سانپوں کا راج


\"RABIAبچے من کے سچے ہوتے ہیں۔  ان دیوانو ں کو نئی نئی چیزیں دیکھنے، جانچنے اور دریافت کرنے کا شوق ہوتا ہے، اور کبھی کبھی یہ شوق گلے بھی پڑ جاتا ہے۔  ہمیں بھی ایسا ہی ایک جنون چڑھا، کوشش کی اور قسمت نے ساتھ دیا، سو پہنچ گئے سانپوں کی دنیا میں۔

حقیقت میں کوشش تو کرنی پڑتی ہے لیکن ملتا اسی کو ہے جس کی قسمت میں لکھا ہو خیر۔

سانپوں کی اس خوبصورت دنیا میں جہاں چھوٹے بڑے، عجیب و غریب سانپ موجود تھے۔ وہاں کچھ قابل دید حسن سے آراستہ سانپنیاں بھی تھیں، اوران کے اپنے اپنے دائرہ اختیار تھے اور وہ ان کے راجہ / رانیاں۔

جب ہم اس دنیا میں داخل ہوئے تو اس وقت ایک ہی سانپ کا راج تھا اور باقی سب چھوٹی ریاستیں چلا رہے تھے، جس طرح بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں، نوابوں اور راجپوتوں میں علاقوں کی جنگ ہوتی ہے، یہی حال ان سانپوں کا بھی تھا۔

اپنے آگے تو کسی کی چلنے نہیں دیتے۔ پیٹھ پیچھے کوئی کچھ کر گزرے تو خیر اس کی بھی نہیں ہوتی۔

اصل میں سانپوں کا کام یا فطرت ہوتی ہے ڈسنا، اوراپنے دشمن کا آخری دم تک پیچھا کرنا ان کا مقصد۔

اس لیے بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ سانپ کو مارتےوقت اس کا سر کچل دو۔  تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ جیسے شیش ناگ مرنے کے بعدبھی اپنی آنکھوں میں دشمن کی تصویر بسا لیتا ہے ۔ اور اس کا ساتھی اس تصویر کی بدولت اس ناگ کا بدلا لیتا ہے۔

پھر وہ بدلا خون سے ہو، معیشت کی بدحالی سے یا جمہوریت سے۔

یہ خصلت ٹھہری سانپوں کی تو بتائیں کہ یہی حال ہر سانپ کا ہوتا ہے، لیکن ان سے لڑنا، مارنا انتہائی مشکل۔

کیونکہ کچھ سانپ اڑ کر پیشانی پر ڈستے ہیں، کچھ آنکھوں سے، اور کچھ کی زبان ہی کافی ہوتی ہے۔

بڑے سانپ۔  اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے ۔ چھوٹے سانپوں کویاتو نکالا دیا جاتا ہے یا ہڑپ لیا جاتا ہے، اور پھر کبھی ان کی کوئی خبر نہیں آتی

کہا جاتا ہے کہ سانپ ہزار سال بعد کوئی بھی روپ بدل لیتا ہے۔  اور اس کا منکا جسے مل جائے وہ دنیا کا امیر ترین شخص ہو جاتا ہے۔

جو بھی کہتا ہے، صحیح کہتا ہے، سانپوں کی دنیا میں یہی حال تھا۔

کچھ خاموش سانپ ہر بار نیا روپ دھارتے تھے اور کچھ وقت کے ساتھ، کچھ عمر کے ساتھ، کچھ دوسرے سانپوں کو دیکھ کر۔

اور کچھ کا تو برسوں بعد بھی پتا نہ چلتا۔

اور کچھ ایسے چالا ک، شاطر۔  کہ دیکھتے ہی سامنے والے کی جنم کنڈلی نکال لیں۔

سانپوں کی دو شاخہ زبان حساس انٹینا کی طرح نہ صرف فضا میں سے بو کو جذب کرتی ہے بلکہ شکار کے مقام، سمت اور رفتار کے بارے میں بھی معلومات مہیا کرتی ہے اس کا کام کسی حد تک ریڈار کی طرح کام کرتا ہے۔

اور زہر ایسا کہ اس کا احساس ساری عمر ساتھ رہتا ہے، ہر قدم ہر لمحہ ہر سانپ کا ہر ڈسا یاد رہتا ہے ۔

وقت گزرنے کے ساتھ احساس ہوتا گیا کہ یہ ڈسنا اور یہ زہر صرف دوسروں کے لیے نہیں بلکہ ساتھی ننھے منے، نئے پرانے، یارانے غرضیکہ ہر ایک کے ہی ساتھ تھا، گویا کہ اپنی بھوک کے سامنے سانپ اپنے انڈے بھی کہا جاتا ہے۔

سانپوں کا منکا جسے مل جائے وہ امیر ترین ہوتا ہے۔ ایک نادان خود کو وہ خوش نصیب سمجھ بیٹھا کہ شاید اسے منکا مل گیا اور سانپ اکٹھے کرنے لگا، ڈگر ڈگر کی خاک چھانی، بہترین ڈسنے والے جمع کیے، پھران کے زہر کو تیز تر کرنے کے لیے ان جیسے اور لائے گئے۔

ان سب کو ساتھ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اس نادان کی سربراہی میں سانپوں کی اتنی خاموشی، معصومیت اور خوشی کیسے۔

دن گزرے اور ماہ و سال۔  بالآخر سانپوں کے راجہ جاگے۔  اور اس نادان کو ڈس لیا۔ پھر اس کا کیا ہونا ہے۔   یہ تو ابھی باقی ہے

لیکن ایک اور بات بتائیں کہ ہر ایک سانپ کا اپنا مقصد ہوتا ہے، بھلے وہ چھوتا ہویا بڑا۔  کم ضرر والا ہو یا زیادہ نقصان والا، موقع ملتے ہی کام دکھاتا ہے

آستین میں سانپ پالنے والوں کو یہ خبر ضرور ہونی چاہیے کہ اس کا کام ہے ڈسنا۔  آج نہیں تو کل اپنے لیے یہ ڈسے کا ضرور۔

اور واپس وہیں پہنچے کا۔ یعنی اپنے بل میں۔  ۔

بات چل نکلی ہے بل کی۔  تو کچھ نظر بلوں پر بھی ڈال لیتے ہیں

جو ہر مہنیے کے اوائل میں تھما دیئے جاتے ہیں، بجلی پانی گیس آئے نہ آئے صفائی ہو نا ہو، کتے گلیوں میں ناچیں، کھانے کو خوراک، سبزی دوا ملے نہ ملے۔ بل لمبے لمبے ضرور ملتے ہیں

بل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جتنی چھوٹی جس کی کٹیا ہوگی اتنا لمبا چوڑا بل اس کو آئے گا

ہم نہیں کہتے کہ یہ کسی سانپ کا کمال ہے، لیکن سنپولے تو ہوسکتے ہیں نا

اک وقت تھا جب روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کچھ بری بھی نہ تھی، لیکن مہنگائی الحفیظ الامان۔

40 سے 60 تک کا ڈالر ہوتا ہو گا، سونا 500 روپے تولا، پر جناب عالمی مارکیٹ میں فی بیرل تیل کی قیمت بھی کچھ ڈھکی چھپی نہیں۔

اب تو سانپوں نے ڈس ڈس کر حال یہ کیا کہ 110 کا ڈالر اور 50 ہزار کا سونا ہو گیا اور قرضے کئی سو ارب ڈالر۔

تیل کی قیمت 11 سال کی کم ترین سطح پر آگئی لیکن پاکستان میں چونکہ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے تو عوام کو کیوں کر کچھ دیا جائے۔

 گویا کہ سانپوں نے حصار باندھ کر دبوچا اور کمرتوڑ دی

اقتصادی ترقی کو سڑکوں، شاہراہوں، میٹرو بسوں، ٹرینوں تک محدودکردیا، روزگار کے مواقع، رہائش کی سہولت، امن وامان، سکون سے دو وقت کی روٹی کمانا، صنعتیں چلانا، کمپنیوں کا قیام۔

یہ تو صرف راج کرنے کے ہتھیار بن گئے ہیں

جس کا جو جہاں جیسا جی چاہا مملکتِ خداداد کو نوچتا رہا

 جیسے سانپ پھن پھیلائے ایک معصوم شکار پرجھپٹتا ہے، کچھ نومولود سیاستدانوں نے انقلاب کےنام پر عوام کو بے وقوف بنایا۔

کئی ماہ عوام کا وقت اور پیسا برباد کیا اور آخر میں ملا ٹھینگا

کچھ پرانے پاپیوں نے ملک کے اثاثوں کیساتھ بھی وہ ہی کھیل کھیلا ۔ چند افراد نے اپنی جیبیں بھری، غیرملکی تجوریاں آباد کیں اور حرام کھلا کر نسلوں کو چھوڑدیا بدلہ لینے۔۔۔  شیش ناگ کی طرح

کچھ ایسے ہی سنپولے خاموش جنگ میں مصروف ہیں۔ کہ مذہب سے نکل کر مسلک اور فرقوں میں بٹ گئے، روکا تو بند توڑتے باہر نکل ائے کسی نے بدلہ خون سے لیا، کسی نے جمہوریت کو انتقام بنایا

بلکل ایسے ہی ڈستا رہا جیسے ایک اژدھا اپنے شکار کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہےاور آج بھی یہ ہی سیاستدان بسوں اور ٹرینوں کو چلانے کے لیئے دوسو ارب روپیہ پاکستانی عوام کا، ٹیکسز کا، خالص بچت کا، ان فضول قسم کے پراجیکٹس کی نذر تو کرنا اپنا شیوہ سمجھتے ہیں، سونے پر سہاگہ کہ یہ اژدھے ملک و قوم کے نام پر بنے ادارے کوڑیوں کے مول بیچنے کے درپے ہیں، پی آئی اے کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جبکہ اعداد و شمار کے مطابق پی آئی اے پچھلی سہ ماہی میں وہ واحد ملکی ادارہ ہے جس نے خالص منافع کما کے دیا مگر کیا وجہ ہے کہ اسے یوں بے مول بیچا جا رہا ہے… بیچنا تو پھر ایک بات رہی مگر ان مظلوموں کے خون کا کون حساب دے گا جو اپنے بچوں کو فاقہ کشی کے اس بیروزگاری کے دور میں دو روٹی کمانے کی جدوجہد میں یوں مار دیئے گئے جیسے ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں تھی۔

کب کہاں کون کسے۔  کیسے ڈس لے، مار دے، کسی کو فکر نہیں

پولیس مقابلے ہوں یا رئیس زادوں کی عیاشیاں کس کی موت کہاں آئی کوئی نہیں بتا سکتا اور عدالتیں سانپوں کے بل بنے محفوظ پناہ گاہیں بن گئی ہیں۔ ، اس معاشرے میں چھوٹے سانپوں سے لیکر بڑے اژدھے تک محفوظ ہیں

سرکاری نوکریوں کا احوال تو اپنی جگہ مگر نجی ادارے اور انکے مالکان بھی کچھ کم نہیں ہیں آخر یہ نجی ادارے بھی تو ان ہی سیاستدانوں کی ہی ملکیت ہیں یا پھر ان کے وہ آستین کے سانپ جنہیں یہ سیاستدان دودھ پلا کر پالتے ہیں تاکہ ان کی کمائی ہوئی حرام کی دولت کو یہ کاروباری مڈل مین بزنس مین حرام سے حلال میں منتقل کر سکیں. ایسے کتنے ہی ادارے ہیں جن پر اژدھوں کا قبضہ ہے. سرکاری نوکری تو اب خواب ہوا ہی تھا اس دور میں پرائیوٹ نوکری مل جانا بھی گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

 

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments