میں یہ کتاب نہ پڑھنے کے لیے مرا جا رہا ہوں


پاکستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے اس کے علاوہ بھی کتابیں سامنے آئی ہیں۔ مدیحہ اعجاز کی کتاب دکانوں پر آئی اور میں ہاتھ ملتا رہ گیا کہ اس قدر مہنگی ہے، کسی لائبریری میں آجائے تو پڑھ لوں۔ عاصم سجاد اختر کی کتاب تو پوری آئی بھی نہیں۔ کراچی میں ڈھونڈا، لاہور میں پوچھا، اسلام آباد میں دریافت کروایا۔ ہر جگہ سے یہی جواب ملا۔۔۔۔ ابھی کل ہی ختم ہوئی ہے۔ پھر پتہ نہیں کب آئے گی۔ تنگ آکر مصنّف کو بھی کھٹکھٹایا کہ کتاب کہاں سے ملے گی۔ مجھ سے بھی بڑھ کر کوئی کتابوں کا رسیا نکل آیا۔ خدا معلوم کون فرشتے ہیں جو راتوں رات خرید کرلے جاتے ہیں۔ یقیناً ریحام خان اور عمران خان کا یہ تماشا عاصم سجاد اختر کے تجزیے سے زیادہ معنی خیز ہو گیا؟

اچھا، پھر وہ کتاب جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ بحث کے دروازے کُھل جائیں گے۔ ایک ایسی شخصیت نے جس کا حکم میں ٹال نہیں سکتا، امریکا سے پیغام بھیجا کہ قندیل بلوچ پر جو نئی کتاب آئی ہے وہ بھجوائیے۔ ایک دوکان سے دوسری دوکان تک گیا۔۔۔۔ پہلی دوکان والے نے کہا، کل ایک صاحب آئے تھے اور بیس کی بیس کاپیاں خرید کر لے گئے۔ کتاب مل گئی تو میں نے سوچا پڑھ کر بھیجوں۔ راتوں کی نیند اُڑا دینے والے نادل کی طرح میں سب کام چھوڑ کر اسے پڑھے گیا اور پڑھ کر چھوڑا۔ کتاب سے بعض مقامات پر مجھے چھوٹے موٹے اختلافات ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اسے زیادہ سخت ادارتی عمل سے گزرنا چاہیے تھا مگر اس کے باوجودیہ بڑی اہم کتاب ہے اور پاکستانی معاشرے کے ایسے پہلوئوں کو سامنے لاتی ہے جن پر تفصیل سے بات نہیں ہوئی تھی۔ انٹرنیٹ کے وفور اور سوشل میڈیا کی یلغار کے اس زمانے میں لوگوں کے خواب کس طرح رنگ بدلتے ہیں، زندگی کی سہولیات سے محروم اور نام نہاد پس ماندہ علاقے کے لوگ تبدیلی کی چکا چوند کو کیسے دیکھتے ہیں۔ الف لیلہ کے قصّے والے ابوالحسن کی طرح سوئے تو ایک جھونپڑے میں اور جاگے تو ایک محل۔ یہ خواب ہے یا اس سے پہلے جو دیکھا وہ خواب تھا؟ قندیل بلوچ کس کیفیت کا شکار ہوئی۔ کیا اس نے خواب دیکھنے کا جُرم کیا تھا یا غیرت کے نام پر ایک اور قتل ہو گیا؟ اس حیرت ناک داستان میں مُفتی صاحب کا کتنا انوکھا کردار تھا۔ کیا اس کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں یا انھوں نے دستانے پہن رکھے ہیں۔ پھر اس میں ارشد چائے والا بھی سامنے آتا ہے جو کیمرے کی ایک جھلک سے مشہور ہوگیا مگر پھر دیکھتے ہی دیکھے غائب۔ لاہور میں ہیلپ لائن چلانے والی نکہت ایک اور حقیقی شخصیت ہیں۔ معاشرے میں یہ کیسی تبدیلی آرہی ہے اور وہ کون سے سماجی مظاہر ہیں جہاں تبدیلی کے بجائے انجماد ہے، اس پر کوئی خاص بات سننے میں نہیں آئی۔ آتی بھی کیسے؟ ہر طرف یہی شور، ریحام خان کی کتاب آ رہی ہے، آ رہی ہے، بس آنے والی ہے!

قابلِ ذکر کتابوں کی فہرست اب اس قدر محدود بھی نہیں۔ اعلا درجے کے افسانوں کی خالق خالدہ حسین کی نئی کتاب ’’جینے کی پابندی‘‘ پر مزید گفتگو ہونا چاہیے۔ منفرد لہجے کے شاعر اکبر معصوم کے نئے مجموعے کی خبر نہیں آئی۔ کون کہہ رہا تھا کہ شائع ہوگیا ہے۔ کہاں سے ملے گا اور میں کب پڑھ سکوں گا؟ انسانی جسم و جان کے ورثے کی جینز کے ذریعے منتقلی کے بارے میں سدھارتھ مُکرجی کی کتاب نے دنیا بھر میں توّجہ حاصل کی تھی اور اب سعید نقوی نے اس کتاب کو اردو میں منتقل کر دیا ہے تو ہم سب کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ یہ کتاب میرے سرہانے دھری ہے۔ بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے ناول نے مجھ پر بہت اثر کیا۔ انیس الحق کا ناول دی بیلڈ آف عائشہ کا انگریزی ترجمہ ہے جس میں 1977ء کی بغاوت کے الزام میں ایک شخص غائب ہوجاتا ہے۔ اور اس کی بیوی پر کیا گزرتی ہے۔ اس ناول نے بہت سی ان کہی کہانیاں سنا دی ہیں۔ مگر ہمارے میڈیا کے طبل و علم کو اس سے کیا؟ ان کا تو مشغلہ ہی اور ہے۔

ابھی پچھلے دنوں وہ ناول میرے ہاتھ آگیا جس کو عربی زبان کے بین الاقوامی ادبی انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا اور انگریزی ترجمے کو 2018ء کے مین بُکر بین الاقوامی ادبی انعام کی شارٹ لسٹ میں شامل کیا گیا۔ اس ناول کا نام ہے ۔۔۔۔ فرینکن اسٹائن ان بغداد۔ یہ بھی خبر ملی کہ ناول یہ انعام حاصل کرنے سے رہ گیا۔ مگر ایسا ناول ہے کہ دانتوں میں انگلیاں دبا لینے کو جی چاہتا ہے۔ میں اپنی زبان کاندھے پر دھرے اور قلم کان پر رکھے شہر میں گھوم رہا ہوں کہ کوئی مجھ سے اس ناول پر بات کرے۔ (بات کر مجھ سے__ مجھے چہرہ دکھا میرا__!) بغداد چاروں طرف ہے اور کٹے ہوئے اعضا والا فرینکن اسٹائن بس ایک میں۔ باقی ہر طرف وہی شور غوغا۔ سب کی زبان پر ایک ہی نام، ایک ہی نعرہ۔۔۔۔

یہ کتاب نہ ہوئی میرے لیے کوہِ ندا بن کر رہ گئی۔ کیا اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بالکل ابھی کی بات معلوم ہوتی ہے کہ اخبار اٹھایا تو اس میں بھی یہی تذکرہ۔ 9 جون 2018ء کے ڈان میں مدیر کے نام ایک چھوڑ دو خط چھپے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ عمران خان کو جواب دینا چاہیے اور مہرِسکوت توڑ دینا چاہیے۔ دوسرا خط کہتا ہے کتاب چھپی نہیں اس لیے کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔ چلیے یہ تو وہی پرانے قصّے ہیں۔ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا اخبار کے اس صفحے کے اوپر والے حصے میں شائع ہونے والا کالم ثابت ہوا۔ اب عرفان حسین ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کے کالم میں میں نظر ضرور ڈالتا ہوں کہ انھوں نے کیا لکھا ہے۔ چاہیے پورا پڑھوں یا نہ پڑھوں۔ چاہے کالم گوشت گلانے اور مچھلی تلنے کے نسخے کے بارے میں کیوں نہ ہو۔ کالم اچھا خاصا چلتا رہا مگر آخر میں ٹیپ کا وہی بند آ گیا۔ عرفان حسین صاحب نے لکھا کہ وہ کتاب پڑھنے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔

I’m dying to read her.

خدا نہ کرے۔ منھ میں خاک۔ مریں آپ کے دشمن اور ان کے کالم مگر میں اس مہم میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ آپ کچھ بھی کہہ لیں، میں یہ کتاب پڑھنے کے لیے بالکل مرا نہیں جا رہا۔ میں یہ کتاب نہ پڑھنے کے لیے مرا جا رہا ہوں۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2