غیرت کا دامن صد چاک ۔۔۔ اور ردائے بانو


ہندوستان کے شہر دلی میں اکیس سالہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ملزمان اخبارنویس کے سامنے پیش کیے گئے، تو سوال ہوا ’’جنسی تشدد تو چلیئے ایک طرف، قتل کیوں کردیا‘‘۔ ملزم کا منہ کیا کھلتا کہ وکیل نے آگے بڑھ کر ایک عالمانہ جواب دے دیا۔ جو جواب دیا گیا، وہ ہمارے اجتماعی شعور کا ایک تاریک اظہاریہ ہے۔ جواب آیا ’’لڑکی نے حد سے زیادہ شور شرابہ کیا، چیخی چلائی، اگر مسلسل مزا حمت نہ کرتی، تو آج زندہ ہوتی‘‘۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جواب ہندوستان کی شعوری سطح کو اجاگر کرتا ہے، ہمارا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ تو چلیے پاکستان کے شہر لاھور چلتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی۔ ملزم سیاسی جماعت کا دیرینہ کارکن نکلا۔ یاد تو ہوگا کہ پنجاب کے وزیر قانون کو اخبار نویسوں نے گھیر کر کیس کے بابت کچھ دریافت کیا تھا؟ یاد پڑتا ہے کہ کیا جواب آیا تھا؟ یہ جواب ہمارے اجتماعی شعور کا واضح اور اجلا بیان ہے۔ قانون کے نگہبان نے پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ کہا ’’ہمیں پتہ چلا ہے کہ اس لڑکی کا پیشہ ہی یہی ہے، اس کو سنجیدہ لے کر سیاست نہیں کرنی چاہیئے‘‘۔ گمان یہ ہے کہ دلی اور لاھور کے قانونی ماہرین کی نکتہ سنجیوں کو سمجھنے میں اچھے بھلے روایتی دماغوں کو دشواری کا سامنا ہوگا، سو تجزیہ کیے دیتے ہیں۔ دلی کی لڑکی جو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنی اور پھر قتل بھی ہوئی، آخری تجزیئے میں قصور اسی کا ہے کہ وہ چلائی کیوں؟ مردانہ برتری کا احترام کرتے ہوئے اس نے صبر شکر سے کام کیوں نہیں لیا؟ لاھور کی لڑکی جس کی عزت تار تار ہوئی، قصور اسی کا ہوا کہ وہ طوائف کیوں ہے؟ جملے کی سلیس اور بے غبار تشریح یہ بنتی ہے کہ کوٹھے پہ بیٹھی طوائف ایک آزاد وجود نہیں ہے، مرد کا یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے طوائف کا وجود اس کی مرضی کے برخلاف نوچ ڈالے۔ یعنی بغیر پوچھے اگر کوئی طوائف کی دیوار پھلانگ دے تو کسی بھی طور اسے سنجیدہ نہیں لینا چاہیئے۔ میڈیکل رپورٹس وزیرقانون کی غلط بیانی کو آشکار کرچکی ہیں، مگر ہمارا اجتماعی شعور اس جبر کے ادراک سے یکسر محروم ہے کہ ایک مظلوم لڑکی کو ریاست کا نمائندہ بدچلن کہہ دے، تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ یہ بات سمجھنے کے لئے شاید ضروری ہے کہ انگشت نمائی کرنے والے شخص کا نام مفتی نعیم ہو، پھر جس پہ انگلی اٹھی ہے اس کا نام شرمین عبید چنائے ہو۔

جس سماج کا اعلی سطحی شعور اپنی بنیادوں میں اس قدر فرسودگی رکھتا ہو، وہاں کراچی کے دورافتادہ پہاڑی علاقے مومن آباد کے انیس سالہ حیات سے کیا شکوہ کیجیئے، جس نے پرسوں اپنی سولہ سالہ بہن سمیرا کو غیرت کے نام پہ قتل کردیا۔ آپ نے ویڈیو دیکھی؟ خدارا دیکھیے، بقائمی ہوش و حواس دیکھیے۔ اس بات پر مت جایئے کہ انیس سالہ لڑکے نے سولہ سالہ بہن پہ خنجر کے وار کس جگرے سے کیے ہوں گے۔ یہ بھی مت دیکھیئے کہ کس اطمینان سے اس نے اپنی بہن کو ایک چبوترے پہ تڑپتا چھوڑ دیا ہے۔ یہ بھی جانے دیں کہ تڑپتی بلکتی سمیرا سے کچھ فاصلے پہ بیٹھا حیات کس اطمینان سے موبائل میں منہمک ہے، جیسے کلو قصائی منتظر ہو کہ مرغی ٹھنڈی ہو تو میں بال وپر ادھیڑوں۔ حیات پہ دو گالیاں اور چار حرف بھیج دیجیئے۔ غور سے صرف اس ہجوم کو دیکھیئے جو سمیرا کے گرد کھڑا ہے۔ اس پورے ہجوم میں ایک شخص ایسا نہ تھا جو سمیرا کو موت کے پنجے سے چھڑانے کیلئے ہاتھ پاؤں حرکت میں لائے۔ کوئی چہرہ ایسا نہیں جو کراہتے ہوئے انسان کو دیکھ کر متغیر ہو۔ کوئی کندھا کوئی ایمبولینس؟ کوئی چیخ یا کوئی پکار؟ کچھ بھی تو نہیں۔ سبھی نے کھڑے ہوکر سانس اکھڑنے کا تماشہ کیا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ لڑکی جس کے سینے میں غیرت کا خنجر اتارا گیا ہو اس کی زندگی اور موت کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیئے۔ یہ سبق اس سماج میں ہر سمیرا کے بھائی کو اس کے باشعور بزرگوں نے پڑھایا ہے۔ کہیں بے رحمانہ تو کہیں دیبا و مخمل میں لپیٹ کر پڑھایا ہے۔ اب ہجوم کو بھی چھوڑ دیجیئے، ذرا انگلی کے پوروں پہ وہ مزاج گن لیجیئے جن پہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے وزیر قانون کی بات گراں گزری ہو۔ کوئی نہیں؟ تو پھر اندازہ کیجیے کہ یہ وہی دنیا ہے جہاں آسودہ شبستانوں میں منہ اندھیرے اس بات پہ چوڑیاں توڑی جاتی ہیں کہ دکاندار ہمیں ہمارے زیرجامے خاکی لفافوں میں لپیٹ کر کیوں دیتے ہیں۔

 سچل سر مست کی دھرتی پہ پڑی سترہ سالہ خانزادی کی لاش یاد آگئی۔ بات بہت پرانی نہیں، اب بھی اس کے عروسی لباس کی چمک سلامت ہے۔ ہاتھ لال مہندی سے رچے ہوئے ہیں اور کلائی میں موتیوں کے کنگھن کی مہک باقی۔ اس کے ہونٹوں کی لالی ابھی نہیں گئی۔ قطرہ وجود پوچھتا ہے کہ مجھے سہاگ رات کی صبح اپنے ہی خون سے کیوں نہلایا گیا؟ جواب تو غیرت مند شوہر ہی دے سکتا ہے، اسی نے دیا ہے۔ خانزادی اپنی دوشیزگی کا ثبوت نہیں دے سکی۔ دو شیزگی کا ثبوت کیسے دیا جاتا ہے، سترہ سالہ لڑکی کو کیا خبر؟ مرد کی بات اور ہے کہ آخر کتنی دوشیزگیوں کا خون کرنے کا اسے اعزاز حاصل رہتا ہے۔ یعنی غیرت مند جنس نے بھی قدرت سے کیا نصیب پایا ہے، کنوارے پن کا اسے کوئی ثبوت دینا نہیں پڑتا۔ کنوار پن؟ وہ تو پے درپے طلاقیں دینے کے بعد بھی کنوارا ہی رہتا ہے۔ چھ بچے بغل میں دابے رنڈوے کو بھی یہاں ریشم کے سات پردوں میں پروردہ دوشیزہ کی تلاش ہے۔ عزت کو آخر غیرت کی کون سی قسم کا سامنا کرنا پڑگیا ہے صاحب؟ عمر بھر کی عشوہ طرازیوں کے بعد بھی یہ غیرت سترہ برس کی عزت سے پاکدامنی کی یقین دہانی مانگتی ہے؟ غیرت مندوں سے مگر کون پوچھے؟ کوئی تو پوچھے کہ کیا تمہاری پاکدامنیوں کا تنہا ثبوت بس یہی ہے کہ سہاگ رات تمہارا دامن نچوڑنے پہ ایک قطرہ خون نہیں ٹپکتا؟

غیرت کےیہ مردانہ تقاضے ہمارے غیر نصابی علم میں اپنی بنیادیں رکھتا ہے۔ ان بنیادوں کو کہیں سے الوہیت تو کہیں سے تہذیب وروایت کا پانی ملتا ہے۔ نتائج کہیں جان سے مار ڈالنے کی صورت تو کہیں جیتے جی مار ڈالنے کی صورت ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ جو ناخواندہ ہیں وہ یک بارگی مار ڈالتے ہیں، جو خواندہ ہیں وہ تڑپا تڑپا کے مارتے ہیں۔ روز جینا اور روز مرنے کی اذیت کون سہہ سکتا ہے۔ غالب سے پوچھیئے کہ قیدِ حیات اور بندِ غم سے یکبارگی چھٹکارا کتنی بڑی نعمت ہے؟ مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ ہمیں یہ تو بتاتی ہے کہ غیرت کے نام پر ایک برس میں بارہ سو سے زائد خواتین قتل کردی گئیں، مگر کیا کوئی کمیشن ان خواتین کو شمار میں لانے کی سکت رکھتا ہے، جن کی روح غیرت کے قدموں میں روز جیتی ہے روز مرتی ہے۔ قدامت پسندوں سے نہیں، روشن خیالوں سے سوال ہے۔ گھر سے باہر سماج کا ہر تیسرا فرد روشن خیال ہے، تاریکی کا تخمینہ لگانے کے لئے گھر کا کوئی کونہ پکڑنا ہوگا۔ دامنِ یزداں سے کیا الجھیئے، کیوں نہ اپنا گریبان چاک کریں۔ کور چشموں کیلیے کیا دامن اور کیا گریبان، دیدہِ بینا کو گریبان میں اترنے کا رستہ دیجیئے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو گریبان میں نہیں جھانکتے انہیں بغلیں جھانکنی پڑتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments