شکست ایک تحفہ
میں یہ باتیں اپنی تعریف میں نہیں بلکہ اس فرق کو واضح کرنے کے لئے لکھ رہی ہوں کہ ہماری ترجیحات کیوں بدلتی جارہی ہیں۔ ہم ایسے دوست کیوں ڈھونڈتے ہیں یا ایسے لوگوں کے پیچھے پھرنا کیوں پسند کرتے ہیں جو ہمارے کسی کام آسکیں۔ اور جب وہ ہمارے کسی کام کے نہیں رہتے تو ہم انتہائی سنگدلی سے انہیں زندگیوں سے مائنس کر دیتے ہیں۔ دنیا کو مکمل طور پر مطلبی ہو نے سے بچا نا ہے تو ہمیں ایسے رویوں پر سوچنا ہوگا۔ مظہر بھائی جیت جاتے تو میں شاید انہیں ایک مہینے بعد مبارک کا میسج کرتی، مگر وہ ہارے تو انہیں مل کے یہ بتانا ضروری لگا کہ : ”کہ یہ شکست بھی ایک تحفہ ہو تی ہے، یہ سیٹ بیکس خدا اپنے پسندیدہ بندوں کو عاجز رکھنے اور جعلی، لوگوں سے بچانے کے لئے ہی دیتا ہے۔ نیگٹو میں پازیٹیو یہ دیکھیں کہ جیت کی صورت آپ کو ان لوگوں کا کیسے پتہ چلتا جو آپ کی شکست کے بعد ایسے غائب ہو ئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ“۔
مظہر بھائی نے اپنا مخصوص با آوازِ بلند قہقہ لگاکر ارد گرد بیٹھے لوگوں کو چونکایا اور کہا : آپ کو ٹیلی پیتھی آتی ہے؟ “
میں نے کہا ;کبھی کبھی ایک تجربہ بھی کافی ہو تا ہے اور میں تو زندگی میں ایسے طوطا چشم درجنوں کے حساب سے بھگتا چکی ہوں۔
زندگی میں کچھ سبق ایسے ہو تے ہیں جس کو ملتے ہیں اس کے لئے تو ہو تے ہی ہو تے ہیں لیکن اگر دوسروں کے ساتھ شئیر کر لئے جائیں تو حکایتیں بن جاتی ہیں۔ مظہر بھائی کے الیکشن کا نچوڑ : ”میں نے لبرلز کی نامینیشن جیت کر وکٹری تقریر بھی کی، جس کے سٹیج پر وہ وہ لوگ نظر آئے جنہیں میں جانتا تک نہیں تھا۔ اور میں نے الیکشن ہار کر ہاری ہو ئی تقریر بھی کی، جس کا سٹیج تقریبا اپنے بہت قریبی لوگوں کے علاوہ، خالی تھا۔ ہاری ہو ئی اور وکٹری تقریر کے سٹیج نے مجھے زندگی کی اس حقیقت سے روشناس کروایا جو مجھے جیت کی صورت کبھی نصیب نہ ہوتی ”
میں نے کہا; تو بس یہی احساس آپ کی پوری دس ماہ کی ان تھک محنت کا صلہ ہے۔ کامیابی مل جاتی تو آپ اپنی اور لوگوں کی ذات ہی نہ پہچان پاتے۔ کئی دفعہ خدا اپنے سادہ دل بندوں کو اسی طرح کے الیکڑک شاک دیتا ہے۔
ہم عام گنہگار بندوں کے غرور کے مععصوم سے مختلف لیول ہو تے ہیں، کسی کو اپنی نیکی کا غرور ہو تا ہے، کسی کو قابلیت کا، کسی کو خلوص کا، کسی کو یہ غرور کہ ہم پر خدا کا خاص کر م ہے کہ ہماری زندگی میں کو ئی غلط انسان نہیں آسکتا، کیونکہ ہم خود غلط نہیں ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ ایسے سادہ دلوں کے یہ سب غرور ٹوٹتے ہیں کیونکہ خدا جن کو اپنے قریب رکھتا ہے وہ ان کو ایسے بے ضرر سے غرور بھی نہیں پالنے دیتا، اور ایک جھٹکے سے واپس زمین پر لے آتا ہے۔ تو ایسی شکستیں اور پیراسائٹس جیسے لوگوں سے خون چسوانے کے بعد، انسان بچ جائے تو کیا کہنے اور ایسے اعصاب شکن حالات میں انسان کے پاس دو راستے ہو تے ہیں ایک یہ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنی روح کی گہرائی میں اتر جائے اور پازیٹیو انرجی کے ساتھ ذیادہ بلندی کی طرف اٹھنے کی کوشش کر ے اور دوسرا راستہ مایوسی اور نیچے اترنے کا ہے جس کی منزل ایک دلدل سے دوسری دلدل ہے۔ تو ایسے آزمائشی لمحات میں انسان کی خود کی تلاش شروع ہو تی ہے اور یہ موقع ہر ایک نصیب میں نہیں ہو تا۔
میں مظہر بھائی کو اس بات کی مبارک دیتی ہوں کہ اللہ نے انہیں عارضی کامیابی نہیں دی تو کیا ہوا اس کے بدلے ایسا تجربہ دیا ہے، ایسا سبق دیا ہے کہ جو وہ کبھی بھی جیت کر حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ چڑھتے سورج کو سلام کر نے والے 99%لوگ ہیں اور جب تک آپ کی گڈی چڑھی ہو ئی ہے یہ بھی آپ کے اوپر چڑھے ہی رہیں گے اور آپ کو اپنی مر ضی سے اپنے لئے بھی سوچنے نہیں دیں گے۔ خوش قسمت ہیں مظہر بھائی جنہیں اب اپنے لئے سوچنے کا موقعہ ملے گا۔ جیت جاتے تو میں ان کے لئے کالم نہ لکھتی اب ہا ریں ہیں تو میں انہیں یہ بتا نا چاہتی ہوں کہ یہ ہار اصل میں ایک جیت ہے۔ وہ ایک قابل، حقدار، نالج ایبل اور اپ ڈیٹڈ امیدوار تھے۔ انہوں نے جتنی محنت کی اتنی شاید کسی اور نے نہ کی ہو۔ جو بات ان کی ہار کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہو گئی، ورنہ ہر لکھنے والا لکھتا کہ مظہر شفیق وہ واحد امیدوار ہے جس نے اپنی رائڈننگ کے ایک ایک دروازے پر دستک دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جس بات کا مجھے ایک دوست کی حیثیت سے پتہ ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دفتر کے اندر انواع و اقسام کے لوگوں کو ہینڈل کرنا اور کون نہیں جانتا کہ اپنی پاکستانی کمیونٹی کے دو لوگ بھی کہیں اکھٹے ہو جائیں تو پاور کی جنگ میں ایک دوسرے کے بال نوچنے لگتے ہیں، اس سب میں مظہر بھائی کا آدھے سے زیادہ سانس تو پھولا ہی رہتا تھا پھر لوگوں کے دوغلے پن کو جانتے بوجھتے ہو ئے نظر انداز کرنا اور ہنسنے کی مشقت جھیلنا۔
الیکشن سے پہلے ہی لبرلز کی شکست نظر آگئی تھی، اس ڈی مورائلزئنگ والے ماحول میں اپنا اور اپنے والنٹئیرز کا مورال بلند رکھنا۔
مظہر بھائی! آپ ایک بہادر انسان ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے پاکستانی امیدواروں کے لئے پہلے اندر سے حسد میں بھرے ہو ئے تھے اور ان کی ہار کے بعد بے جا تنقید کر رہے ہیں انہیں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ ایک احساس کی موت نہ ہو نے دیں، احساس کریں کہ ان امیدواروں نے اپنا وقت، توانائی، پیسہ، اپنی نوکری اور فیملی ٹائم سب اس چولہے میں جھونک رکھا تھا اور سب سے بڑھ کر دماغی مشقت۔ خدا کے واسطے دوغلے پن اور حسد سے نجات حاصل کر یں۔ اور ہوا کا رخ دیکھ کر چہرے کا رخ نہ بدل لیا کریں۔
- تحریک انصاف اور قربانی - 24/09/2023
- کینیڈا کا ڈگ فورڈ: امیگریشن فرینڈلی یا ؟ - 24/10/2021
- اردو ڈیپارٹمنٹ کے استاد ڈاکٹر اجمل نیازی - 19/10/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).