قومی سلامتی، انتخابات اور اداروں کا کردار


گزشتہ برس نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد بلوچستان میں برپا ہونے والے پارلیمانی جمہوری انقلاب کے راستے سے ہوتے ہوئے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب اور نگران حکومتوں کے قیام تک کے دوران یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ اس سال منعقد ہونے والے عام انتخابات دراصل جانے والی حکومتوں کی کارکردگی ، سیاستدانوں کی صلاحیتوں یا پارٹیوں کی استعداد پر منعقد نہیں ہوں گے۔ ملک کے عوام کی اکثریت چونکہ ان پڑھ، سیاسی پیچدگیوں سے نابلد اور جمہوریت کی نزاکتوں سے ناآشنا ہے اس لئے ان کی سہولت کے لئے یہ اہتمام کیاگیا ہے کہ عوام کو یہ بتا دیا جائے کہ انہیں اس بار ووٹ دیتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بدعنوان حکمران چاہتے ہیں یا ایسی شفاف حکومت جو ماضی کے تمام بد عنوان سیاست دانوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر ملک وقوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا اہتمام کرسکے۔ اس طرح ووٹ دیتے ہوئے لوگوں کے پاس زیادہ چوائس نہیں ہوگا۔ اس واضح سیاسی پیغام کا جواب دینے کے لئے دیوار سے لگی سیاسی قوتیں ووٹ کی عزت کا نعرہ لگا کر یہ باور کروانے کی کوشش کررہی ہیں کہ عوام کو ان انتخابات میں یہ طے کرنا ہے کہ وہ با اختیار پارلیمنٹ چاہتے ہیں یا اسی نظام کا تسلسل چاہتے ہیں جس میں ریاستی ادارے درپردہ معاملات طے کرنے یا کروانے کے اختیار کو استعمال کرتے ہیں اور منتخب حکومت اور پارلیمنٹ ان فیصلوں کی تائید کرنے کے لئے ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ یہ نعرہ لگانے والے مظلوم بن کر اپنی سیاسی ناکامیوں کی ساری ذمہ داری اس نظام پر عائد کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں ریاستی ادارے اصل اختیار کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب ان کا کہنا ہے کہ اگر عوام ان کے حق میں فیصلہ کردیں تو وہ سیاست پر ریاستی اداروں کے اختیار کی صورت حال تبدیل کردیں گے۔ تاہم نواز شریف سمیت ان سیاسی قوتوں کو اس بات کا جواب دیتے ہوئے مشکل کا سامنا ہے کہ انہیں ماضی میں دو تہائی اور واضح اکثریت کی صورت میں پارلیمنٹ میں جانے کا موقع ملا لیکن وہ ان مسائل کو پارلیمنٹ میں لا کر اس کی روک تھام کرنے کا اہتمام نہیں کرسکے۔ 30 برس بعد اب وہی نعرے سڑکوں اور جلسوں میں لگا نے سے ان کی مظلومیت کا کیسے اعتبار کیا جائے ۔ اور یہ کیسے مان لیا جائے کہ جو لوگ اب تک میمو گیٹ اور ڈان لیکس جیسے اسکینڈلز کے راز سے پردہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں وہ مستقبل میں ماضی کے برعکس پالیسی سازی کرکے ملک میں واقعی فلاحی ریاست کے خد و خال نمایاں کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس کے باوجود اب ملکی سیاسی معاملات میں سیاسی پارٹیوں کی ناکامی کے علاوہ اداروں کی زور زبردستی کے سوال پر اس قدر کھل کر بحث ہونے لگی ہے کہ تمام انتظامات اور مثبت اشاریوں کے باوجود اس بات کا امکان ایک بھیانک خواب کی صورت اختیار کرچکا ہے کہ اگر انتخابات میں ووٹ بد عنوانی یا جمہوریت کا تقابل کرتے ہوئے ڈالنے کی بجائے ووٹ کی عزت یا ریاستی اداروں کے اختیار کا موازنہ کرتے ہوئے ڈالےگئے تو اس ناگہانی صورت حال کا کیسے مقابلہ کیا جائے گا۔ کسی حد تک ڈیمیج کنٹرول کے لئے تو سنجرانی فارمولا کام کرسکتا ہے لیکن اگر ووٹ کا بہاؤ یک طرفہ اور سیاسی آگہی پر مبنی ہوا تو شاید نتائج کو قبول کرنا اور سنبھالنا دونوں ہی مشکل ہو جائیں۔

اس سیاسی اور انتظامی مشکل سے قطع نظر اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے متعدد سیاست دانوں کی سیکورٹی واپس لے کر ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ ملک میں عام لوگوں سے لے کر خواص تک کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے۔ سیاست دانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے ریاست کو زیر بار نہیں کرسکتے لیکن اس سوال کا جواب تو ریاست اور اس کے ذمہ دار اداروں کو ہی دینا پڑے گا کہ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے باوجود ملک میں کوئی بھی کیوں محفوظ نہیں ہے۔ عام شہری ہو یا عدالت کا جج، سیاست دان ہو یا فوج کا کمانڈر ۔۔۔ کوئی بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا۔ اہم لوگوں کی حفاظت اور سیکورٹی فراہم کرنے کے نام پر قائم ہونے والی صنعت روز افزوں ہے۔ ملک سے دہشت گردی ختم ہوگئی لیکن تحفظ کا احساس واپس نہیں آیا۔ ملک کو محفوظ ثابت کرنے کے لئے جو کرکٹ میچ بڑے شہروں میں کروائے گئے، ان کے دوران شہروں کو قلعہ بنادیا گیا تھا۔ عدلیہ سیاست دانوں سے اپنی حفاظت کا انتظام خود کرنے کا مطالبہ کرتی ہے تو وہ سیکورٹی اداروں سے یہ بھی پوچھ لے کہ ملک میں عدم تحفظ کی صورت حال کیوں موجود ہے۔ بدنصیبی سے پاکستانی نظام میں سیکورٹی ریاست کی سب خصوصیات ہونے کے باوجود عوام کی سہولت کے لئے یہ احساس تک پیدا نہیں کیا جاسکا کہ وہ خود کو محفوظ سمجھیں۔ کسی کو تو اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali