امان اللہ خان: حریت کشمیر کا ایک اور باب بند ہوا


\"irshadمرتے تو روز ہیں لوگ لیکن کم ہی ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کے انتقال پر دوست اور دشمن سب غم زدہ ہوتے ہوں۔ امان اللہ خان ایک ایسے ہی سیاستدان تھے جن کے وضال کی خبر پر جموں وکشمیر کے طول وعرض میں دکھ کی ایک لہر اٹھی۔ وہ ایک ایثار کیش اور اپنی مٹی سے محبت کرنےوالے انسان تھے۔ ان کی زندگی کے ماہ وسال جموں وکشمیر کے عوام اور سرزمین کو أزاد اور باوقار دیکھنے کی آرزو میں کٹ گئے۔ ان سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی لیکن نہ جانے ان کی شخصیت میں ایساکیا جادو تھا کہ مخالف سیاستدان بھی ان کا نام عزت واحترام سے لیتے اور ان کے جذبہ حریت کی قدر کرتے۔ مستقبل مزاجی اور اپنے نظریے سے جڑے رہنے نے انہیں دیگر سیاسی راہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ قابل احترام اور ممتاز بنایا۔

نوئے کی دہائی میں جموں وکشمیرمیں عسکری تحریک شروع ہوئی تو امان اللہ خان اس کے راہبر تھے۔ ہزاروں نوجوانوں نے ان کے ہمراہ آزادی کا خواب دیکھا۔ اکثر یہ خواب آنکھوں میں سجائے کنٹرول لائن عبور کرکے مظفرآباد آن پہنچے تو امان اللہ خان اور ان کے ساتھی راجہ مظفرخان، سردار رشید حسرت اور ڈاکٹر فاروق حیدر نے ان  کے لیے اپنے دل اور گھروں کے دروازے وا کردیئے۔

ملکی اور عالمی میڈیا نے اس تحریک کی اس قدر پذیرائی کی کہ چند دنوں میں امان اللہ خان نوجواںوں کے ہیرو بن کر ابھرے۔ ان دنوں یہ طالب علم کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی نوجوان دوسری طلبہ تنظیمیں چھوڑ کر امان اللہ خان کے ہمرکاب ہوگئے۔ چند ایک نے یونیورسٹی کی تعلیم تج دی اور بندوق تھام لی اور سری نگر کا رخ کیا۔ ان میں کچھ آج مزارے شہدا سری نگر میں تہ خاک آرام فرما رہے ہیں۔

  \"jklfجے کے ایل ایف نے آزاد کشمیر کے ہی نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم یا آباد کشمیری نوجوانوں کو بھی حیرت انگیز سرعت سے متاثر کیا اور انہوں نے جے کے کا پرچم تھام لیا۔ مالی وسائل اور سیاسی حمایت ہن بن برسی۔ راولپنڈی کے ہاتھی چوک میں قائم لبریشن فرنٹ کے دفتر میں لوگوں کی بھیٹر لگی رہتی۔ اکثر تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی۔ ایسا لگتا تھا کہ کشمیر کی آزادی اب چند ہفتوں کی مسافت پر ہے۔ اس وقت کی حکومت پاکستان ان کی پشت پر کھڑی تھی۔ سرکاری ٹی وی سے مسلسل ان کی خبریں نشر ہوتیں۔ ان کی شہرت کا گراف آسمان کو چھو رہاتھا۔ آزادی کی تلاش میں نوجوان کا جم غفیر ان کے گرد جمع ہوچکا تھا۔

 جلد ہی یہ اشتراک دم توڑ گیا۔ طاقت ور اسٹبلشمنٹ نے پاکستان نواز گروہوں کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ جناب امان اللہ خان اور ان کی جماعت لبریشن فرنٹ کے پر کاٹ لیے گئے۔ پارٹی جلد ہی داخلی انتشار کا شکار ہو گئی۔ قیادت بھی دھڑے بندیوں میں الجھ کر ایک دوسرے کے گلے پڑ گئی۔ رفتہ رفتہ سب کچھ بکھر گیا۔ 1992 کے وسط تک جے کے ایل کے دفاتر سنسان ہو چکے تھے۔ ان کے سرگرم ساتھی یا دوسری عسکری جماعتوں میں چلے گئے تھے یا پھر دیگر سیاسی گروہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ امان اللہ خان کے سائے سے بھی لوگ بچتے‘ مبادا اسٹبشلمنٹ ناراض ہو جائے۔

\"jkl101-d3bf510deba5\"1992ہی کا ذکر ہے کہ محترمہ بے نظیربھٹو کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی اجلاس ہوا۔ عسکری اورسیاسی اسٹبلشمنٹ سرجوڑ کر بیٹھی۔ مدعا یہ تھا کہ اگر امان اللہ خان کو روکا نہ گیا۔ ان کی مقبولیت اور بالخصوص نوجوانوں میں پذیرائی اسی سرعت سے بڑھتی رہی تو خدشہ ہے کہ کہیں بھارت کے زیرانتظام کشمیر حاصل کرتے کرتے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ان دنوں امریکی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کافی سرگرم تھے۔ سفارت کار اسلام آباد میں جے کے ایل ایف کے راہنماؤں سے اکثر ملاقاتیں کرتے۔ مغربی ممالک کے سفارت کاروں کا ہر ملاقاتی سے ایک ہی سوال ہوتا کہ خودمختار کشمیر بن سکتا ہے کیا؟ حکومت پاکستان اس صورت حال سے بہت گھبرائی۔ اسے خطرہ لاحق ہوگیا کہ اگر جے کے ایل ایف کے پر نہ کاٹے  تو وہ پاکستان کی جغرافیائی سلامتی کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن سکتی ہے۔ ان دنوں یہ بات بھی کہی جاتی تھی کہ وہ آسانی سے دشمن کا آلہ کار بن سکتی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سوچنا بھی محال تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔

1994میں جے کے ایل ایف کو اس وقت زبردست دھچکا لگا جب امان اللہ خان نے سری نگر میں مقیم ممتاز راہنما یاسین ملک کو بھارت سے ساز باز کرنے کا الزام لگا کر تنظیم سے نکال دیا اس طرح رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئ۔ تنظیم مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ بزرگ کشمیری راہنما عبدالغنی لون نے یاسین ملک کو حریت کانفرنس میں شامل کرا لیا۔ اس طرح انہیں ایک سیاسی چھتری مل گئی لیکن امان اللہ خان بے یار ومدد گارہو گئے۔

حکومت پاکستان کے ساتھ نوے کی دہائی میں بگڑنے والے تعلقات کار میں آخری وقت تک کوئی سدھار نہ آ سکا۔ حکومت پاکستان نےانہیں سیاسی طور پر تنہا ضرور کیا لیکن ان کی سرگرمیوں پر کوئی قدغن لگائی اور نہ ہی ان کے معاملات میں مداخلت کی۔ وہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے ہوکر کشمیر پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے رہے۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ ماضی کی تلخیوں کو فرامو ش کرچکے تھے اور اکثر کہتے کہ میں پاکستان اور بھارت کا دشمن نہیں ہوں بلکہ خیر خواہ ہوں۔

\"JKLF-Founder-Amanullah-Khan\"سیاسی تنہائی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی بالخصوص ایک ایسے شخص کے لیے جو شہرت کی بلندیاں کوچھو چکا ہو اور لوگ جسے دیوتا کی طرح پوجتے ہوں۔ وہ اپنے لوگوں کے مستقبل کے بارے میں محض رسمی طور پر ہی فکر مند نہ ہو بلکہ اپنی زندگی ان کے لیے وقف کر چکا ہو۔ یہ زمانہ امان اللہ خان کی زندگی کا ایک تلخ عہد تھا۔ ایک ملاقات میں انہوں نے مجھے بتایا کہ مشکل کے اس دور میں سردار عبدالقیوم خان اور ڈاکٹر غلام نبی فائی نے انہیں حوصلہ دیا۔ ان کی مالی معاونت بھی کی اور انہیں ثابت قدم رکھا۔ حیرت سے میں نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آخر کیوں؟ یہ دنوں حضرات حکومت پاکستان کے بہت قریب ہیں۔ کافی دیر تک کسی گہری سوچ میں کھو گئے۔ کہنے لگے کہ شاید قدرت نے ان کا دل میرے تئیں نرم کردیا تھا۔

معاشی تنگ دستی کا ہمیشہ شکار رہے لیکن کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ اسلام آباد میں اکثر کشمیر کے حوالے سے کوئی نہ کوئی تقریب برپا ہوتی رہتی ہے۔ راقم الحروف نے کئی مرتبہ انہیں بحریہ ٹاؤن میں ان کے گھر ڈراپ کیا۔۔ اکثر گھر کے بجائے دفتر ہی قیام کرتے۔ کہتے کہ بحریہ ٹاؤن سے دفتر تک پہچنے میں وقت بہت لگتا ہے اورٹیکسی کا کرایہ بھی کافی زیادہ ہے اس لیے دفتر ہی میں سو جاتا ہوں۔ دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ کچھ کھا پی لیتے۔ کوئی تکلف تھا نہ اصرار۔

دم واپسیں تک قلم و قرطاس سے رشتہ برقراررکھا۔ کتابیں لکھیں، مضامین رقم کیے۔ حکمرانوں اور پالیسی سازاداروں کو خطوط لکھتے۔ اپنے بیانات لکھواتے۔ سفارت کاروں اور غیر ملکیوں سے مسلسل رابطہ رکھتے۔ چاندی چوک راولپنڈی کی ایک بوسیدہ سی عمارت میں پھٹی پرانی میز اور کرسی کے پیچھے گرمی سردی کی پروا کیے بغیر اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل کام کرتے۔ مشن ایک ہی تھا کہ کشمیر کا پرچم سربلند ہو۔

کئی بار اس طالب علم کو اپنے دفتر مشورہ کے لیے بلاتے۔ کبھی کبھی کسی کالم پر تبصرے کے لیے فون بھی کرتے۔ اکثر تحسین کرتے اور کبھی کبھارکسی موضوع پر لکھنے کی طرف توجہ دلاتے۔ کم ہی کبھی ذاتی مسائل یا نجی امور پر گفتگو کرتے۔

زندگی کے آخری برسوں میں ہونے والی ملاقاتوں میں بڑی دلچسپی سے یہ جانے کی کوشش کرتے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی طاقتوں کی کیا سوچ ہے۔ کن نئے خطوط پر غور وفکر ہورہاہے۔ کہتے کہ آپ لوگ نئی راہیں تلاش کریں، جمود کا شکار نہ ہوں لیکن ہمیں اپنے نظریئے اور خیالات کے ساتھ ہی اب دفن ہونا ہے۔ امان اللہ خان کا انتقال محض ایک شخص کی اس جہان فانی سے رخصتی نہیں بلکہ تحریک حریت کشمیر کا ایک درخشندہ باب بند ہوگیا۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

 

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments