ریحام  خان  اور  “می ٹو”  ٹرائینگل


عائشہ گلالئی، میشا ظفر اور ریحام خان کا می ٹو مثلث ہوبہو برمودا مثلث کی طرح ہے۔ اس مثلث میں عائشہ گلالئی اور ریحام خان نے سیاسی جبکہ میشا ظفر نے پیشہ ورانہ میدان میں جنسی ہراسانی کا رنگ بھرا۔ اس بحرغرقاب میں عزت نام کی پو شاک مبینہ طور پر غرق ہوئی اور سطح پہ جو بچھے کچھے چیتھڑے اچھل رہے تھے، انھیں خوب اچھالا گیا۔ حسینوں کی عزت کا ٹائی ٹینک جنسی ہراسانی کے برفانی تودے سے ٹکرا کر پاش پاش ہوا۔ تو جہا‎ز کا کپتان پریشان اور ساحل پہ کھڑے تماش بین کچھ کرنے کی بجائے اس نظارے سے لطف اندوز ہو نے کے چکر میں تھے۔ شہر ناپرساں کے باسیوں کو مدتوں بعد پٹاخوں بھرا تماشا نصیب ہوا تھا۔ ہر تماشے کی تھرل کی میں چل کی چاہ رکھنے والے اس موقع کو تھوڑی گنواتے۔ یوں یہ حقیقی کہانی ”لائف آف پائی“ فلم کی شکل اختیار کر گئی۔
(Thrill، Chill، Life of Pi )

جنگل کے بادشاہ شیر نے پایہ تخت کو بمع رعایا سلطنت کے بحر انصاف میں جیسے ہی موجوں سے ہمکنار کیا، سونامی نے فورا سر اٹھایا۔ شیر لہروں کی زد میں آکر ڈوبنے ہی والا تھا۔ کہ اچانک اس کی نگاہ تخت کے ٹکڑوں پہ براجمان چیتھڑوں میں ملبوس رعایا پہ پڑی۔ اپنے وراثتی بقایا جات پہ اپنی ننگ دھڑنگ رعایا کو براجمان دیکھ کر شیر پہلے تو غصے سے لال پیلا ہوا۔ لیکن پھر زندگی بچ جانے کے بعد حساب چکتا کرنے کی غرض سے سبز باغ کی مرغوب ترغیبی سیاسی چال چلی۔ اور بعد مدت ہاتھ آئے ہوئے تخت کے ٹکڑوں پہ قابض رعایا نے روایتی بدوپن اور رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے جھٹ سے اپنی زندگی کی جمع پونجی (ساکھ کی) بیساکھی کو آگے کر دیا۔ ‎شیر، شیر ہوتا تو سونامی کی بجائے چلو بھر پانی میں ہی ڈوب مرتا۔ لیکن یقینا کاغذی تھا اور کاغذی شیر سے غیرت کی توقع رکھنا بھینس کے آگے بین بجانے اور اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے مترادف ہے۔ تخت پہ پنجہ جماتے ہی عادت سے مجبور شیر محسن رعایا پہ غرانے لگا۔ کونے میں دبکے ہوئے رعایا کو جان کے لالے پڑ گئے۔ خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور تخت ساحل پہ لںگر انداز ہوا۔

سلطنت پہ قدم رکھتے ہی شیر اک شان بے نیازی سے رعایا پہ بیگانہ سی نگاہ ڈالتے ہوئے روایتی بے وفائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خراماں خراماں جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ چار و ناچار رعایا نے ساحل پہ موجود تماش بینوں کو اپنی سرمایہ زندگی لٹنے کی درد بھری آپ بیتی سنانا شروع کی۔ وہ پہلے تو یہ ناقابل یقین کتھا سن کے سکتے میں آئے۔ پھر رعایا کی داستان اچھال اچھال کے وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ رعایا کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ شور تھما تو تماش بین رعایا کی آپ بیتی کو رام کہانی گردانے لگے۔ دھیرے دھیرے رعایا کی جنسی جنسی ہراساں آواز لہروں سے واپس ہوتے ہوئے ساحل پہ کھڑے چٹان سے ٹکرا کے سرگوشی جیسی بازگشت میں تبدیل ہونے لگی۔ اور تماش بین بحر کے وسط میں اک بار پھر برپا سونامی کی ساحل کی طرف بڑھتے ہوئے لہروں کا نظارہ کرنے لگے۔

تماشوں سے دور پرے، گلشن کے دانا‎ئے روزگار نکتہ چینی سے باز نہیں آئے۔ کہ عائشہ گلالئی، میشا ظفر اور ریحام خان نے جنسی وارداتیں ہونے کے فورا بعد جائے واردات سے ”می ٹو“ کمپین کا آغاز کیوں نہیں کیا؟ کیا یہ ٹال مٹول وقتی مفادات حاصل کرنے کی خاطر تھا؟ کیا وقتی مفاد کی خاطر ایک عزت مند اور غیرت مند شخص اپنی عزت داؤ پہ لگا سکتا ہے؟ کیا انھیں متعلقہ اشخاص کے کردار کے بارے میں بھرپور معلومات نہیں تھیں؟ کیا اس اقدام سے انھیں نقصان اور عمران خان کے حریفوں کو فائدہ نہیں پہنچا؟ کیا طلاق کے بعد سے اب تک باوقار خاموشی اور ریحام کی عزت رکھنے والے عمران خان کی ذات پہ یوں کیچڑ اچھالنا مناسب ہے؟ کیا ریحام خان کی کتاب میں الزامات کی بوچھاڑ عمران خان تک محدود مخصوص پیرائے سے مسلم لیگ (ن) کی سازش کی بو نہیں آ رہی؟ کیا ریحام خان کے نزدیک پدرانہ جذبات رکھنے والے شہباز شریف پہ کچھ سنگین الزامات نہیں لگے؟ کیا ریحام خان کی تحریک انصاف میں شمولیت اور خان صاحب سے شادی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی چال تھی؟ عین انتخابات کے موقع پر کتاب شائع کرنا مسلم لیگ (ن) کی کمپیں ہے یا ”می ٹو“ کی؟ اور کیا عائشہ گلالئی، میشا ظفر اور ریحام خان اس نکتے پر زور و شور سے عمل پیرا ہیں؟

ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
( نواب مصطفیٰ خان شیفتہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).