خوف سے مفلوج ہوا میرا ذہن


اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں معروضی تجزیے کی گنجائش موجود نہیں رہتی۔ عدالتی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے ویسے بھی توہینِ عدالت کے قانون سے خوف آتا ہے۔ صحافت کے شعبے میں داخل ہوتے ہی اس شعبے کے استادوں نے بارہا یہ بات سمجھائی تھی کہ عدالتی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہے۔

چند مقدمات مگر ایسے ہوتے ہیں جن کا تذکرہ ملکی سیاست کے بارے میں لکھتے ہوئے ضروری ہوجاتا ہے۔ اپریل 2016ءمیں پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد چند عدالتی معاملات کا ذکر ضروری ہوگیا۔ پاکستان کے تیسری بارمنتخب ہوئے وزیراعظم اوران کے بچوں کے مالی معاملات کے بارے میں سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بات فقط ان تک محدود نہ رہی۔ آئین کا آرٹیکل 62-F بھی ہماری سیاست کا اہم ترین موضوع بن گیا۔ اس آرٹیکل کے تحت کسی منتخب عہدے کے لئے تاحیات نااہلی کے بعد بھی لیکن نواز شریف ہماری سیاست کا اہم ترین کردار ہیں۔ ساری سیاست بلکہ ان کے خلاف یا حمایت میں تقسیم ہوئی نظر آرہی ہے۔

نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت سے میرا صحافیانہ رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے بارے میں لکھتے ہوئے فقط اپنے تجربے اور مشاہدے پر انحصار کرتا رہا ہوں۔ ان دو کی بنیاد پر گزشتہ چند دنوں سے جبلی طورپر مجھے یہ خدشہ لاحق ہونا شروع ہوگیا کہ شاید کسی نہ کسی مرحلے پر نواز شریف اپنے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں چلائے مقدمات کا کسی نہ کسی انداز میں بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

پیر کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنے سے پہلے میڈیا پر نگاہ ڈالی تو خبر آئی کہ گزشتہ کئی مہینوں سے نواز شریف کا دفاع کرنے والے ایک سینئر ترین وکیل خواجہ حارث نے مزید پیروی سے معذرت کرلی ہے۔ نظر بظاہر وہ اس بات پر شاکی نظر آئے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو ہر صورت آئندہ ایک ماہ کے اندر نواز شریف کے خلاف قائم ہوئے تین مقدمات میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا ہے۔ خواجہ صاحب کا خیال ہے کہ مقدمے کی سماعت کو سرعت سے مکمل کرنے کے لئے انہیں اور عدالت کو تقریباََ 24/7 کام کرنا ہوگا۔ ہفتے اور اتوار کی عمومی چھٹیاں بھی ان کے کام نہیں آئیں گی۔ وہ یہ پریشر برداشت نہیں کرسکتے۔ لہذا مقدمے سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

خواجہ حارث کے فیصلے کے برسرعام آنے کے بعد تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری صاحب ٹی وی چینلوں کو یہ بتاتے نظر آئے کہ چونکہ نواز شریف کو مذکورہ مقدمات کی روشنی میں سزا ملنا یقینی نظر آرہا تھا، اس لئے ان کے وکیل ”جوتے ہاتھ میں لے کر“ بھاگ گئے ہیں۔

میرے لئے اہم ترین سوال مگر یہ ہے کہ خواجہ حارث کی مذکورہ مقدمات سے دست برداری کے بعد نواز شریف صاحب کیا حکمت عملی اختیار کریں گے۔ یہ کالم لکھنے تک مجھے اس سوال کا واضح جواب نہیں ملا تھا۔ نظر بظاہر وہ پیر کے روز اپنی بیمار اہلیہ کی عیادت کے لئے لندن جانا چاہ رہے تھے۔ وہاں پہنچنے کے بعد شاید وہ عدالت سے یہ استدعا بھی کرتے کہ انہیں عید کی چھٹیاں ختم ہونے تک بیگم صاحبہ کے پاس رہنے کی اجازت دی جائے۔ مجھے خبر نہیں کہ عدالت اس ضمن میں کیا رویہ اختیار کرے گی۔ میں اعتماد کے ساتھ یہ طے بھی نہیں کرسکتا کہ عدالت میں حاضری سے استثناء کی اجازت نہ ملنے کے بعد نواز شریف صاحب کا رویہ کیا ہوگا۔

اہم ترین سوال فی الوقت یہ بھی ہے کہ خواجہ حارث کی جانب سے وکالت واپس لینے کے بعد نگران حکومت یا عدالت انہیں لندن جانے والی پرواز لینے دے گی یا نہیں۔ یہ بات اگرچہ طے شدہ نظر آرہی ہے کہ اگر انہیں لندن جانے سے روکا گیا تو نواز شریف خواجہ حارث کی جگہ کوئی نیا وکیل ہائر کرنے سے انکار کردیں گے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ ان کے خلاف مقدمات اب یک طرفہ چلیں۔ اس صورت میں آئند ایک ماہ کے اندر نہ صرف مقدمے کافیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا بلکہ ان کو سزا ملنے اور جیل بھیجے جانے کے امکانات بھی مضبوط تر ہوجائیں گے۔

ٹھوس حقائق اپنے تئیں کچھ بھی رہے ہوں، خواجہ حارث کی نواز شریف کے دفاع سے دست برادری کے بعد ملکی سیاست میں ایک نیا سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس سوال سے وابستہ معاملات آئندہ انتخابات پر گہرا اثر ڈالیں گے۔ نوازشریف اگر لندن چلے جانے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں سے کسی بھی بنیاد پر واپس نہ آئے تو ان کے مخالفین کو انتخابی مہم کے دوران ”بھگوڑا“ کی صدائیں لگانا بہت آسان ہوجائے گا۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے امیدوار شاید ان صداﺅں سے بہت خفت محسوس کریں۔ ان کے مخالفین کو تقریباَ واک اوور مل جائے گا۔

نواز شریف کو اگر لندن نہ جانے دیا گیا تو ان کے ووٹ بینک میں ہمدردی کے جذبات توانا تر ہوجائیں گے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ہی نواز شریف بغیر کسی وکیل کے احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوتے رہے تو یک طرفہ کارروائی کے نتیجے میں انہیں سنائی سزا اس ہمدردی میں مزید شدت پیدا کرے گی۔ اندھی نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر ہمارے معاشرے میں ہوئی تقسیم شدید تر ہوجائے گی۔ اس تقسیم کے نتیجے میں عدالتی غیر جانب داری پر سوالات بھی اٹھیں گے۔ اداروں کی تکریم برقرار نہیں رہے گی۔ اس تکریم پر اٹھائے سوالات ملکی سیاست میں پہلے سے موجود انتشار وخلفشار کو خطرناک حد تک ابتری کی صورت بھی دے سکتے ہیں۔

جمہوری عمل بنیادی طورپر معاملات کو Showdown کی طرف دھکیلنے سے روکنے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں 2014ء سے لیکن شوڈاﺅن ہی تمام سیاست دانوں کا حتمی ہدف رہا ہے۔ تخت یا تختہ والی کش مکش اگر صرف سیاسی جماعتوں تک محدود رہے تو سیاست کے مجھ ایسے طالب علم ہرگز پریشان نہیں ہوتے۔ ریاست کے غیر سیاسی ستون مگر کسی نہ کسی وجہ سے اس کش مکش کا حصہ بنے نظر آئیں تو Showdown کی صورتوں سے خوف آتا ہے۔ خوف سے مفلوج ہوا میرا ذہن فی الوقت اس موضوع پر مزید لکھنے کے قابل نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).