ہم نے عقل کو نظر بند کیوں کیا؟


وطن عزیز کو لاحق بہت سے مسائل میں سے ایک تفرد پسندی(Isolationism )  یعنی ’دنیا سے کٹ کے رہنے‘ کا مسئلہ ہے۔ بیرونی دنیا سے رابطے میں کمی کے باعث پاکستان کے باسیوں کے اذہان مختلف النوع پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ داخلی سطح پر ہمارا سماج تنوع کو برداشت نہیں کرتا اور ریاست کی جانب سے جبری فکری یکسانیت کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ خارجی روابط کی بدولت ہم باہر کی دنیا سے واقف ہوتے ہیں، دوسرے ممالک کے باسیوں کے طرز زندگی سے آشکار ہوتے ہیں اور مشترکہ انسانی ورثے سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ علاقائی سطح پر ہم شمالی ہندوستان کی تہذیب سے بالی وڈ کی بدولت مانوس ہیں لیکن اس کے علاوہ ہم اپنے پڑوسی ممالک کی ثقافت اور رہن سہن سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ افغانستان سے ہمارے کچھ بھٹکے ہوئے بھائیوں نے شدت پسندی اور شریعت کے جبری نفاذ کا سبق سیکھا لیکن افغانستان میں طالبان کے علاوہ بھی لوگ موجود ہیں جن کی متنوع ثقافتیں ہیں اور ان میں بربریت نہیں پائی جاتی۔ بیرونی دنیا کے متعلق ہماری معلومات کا ذریعہ نصابی کتب ، اخبارات و رسائل، ٹی وی اور انٹرنیٹ ہیں۔ پاکستانی نصابی کتب اور اردو اخبارات کے مطالعے کے نتیجے میں ہم ’دائیں بازو‘ کے نوجوان تو پیدا کر سکتے ہیں، تنقیدی شعور یا ترقی پسند سوچ کا ظہور ممکن نہیں۔ اس ’دائیں بازو‘ کی سوچ کے مطابق

 ۱۔ دنیا کے بیشتر ممالک پاکستان کے خلاف سازش کے جال بن رہے ہیں اور مملکت خداداد محض قوت ایمانی کے بل بوتے پر ان خطرات کا مقابلہ کر رہی ہے،

۲۔ پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ذمہ دار پاکستانی فوج ہے اور اس کی شان میں گستاخی در اصل غداری ہے، ہم نے آج تک جو بھی جنگ لڑی، کامیاب ٹھہرے،

۳۔ ہم ایک عظیم قوم ہیں اور ہماری اس عظمت کے باوجود باقی دنیا ہمیں مسلسل نظر انداز کیے جا رہی ہے،

۴۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ امریکہ کا افغانستان پر حملہ ہے،

۵۔ نظریہ پاکستان ایک الہامی نظریہ ہے اور اس پر رائے زنی غداری کے زمرے میں آتی ہے،

۶۔ اس ملک میں اسلامسٹ اور لبرل دونوں انتہا پسند ہیں ،

۷۔ ہمارا میڈیا ہر معاشرتی برائی کی جڑ ہے۔

کچھ دن قبل ’ہم سب‘ پر شائع ہونے والی ایک تحریر میں فاضل مصنف نے لکھا کہ پاکستان کا میڈیا ہر وقت ملک کے متعلق بری خبریں نشر کرتا رہتا ہے لیکن امریکہ یا برطانیہ کے چینل ملک مخالف مواد نشر نہیں کر تے۔ اگر آپ امریکی یا برطانوی ٹی وی چینل نہیں دیکھنا چاہتے تو بھی یہ مغالطہ محض ایک گوگل سرچ کی مار ہے۔ پاکستانی میڈیا کا معاشرتی تنزلی میں نمایاں کردار ہے اور عوام کو بین الاقوامی امور سے دانستہ طور پر بے خبررکھنا میڈیا کی غلطی ہے، البتہ تلخ معاشرتی رویوں اور اقدامات کی نشاندہی کوئی جرم نہیں ہے۔

 ایک دوست نے لکھا کہ ‘لنڈے کے دانشور ستر برس بعد بھی قیام پاکستان اور بانیان پاکستان پر تنقید کر رہے ہیں‘۔ ان دوست نے شائد گزشتہ کچھ ماہ سے ’مغرب‘ کی مختلف درس گاہوں میں جاری مباحثے کی خبر نہیں دیکھی کہ وہاں نوآبادیاتی دور کے ہیروز کے مجسمات گرانے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ بحث برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی تک پہنچ چکی ہے ۔ پرنسٹن میں پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی صدر ، وڈرو ولسن Woodrow Wilson کے نام پر ایک سکول موجود ہے ۔ ابراہام لنکن کے دور میں لڑی گئی امریکی سول وار کے نتیجے میں غلامی کو سرکاری طور پر ختم کیا گیا لیکن امریکی جنوب میں واقع ریاستوں نے اس اقدام پر عمل میں روڑے اٹکائے۔ وڈرو ولسن کے دور میں سیاہ فام امریکی شہریوں کو سول وار سے قبل ہونے والے سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر 60ءکی دہائی میں انہیں مکمل شہری حقوق حاصل ہوئے۔ غلامی امریکہ کے دامن پر ایک بدنما داغ ہے اور اس ضمن میں وڈرو ولسن کا کردار نمایاں، لہٰذا تنقید جاری ہے اور کھلے عام جاری ہے۔ امریکی بانیان جیسے تھامس جیفرسن یا جنرل واشنگٹن پر غلام رکھنے کے باعث تنقید عام ہے۔ کئی سال قبل امریکی پروفیسر Howard Zinn نے مروجہ امریکی تاریخ کواپنی کتاب کے ذریعے چیلنج کیا اور آج تک ان کی کتاب مقبول عام ہے۔

لبرل انتہا پسند جس دن خود کش حملے اور جلاﺅ گھیراﺅ شروع کر دیں، انہیں انتہا پسند کہنا شروع کر دیجئے گا، تشدد کا جواب دلیل سے دینا انتہا پسندی نہیں ہوتی۔

تفرد پسندی کے باعث ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ شاید ہمارے ملک کو درپیش مسائل انوکھے ہیں حالانکہ یہ حقیقت نہیں اور بعد از نو آبادیاتی (post-colonial) ممالک میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ ہمیں دیگر ممالک کے مسائل اور غلطیوں سے سیکھنے کی روش اپنانے کی ضرورت ہے۔ جیسے بھارت میں ’دھرنے‘ کی سیاست تحریک انصاف سے کچھ سال قبل کجریوال صاحب متعارف کروا چکے تھے۔ ہمارے ہاں ڈاکٹروں کی ہڑتا ل پر بہت شور وغوغا بلند ہوتا رہا لیکن گزشتہ سال بھارت اور آج کل برطانیہ میں ڈاکٹر ہوبہو انہی وجوہات کی بناپر احتجاج میں مصروف ہیں۔ سری لنکا نے دو دہائیاں دہشت گردی سے لڑتے گزار دیں، ہم نے ان سے کیا سیکھا ؟ بھارت میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک پر ہمارے ’سینئر تجزیہ نگار ‘ کیوں خاموش ہیں؟ امریکہ میں برنی سینڈرز Bernie Sandersاور ڈونلڈ ٹرمپ Donald Trumpکے بیانات پر کتنے تجزیاتی کالم لکھے گئے ہیں۔ اسرائیل میں آج کل ’مطالعہ پاکستان ‘ نما مضمون متعارف کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ ہمارے ہاں یہ کارروائی ایوب دور میں شروع ہو چکی تھی ۔ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں فوج اور جمہوریت پسند قوتوں کا تصادم کئی دہائیوں سے موجود رہا ہے۔ بھارت کے معاشرتی حالات ہم سے کچھ زیادہ مختلف نہیں لیکن وہاں قومی تنوع زیادہ ہے لہٰذا ہم جیسے مسائل کھل کر سامنے نہیں آتے۔ بلو چستان کی خود مختاری کا نعرہ بلند کرنے والے سکاٹ لینڈ، سپین میں کیٹالونیہ Catalonia اور سکم Sikkim کے حالات اور وہاں اٹھنے والی تحاریک سے بے خبر ہیں۔ سماجی سطح پر ہم مشرق وسطیٰ سے زیادہ مشرق بعید کے ممالک جیسے برما یا تھائی لینڈ کے قریب ہیں۔ گلوبلائزیشن کے دور میں دنیا سے کٹ کے رہنا ہمارے لئے شدید نقصان دہ ہے۔ ہم دنیا کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے لٹھ لے کر دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

 میری استدعا محض یہ ہے کہ خدارا اپنی ’حتمی رائے‘ قائم کرنے سے پہلے ہمارے قائم کردہ بسم اللہ کے گنبد سے باہر جھانک لیا کیجئے۔ منہ سویرے کبھی گھر سے نکلو، کیا ترو تازہ ہوا ہوتی ہے۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments