Harmony اس کی ماں بن جاتی ہے، اسے ڈانٹتی ہے، پیار کرتی ہے۔

٭٭٭     ٭٭٭

مدیر کا نوٹ: میں نے بارہ برس تک پاکستان کے دیہات میں انسانی حقوق کی تعلیم دی ہے۔ 1993 سے 2004 تک کا وہ زمانہ آسان نہیں تھا۔ اس کی تفصیل آئندہ کبھی بیان کریں گے۔ ایک سبق اس دوران درویش نے سیکھا۔ انسان سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہر انسان کے اندر محبت، آسودگی، علم، تحفظ اور امن کی خواہش موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعصب، نفرت، خوف، جہالت اور  تشدد کے عناصر بھی موجود ہیں۔ ہمارے یہ منفی رویے جنگلوں میں گزاری ہوئی صدیوں کا ورثہ ہیں۔ تہذیب و تمدن جنگل سے شہر کا سفر ہے۔ اسے سیکھنا پڑتا ہے۔ انسان بھی سیکھتے ہیں اور معاشرے بھی بدلتے ہیں۔

میں نے عامر گمریانی صاحب  کی گزشتہ تحریر پر ایک تنقیدی نوٹ لکھا تھا۔ آج ان کی زیر نظر تحریر کو شائع کرتے ہوئے مجھے اطمینان ہے کہ “ہم سب” نے عامر گمریانی کی رائے سے اختلاف کے باوجود ان کی آزادیء اظہار کا احترام کر کے درست فیصلہ کیا تھا۔ آج کی اس تحریر سے ثابت ہو گیا کہ عامر گمریانی ایک حساس، ذہین اور منصف مزاج انسان ہیں۔ مجھے یہ تحریر شائع کرتے ہوئے بے پایاں خوشی محسوس ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).